فرخ منظور
لائبریرین
نصیب عشق دل بے قرار بھی تو نہیں
بہت دنوں سے تیرا انتظار بھی تو نہیں
تلافی ستم روزگار کون کرے
تم ہم سخن بھی نہیں رازدار بھی تو نہیں
زمانہ پرسش غم بھی کرے تو کیا حاصل
کہ تیرا غم ،غم لیل و نہار بھی تو نہیں
تیری نگاہ تغافل کو کون سمجھائے
کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار بھی تو نہیں
تو ہی بتا کہ تیری خامشی کو کیا سمجھوں
تیری خامشی سے کچھ آشکار بھی تو نہیں
وفا نہیں نہ سہی رسم و راہ کیا کم ہے
تیری نظر کا مگر اعتبار بھی تو نہیں
اگرچہ دل تیری منزل نہ بن سکا اے دوست
مگر چراغ سرِ رہگذار بھی تو نہیں
بہت افسردہ ہے دل ، کون اس کو بہلائے
اداس بھی تو نہیں ، بے قرار بھی تو نہیں
تو ہی بتا تیرے بے خانماں کدھر جایئں
کہ راہ میں شجر سایہ دار بھی تو نہیں
فلک نے پھینک دیا برگ گل کی چھاؤں سے دور
وہاں پرے ہیں جہاں خار زار بھی تو نہیں
جو زندگی ہے تو بس تیرے درد مندوں کی
یہ جبر بھی تو نہیں اختیار بھی تو نہیں
وفا ذریعہ اظہار غم سہی ناصر
یہ کاروبار کوئی کاروبار بھی تو نہیں
بہت دنوں سے تیرا انتظار بھی تو نہیں
تلافی ستم روزگار کون کرے
تم ہم سخن بھی نہیں رازدار بھی تو نہیں
زمانہ پرسش غم بھی کرے تو کیا حاصل
کہ تیرا غم ،غم لیل و نہار بھی تو نہیں
تیری نگاہ تغافل کو کون سمجھائے
کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار بھی تو نہیں
تو ہی بتا کہ تیری خامشی کو کیا سمجھوں
تیری خامشی سے کچھ آشکار بھی تو نہیں
وفا نہیں نہ سہی رسم و راہ کیا کم ہے
تیری نظر کا مگر اعتبار بھی تو نہیں
اگرچہ دل تیری منزل نہ بن سکا اے دوست
مگر چراغ سرِ رہگذار بھی تو نہیں
بہت افسردہ ہے دل ، کون اس کو بہلائے
اداس بھی تو نہیں ، بے قرار بھی تو نہیں
تو ہی بتا تیرے بے خانماں کدھر جایئں
کہ راہ میں شجر سایہ دار بھی تو نہیں
فلک نے پھینک دیا برگ گل کی چھاؤں سے دور
وہاں پرے ہیں جہاں خار زار بھی تو نہیں
جو زندگی ہے تو بس تیرے درد مندوں کی
یہ جبر بھی تو نہیں اختیار بھی تو نہیں
وفا ذریعہ اظہار غم سہی ناصر
یہ کاروبار کوئی کاروبار بھی تو نہیں