نصیبوں میں اپنے سہارا نہیں ہے

ایم اے راجا

محفلین
نصیبوں میں اپنے سہارا نہیں ہے
تلاطم بہت ہیں کنارا نہیں ہے

پکاروں کسے آج راہوں میں اپنی
کسی سمت کوئی ہمارا نہیں ہے

تجھے تو ضرورت نہیں خیر میری
مگر میرا تجھ بن گذا رہ نہیں ہے

زمانا کہاں سے کہاں تک پہنچا
مگر میر ا چمکا ستا را نہیں ہے

میں لاؤں کہاں سے بھلا شعر سچا
کوئی ذہن میں استعارہ نہیں ہے

لگے لاکھ دھچکے ہیں کشتی کو میری
کسی نا خدا کو پکارا نہیں ہے

گناہوں میں لتھڑا ہوا تو بہت ہوں
کسی کا کفن پر اتارا نہیں

بڑا بے وفا ہے مگر پھر بھی اسکی
یوں رسوائی مجھکوگوارہ نہیں ہے

سروں پر ہمارے ابھی تک ہے واجب
جو قرضہ زمیں کا اتارا نہیں ہے

لہو کو ہمارے جو گرما دے لوگو
جگر میں وہ جلتا شرارہ نہیں ہے

حسیں تو بہت ہے یہ دنیا بھی راجا
مگر میں جو چاہوں نظارہ نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
لو اس کا آپریشن کر دیا ہے:

نصیبوں میں اپنے سہارا نہیں ہے
طلاطم بہت ہیں کنارا نہیں ہے
تم جانے کیوں جمع کا استعمال بہت کرتے ہیو، اس شعر میں بظاہر کوئی خامی نہیں ہے، لیکن ’نصیبوں‘ ذرا متوجہ کر رہا ہے۔ اس کو نصیبہ کہنے میں کیا برائی ہے؟
پکاروں کسے آج راہوں میں اپنی
کسی سمت کوئی ہمارا نہیں ہے
حشو و زائد یہاں بھی ہیں، ’اپنی‘ کی ضرورت نہیں ہے۔
تجھے تو ضرورت نہیں خیر میری
مگر میرا تجھ بن گذا رہ نہیں ہے
///اچھا شعر ہے۔ لیکن اگر پہلا مصرع یوں کر دیں
تجھے چاہے میری ضرورت نہیں ہو
تو؟

زمانا کہاں سے کہاں تک پہنچا
مگر میر ا چمکا ستا را نہیں ہے
پہلا مصرع بحر میں نہیں ہے، شاید ’ہے‘ چھوٹ گیا ہے، لیکن وہی بات جو میں اکثر کہتا ہوں، الفاظ کی نشست درست نہیں ہوتی۔ ’ہے پہنچا‘ تو چل جائے، لیکن ’چمکا ستارہ نہیں ہے‘ کو کیا کروں۔ یہ شعر بدل ہی دو۔

میں لاؤں کہاں سے بھلا شعر سچا
کوئی ذہن میں استعارہ نہیں ہے

///بھلا شعر سچا میں لاؤں کہاں سے
بہتر ہو گا۔

لگے لاکھ دھچکے ہیں کشتی کو میری
کسی نا خدا کو پکارا نہیں ہے

///اس میں بھی وہی بات ہے، اس شعر کو دو بارہ کہو، پسند نہیں آ رہا۔
گناہوں میں لتھڑا ہوا تو بہت ہوں
کسی کا کفن پر اتارا نہیں
// کیا مطلب، اب یہ نوبت آ گئی!! ویسے شعر درست ہے۔
بڑا بے وفا ہے مگر پھر بھی اسکی
یوں رسوائی مجھکوگوارہ نہیں ہے
//// بڑا بے وفا کو بہت کہنے میں کیا حرج ہے
بہت بے وفا ہے، مگر پھر بھی مجھ کو
یہ رسوائی اس کی گوارا نہیں ہے

سروں پر ہمارے ابھی تک ہے واجب
جو قرضہ زمیں کا اتارا نہیں ہے

// ابھی تک ہمارے سروں پر ہے واجب
زمیں کا جو قرضہ اتارا نہیں ہے
زیادہ رواں ہو جاتا ہے۔

لہو کو ہمارے جو گرما دے لوگو
جگر میں وہ جلتا شرارہ نہیں ہے

///’لوگو‘ کی ضرورت نہیں ہے، اور شرارہ محض گرماتا نہیں ہے، بھڑکا دیتا ہے
جو اپنے لہو کو بھی شعلہ بنا دے
جگر میں وہ۔۔۔

حسیں تو بہت ہے یہ دنیا بھی راجا
مگر میں جو چاہوں نظارہ نہیں ہے
اس کی کوئی بہتر صورت سمجھ میں نہیں آ رہی فی الحال، لیکن میں مطمئن نہیں ہوں اس شعر سے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ سر کچھ مزید گزارش کرتا ہوں۔

نصیبوں میں اپنے سہارا نہیں ہے
طلاطم بہت ہیں کنارا نہیں ہے
تم جانے کیوں جمع کا استعمال بہت کرتے ہیو، اس شعر میں بظاہر کوئی خامی نہیں ہے، لیکن ’نصیبوں‘ ذرا متوجہ کر رہا ہے۔ اس کو نصیبہ کہنے میں کیا برائی ہے؟
کیا یوں کہنا چاہئیے؟ نصیبہ میں اپنے سہارا نہیں ہے طلاطم بہت ہیں کنارا نہیں ہے
پکاروں کسے آج راہوں میں اپنی
کسی سمت کوئی ہمارا نہیں ہے
حشو و زائد یہاں بھی ہیں، ’اپنی‘ کی ضرورت نہیں ہے۔
اپنی نکالنے سے بے وزن نہیں ہو گا کیا مصرع؟
زمانا کہاں سے کہاں تک پہنچا
مگر میر ا چمکا ستا را نہیں ہے

پہلا مصرع بحر میں نہیں ہے، شاید ’ہے‘ چھوٹ گیا ہے، لیکن وہی بات جو میں اکثر کہتا ہوں، الفاظ کی نشست درست نہیں ہوتی۔ ’ہے پہنچا‘ تو چل جائے، لیکن ’چمکا ستارہ نہیں ہے‘ کو کیا کروں۔ یہ شعر بدل ہی دو۔
پہلے ہے لگایا تھا مگر پھر ہٹا دیا کیا پہنچا کو ہم فعولن، پ ہنچا نہیں باندھ سکتے کیا؟

لگے لاکھ دھچکے ہیں کشتی کو میری
کسی نا خدا کو پکارا نہیں ہے

///اس میں بھی وہی بات ہے، اس شعر کو دو بارہ کہو، پسند نہیں آ رہا۔
کوشش کرتا ہوں

حسیں تو بہت ہے یہ دنیا بھی راجا
مگر میں جو چاہوں نظارہ نہیں ہے
اس کی کوئی بہتر صورت سمجھ میں نہیں آ رہی فی الحال، لیکن میں مطمئن نہیں ہوں اس شعر سے۔
سوچتا ہوں کچھ
 
استاد محترم کے کہنے کے بعد کوئی بات کہنے کو نہیں۔ ہاں طلاطم کو تلاطم نہیں لکھتے؟ یہ عربی لفظ ہے۔ اور عربی اردو میں آیا ہے‌ اور عربی میں تلاطم ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
میں نے بھی کاپی پیسٹ کیا تو خیال نہیں رکھا کہ اس کو تصحیح کر دوں۔
راجا، نصیبہ ہی درست ہے مطلع میں۔ یہی میرا مطلب تھا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
نصیبہ میں اپنے سہارا نہیں ہے
تلاطم بہت ہیں کنارا نہیں ہے

پکاروں میں کسکو بھلا راستوں میں
کسی سمت کوئی ہمارا نہیں ہے

تجھے تو ضرورت نہیں خیر میری
مگر میرا تجھ بن گذا رہ نہیں ہے

زمانا کہاں سے کہاں تک ہے پہنچا
مگر چمکا میرا ستا را نہیں ہے

بھلا شعر سچا میں لاؤں کہاں سے
کوئی ذہن میں استعارہ نہیں ہے

رہی ہے ہمیشہ بھنور میں ہی ناؤ
کسی نا خدا کو پکارا نہیں ہے

گناہوں میں لتھڑا ہوا تو بہت ہوں
کفن پر کسی کا اتارا نہیں

بہت بیوفا ہے مگر پھر بھی مجھکو
یہ رسوائی اس کی گوارہ نہیں ہے

ابھی تک ہمارے سروں پر ہے واجب
زمیں کا جو قرضہ اتارا نہیں ہے

جو اپنے لہو کو بھی شعلہ بنا دے
جگر میں وہ جلتا شرارہ نہیں ہے

حسیں تو بہت ہے یہ دنیا بھی راجا
مگر میں جو چاہوں نظارہ نہیں ہے

سر اب ذرا ملاحظہ فرمائیے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
پکاروں کسے میں بھلا آج رہ میں
کسی سمت کوئی ہمارا نہیں ہے

اس کو یوں کہو..
پکاروں میں کس کو بھلا راستوں میں
تو رواں ہو جاتا ہے.
 

الف عین

لائبریرین
زمانا کہاں سے کہاں تک ہے پہنچا
مگر چمکا میرا ستا را نہیں ہے

اس سے میں مطمئن نہیں ہوں، پہلا مصرع کم از کم دوسرا کہو،
باقی اشعار کو بعد میں دیکھتا ہوں،
 

ایم اے راجا

محفلین
زمانا کہاں سے کہاں تک ہے پہنچا
مگر چمکا میرا ستا را نہیں ہے

اس سے میں مطمئن نہیں ہوں، پہلا مصرع کم از کم دوسرا کہو،
باقی اشعار کو بعد میں دیکھتا ہوں،
سر اگر اس شعر کو یو کہوں تو۔

اجالوں کی الفت میں جانا یہ میں نے
مقدر میں میرے ستارہ نہیں ہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ارے میری جان کیا حال ہے کیسے ہیں آپ بہت محنت ہو رہی ہے لگے رہو میرے آنے تک بہت سے محنت کر لو انشاءاللہ آپ جلد کامیاب ہو جاؤ گے
اور ہاں سب خیرت ہے نا
 
Top