نصیبوں میں اپنے سہارا نہیں ہے

ایم اے راجا

محفلین
زمانا کہاں سے کہاں تک ہے پہنچا
مگر چمکا میرا ستا را نہیں ہے

اس سے میں مطمئن نہیں ہوں، پہلا مصرع کم از کم دوسرا کہو،
باقی اشعار کو بعد میں دیکھتا ہوں،
سر اگر اس شعر کو یو کہوں تو۔

اجالوں کی الفت میں جانا یہ میں نے
مقدر میں میرے ستارہ نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
ارے یہ پچیس مئی کا پیغام کیسے مس ہو گیا مجھ سے؟
نہیں راجا، بات اب بھی نہیں بنی۔
اس کو یوں کہو تو کیسا رہے، میں خیال بدلنا نہیں چاہتا لیکن اس بار کرنا پڑ رہا ہے۔
جو مٹھی کو کھولا تو جگنوہی نکلے
مقدر میں میرے ستارہ نہیں ہے
دوسرے احباب کیا کہےتے لہیں اس شعر کے بارے میں؟
 

ایم اے راجا

محفلین
دوسرے احباب سے گزارش ہیکہ وہ اس پر رائے دیں، تاکہ اصلاح کا یہ سلسلہ چلتا رہے، مگر میں محسوس کر رہا ہوں کہ استاد شعرا اس سے کتراتے ہیں جو کہ مجھ سے مبتدیوں کے لیئے ٹھیک نہیں۔
 
اب راجہ اصرار کر رہے ہیں تو اس شعر کو کچھ یوں بھی باندھا جا سکتا ہے کہ

وہ جگنو بھی مٹھی میں آتے نہیں ہیں
جو چمکا وہ میرا ستارہ نہیں‌ہے

تھوڑی سرجری کی ضرورت تو ہے، مگر خیال کا تسلسل قائم ہو جاتا ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
اب راجہ اصرار کر رہے ہیں تو اس شعر کو کچھ یوں بھی باندھا جا سکتا ہے کہ

وہ جگنو بھی مٹھی میں آتے نہیں ہیں
جو چمکا وہ میرا ستارہ نہیں‌ہے

تھوڑی سرجری کی ضرورت تو ہے، مگر خیال کا تسلسل قائم ہو جاتا ہے۔
انیس صاحب بہت شکریہ، بہت خوشی ہوئی۔
آئیں دیکھتے ہیں اس کی کیا سرجری فرماتے ہیں، ماہرین صاحبان:)
 

الف عین

لائبریرین
انیس، ’وہ‘ جگنو سے کیا مراد ہے؟ کسی مخصوص کا ذکر ہے کیا؟ میرے مجوزہ مصرعے میں ایسا نہیں ہے۔ ویسے تمہارا شعر بھی اچھا ہے۔
افسوس کہ دوسرے اساتذہ زیادہ سے زیادہ شکریے کا بٹن دبا کر نکل جاتے ہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
درست فرمایا استادِ محترم آپ نے۔
میرا خیال ہیکہ اس شعر پر مزید بحث فضول ھو گی۔
جو مٹھی کو کھولا تو جگنوہی نکلے
مقدر میں میرے ستارہ نہیں ہے
اس شعر کو شاملِ غزل کر کر کے اصلاح کو سمیٹ لیا جائے تو کیا خیال ہے استادِ محترم؟
 

الف عین

لائبریرین
ٹھیک ہے، مکمل غزل پھر پوسٹ کر دو، کوئی مصرع تم نے دوبارہ کہا ہو تو اسے بھی دیکھ لیا جائے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
نصیبہ میں اپنے سہارا نہیں ہے
تلاطم بہت ہیں کنارا نہیں ہے

پکاروں میں کسکو بھلا راستوں میں
کسی سمت کوئی ہمارا نہیں ہے

تمہیں تو ضرورت نہیں خیر میری
مگر میرا تم بن گذا رہ نہیں ہے

جو مٹھی کو کھولا تو جگنوہی نکلے
مقدر میں میرے ستارہ نہیں ہے


بھلا شعر سچا میں لاؤں کہاں سے
کوئی ذہن میں استعارہ نہیں ہے

رہی ہے ہمیشہ بھنور میں ہی ناؤ
کسی نا خدا کو پکارا نہیں ہے

گناہوں میں لتھڑا ہوا تو بہت ہوں
کفن پر کسی کا اتارا نہیں

بہت بیوفا ہے مگر پھر بھی مجھکو
یہ رسوائی اس کی گوارہ نہیں ہے

ابھی تک ہمارے سروں پر ہے واجب
زمیں کا جو قرضہ اتارا نہیں ہے

جو اپنے لہو کو بھی شعلہ بنا دے
جگر میں وہ جلتا شرارہ نہیں ہے

حسیں تو بہت ہے یہ دنیا بھی راجا
مگر میں جو چاہوں نظارہ نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
تجھے تو ضرورت نہیں خیر میری
مگر میرا تجھ بن گذا رہ نہیں ہے
تو میں نے کچھ اصلاح کی تھی نا، یہ تو تم نے ویسا ہی لکھ دیا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اور یہ دونوں شعر اب بھی کمزور ہیں، بہتر ہے کہ ان کو خارج کر دیا جائے۔
رہی ہے ہمیشہ بھنور میں ہی ناؤ
کسی نا خدا کو پکارا نہیں ہے

گناہوں میں لتھڑا ہوا تو بہت ہوں
کفن پر کسی کا اتارا نہیں ہے
 
حسیں تو بہت ہے یہ دنیا بھی راجا
مگر میں جو چاہوں نظارہ نہیں ہے


ایک اور خیال ہے وگرنہ تمہارا شعر بھی بہت خوب ہے۔
ہیں کتنے ہی جلوے نگاہوں میں راجہ
مگر میں جو چاہوں ‌نظارہ نہیں ہے
 
بھلا شعر سچا میں لاؤں کہاں سے
کوئی ذہن میں استعارہ نہیں ہے

اسی طرح یہ بات بھی بن سکتی ہے ، کہنے کا مطلب ہے کہ راجہ کہ شعر تمہارا بھی اچھا ہے لیکن تسلسل اور خیال بندھنا چاہیے۔

سناؤں بھی کیسے فسانہ ء اُلفت
کوئی ذہن میں‌استعارہ نہیں ہے
 
اور بات سنو یہ سب میں اس لئے کر رہا ہوں کہ میں بھی جلد ہی ایک غزل اصلاح کے لئے پیش کرنے جا رہا ہوں تو اسکے جواب میں تمام احباب بھی ذرا شامل اصلاح ہو ں وگرنہ بقول اعجاز صاحب کے لوگ شکریہ کا بٹن دبا کر فرض پڑھ لیتے ہیں سنتیں گول کر جاتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
ابھی تو شکریے کا بٹن دبا دیا ہے!! لیکن لکھ بھی رہا ہوں۔
انیس، میں عام طور پر شاعر کے خیالات میں چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا اصلاح میں، محض زبان و بیان دیکھتا ہوں، ہاں، کبھی کچھ اچانک زبان کی اصلاح یا روانی کی کوشش میں کچھ خیال میں تبدیلی ہو جائے تو دوسری بات ہے۔
تمہارے مشورے کے مطابق
ہیں کتنے ہی جلوے نگاہوں میں راجہ
مگر میں جو چاہوں ‌نظارہ نہیں ہے
تو قابلِ قبول ہے۔ اچھا روإں مصرع ہے۔ راجا کی مرضی چاہیں تو قبول کر لیں۔ لیکن
سناؤں بھی کیسے فسانہ ء اُلفت
کوئی ذہن میں‌استعارہ نہیں ہے
میں ’فسانہء‘ مسئلہ پیدا کر رہا ہے بحر میں۔ ’فسانائے‘ کے طور پر (بر وزن فعولن) غلط ہے۔بر وزن مفاعلن درست ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ انیس صاحب، میں حاضر ہوں لیکن میں تو ابھی خود طفلِ مکتب ہوں، بحر کیف آپکی غزل کا انتظار رہے۔
 
Top