نصیحتِ والد

Saadullah Husami

محفلین
قارئین کرام ۔بہت سونچا کہ اس نظم کو کس زمرہ میں ڈالوں ۔پھر ہمت جُٹا کے حمد و نعت ۔۔۔ کے زمرہ میں پرو دیا ۔​
امید کہ گراں بار نہ ہوگی۔​
ذکرِ موت -نصیحتِ والد
میری اولاد کو ہدیہ
از سعداللہ سعدی ولد نصراللہ
۱۲ویں رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ کو ہوگئے
یاد سے سرشار ہے تیری حیاتِ نصر آج
زندگی کے کون سے لمحات پہ ہو نظر آج
نصر تُو اللہ کا ، ایک قرانی نام ہے
زندگی کیا موت میں، تُو ایک سہانی شام ہے
زندگی کو میری اور تیری ،جو دیکھا والدی
موت سے پایا سبق ، جس سے پرکھا زندگی
مانو تُو ہی کہ رہا ہے مجھ کو از بامِ نجات ہے
سعد ،تیری فکر میں ہو ،موت کی فکرِ ثبُات
موت کیا ہے ،کیوں ڈرے انسان اس سے ہر گھڑی
حسرتیں سینے میں رکھتا ہے کیوں انسانِ جری
جوڑتا ہے کیوں عمارت دولتوں کے واسطے
گھر بناتا ہے تو انسان ، بس اُجڑنے واسطے
رات دن رہتا ہے کیا ؟ دنیا کو پانے اس طرح
کیا کھلونا ہے یہ دنیا ؟ کھیلتا ہے جسطرح
عالموں کی صحبتوں میں کیوں نہ پہچانی حیات
منحصر ہے ترک دنیا پر ہی دنیا سے نجات
تُو جو گزرے ،کیا ٹھکانہ ہے سوائے قبر کے؟
کیا خبر ہے تجھ کو جی اٹھنا ہے یوم ِحشر سے
موت کے آنے سے پہلے ،ہے جہالت خود ہی موت
کیا قبر میں جانے سے انسان کی ہوتی ہےموت ؟
تُو اگر زندہ فقط ہے ، علم سے زندہ ہے تُو
ورنہ تُو جاہل مرا ، کافر مرا ، ُمردہ ہے تُو
بعد از مرگ ِمسافر ، کیا بنائگا تُو گھر ؟
علم کی ایمان کی بنیاد پر ہاں ہو تیرا گھر
خُوب تر ہو تیرا گھر ،نیکی کے اونچے ارض پر
گر بدی پر اساسِ بیت تو حِرمان و ڈر
اُس کی دیواریں مناسب خُوبیوں سے تُو سجا
جیسے صدق و صبر اور خیر و توکل بالدُّعا
اُس کا دروازہ وہ بابِ انبیاء کے مثل ہو
اُس پہ تالا سورۃ ُقل کامل سے ہو
اُس کی چھت نیلی زمینِ آسماں کا نور ہو
جس میں پردیں اور حجابیں اور طناب ِ طور ہو
جب تیرا ہوگا یہ مثل گھر ،کیا آئگی موت ؟
جب وہ تیرے در پہ آئے ، کیا نہ گھبرائےگی موت؟
ہاں مگر تُو اٹھ کھڑا ہو ،لے صراطِ مستقیم
کر تو استقبال اُس کا ، لے کے تُو وجہِ وسیم
تُو اسے بانہیں ملا کر بھینچ لینا بالسَّلام
وہ تری خدمت میں ہوگی ، ُمونس وخَیر المرام
تجھ سے پوچھے گی وہ موت ،بر زبان جبرئیل
کیا چلیں گے آپ اپنے گھر کو ائے وجہ جمیل؟
بس ، تُو خاموشی سے زبان سے ورد کرنا لا الہ
کیونکہ خیرُ الانبیاء نے بھی یہ کیا تھا برملاء
آنکھ بند کرنا ،فقط نظروں میں تیرے ُھو ہو بس
تیرا ُکل اور تیرا جزء ، دینا اُسے چھوڑے نفس
لےچلی گی تجھ کو وہ عُقبیٰ کے پیارے گاوں میں
حُور جا ں پانی بھریں ، خُدّام ہو ہر کام میں
چار نہریں دودھ کیں اور شہدِ شیریں کی بہیں
ساتھ ماء پاک اور خمرِ لذیذی کی بہیں
چار سُو تکئے ہوں گاو ، اور وہ تخت ِبلند
تُو جہاں بیٹھے تو بیٹھے تیرے ساتھی بھائ بند
آسمان ِ فکر میں تیری اُڑانیں علم کی
بیٹھ کر بُرّاق خاص ُالخاص پر معراج کی
تیری ہر باتیں ،ادائیں ،تیری ہر ناز و نوازش
تیرے مالک کو بہت بھائیں ، سُن کے تیری جملہ خواہش
تُو اسے بس دیکھتا رہ جائگا ایمان سے
وہ تجھے دیگا ، کیا وعدہ جو ہے قران سے
اس کے ہیکل میں براجےگا ، آج ہو یا کل کی بات
دیکھنا سعدی مگر چھوٹے نہ آلِ دل کا ساتھ
وہ ہی آل ِدل جو آل ِاھل ِبیت ِپاک ہیں
تیرے دل کے پاسباں اور حدود پاک ہیں
لے کے چل تو موت کے ساتھ ، ساتھی بھی یہ
یعنی تیرے دوست ایماں اور وفا داری بھی یہ
راہِ نامعلوم کو جانے گا تُو اُن کے سنگ
رنگ برنگی راہ ہوگی ، ستھرے ان کے ڈھنگ
یہ ہی ایماں اور وفاداری تجھے لےجائنگے
جنتوں کی اور تجھ کو ُسکھ سمئے لے جائنگے
موت تو پیغام ہے تیری ترقی کے لئے
کیوں پھنسا ہے تُو یہاں فُضُل و عناصر کو لئے
دو ہی دن موت کے ، آنے کا اور نہ آنے کا دن
کیا تجھے معلوم ہے آتی ہے وہ کون دن؟
موت ہو یا زندگی ، مقصد میں وہ وحید ہے
ایک بلکہ ایکتا ،اللہ کی توحید ہے
ہے اگر روزِ ُمعیَّن ، خوف سے کیا فائدہ
بلکہ روزانہ تُو کر تیارئ مہماں سدا
ُحکم پر راضی تُو رہ ، کیونکہ جتنے ہیں اُمور
دستِ قُدرت میں ہیں ،اور وہ رب ہے غفور
کیا کبھی آقا نے چاہا ،تجھ سے چھینے زندگی؟
ہاں ، مگر جب بھی وہ چاہے تیری بہتر زندگی
جس کو روکا ہے مشیت نے وہ یاں آ سکتا نہیں
جس کو رہنا ہے یہاں ، ہرگز وہ جاسکتا نہیں
نفس کی پاکیزگی ہے فقط خوفِ خدا
تُو ڈرا اُس موت سے ، کیسے کرے خوفِ خُدا ؟!
کر حفاطت نفس کی ، اور جس پہ ہے جسمانی خَول
نفس کی تخلیص چاہے بس تیرا یہ ڈیل ڈول
ہے اِنہیں سانسوں کے پھندے میں تیری صبح و مسا
چُھوٹ جا اُس سے ، سمجھتا کیوں نہیں آخر ہے کیا ؟
تُو نفس کےساتھ لیجا ، جسم خاکی کو ضرور
یہ ہی رب کا مقصد و منشاء ِربی ،جو غفور
پھر تو اِس دنیا میں تیرا تذکرہ رہ جائگا
یہ جہاں کی بات کیا ، سارا جہاں کہ جائگا
زندہ و تابندہ اور آئندہ تُو رہ جائگا
تیرے رب کے پاس سعدی ، پائندہ تُو رہ جائگا
زندہ و تابندہ اور آئندہ تُو رہ جائگا
تیرے رب کے پاس سعدی ، پائندہ تُو رہ جائگا
 

سید زبیر

محفلین
موت کیا ہے ،کیوں ڈرے انسان اس سے ہر گھڑی
حسرتیں سینے میں رکھتا ہے کیوں انسانِ جری
بہت نصیحت آموز کلا م، انتخاب کلام کی داد پیش ہےحسامی صاحب
 

Saadullah Husami

محفلین
ہمت افزائ کا بےحد ممنون ۔
احقر کا خاندانی نام --سر نیم حُسامی ہے ۔ھاشمی نہیں ۔
مکرر :- ذرہ نوازی کا مشکور ہوں۔
 
Top