ماوراء
محفلین
نظارہ
تارا مائي کي آنکھيں تاروں ايسي روشن ہيں اور وہ گرد وپيش کي ہر چيز کو حيرت سے تکتي ہے، دراصل تارا بائي کے چہرے پر آنکھيں ہي آنکھيں ہيں، وہ قحط کي سوکھي ماري لڑکي ہے جسے بيگم الماس خورشيد کے ہاں کام کرتے ہوئے صرف چند ماہ ہوئے ہيں اور وہ اپني مالکن کے شان دار فليٹ کے سازو سامان کو آنکھيں پھاڑ پھاڑ کر ديکھتي رہتي ہے، کہ ايسا عيش و عشرت اس سے پہلے کبھي خواب ميں بھي نہ ديکھا تھا، وہ گور کھپور کے ايک گاؤں کي بال ودھوا ہے جسے کے سسر اور ماں باپ کے مرنے کے بعد اس کے ماما نے جو ممبئي ميں دودھ والا بھيا ہے، اسے يہاں بلا بھيجا تھا۔
الماس بيگم کے بياج کو ابھي تين چار مہينے ہي گزرے ہيں ان کي منگورين آيا جو ان کے ساتھ آئي تھي ملک چلي گئي تو ان کے بے حد منتظم خالہ بيگم عثماني نے جو ايک نامور سوشل ورکر ہيں ، ايمپلائمنٹ ايکسچينچ فون کيا اور تارا بائي پٹ بجنے کي طرح آنکھيں جھپکاتي کمبابل کے اسکائي اسکريپر گل فسترن کي دسويں منزل پر آن پہنچيں، الماس بيگم نے انکو ہر طرح قابل اطمينان پايا، مگر دوسرے ملازموں نے ان کو تارا بائي کہہ کر پکا رہ وہ بہت بگڑيں، ہم کوئي پتريا ہيں؟ انہوں نے احتجاج کيا، مگر اب ان کو تارا بائي کے بجائے باراوئي کہلانے کي عادت ہوگئي ہے، اور وہ چپ چاپ کام ميں مصروف رہتي ہيں اور بيگم صاحب ان کے صاحب کو آنکھيں جھپکا جھپکا کر ديکھتي ہيں۔
الماس بيگم کا بس چلے تو وہ اپنے طرف داروہر کو ايک لمحے کيلئے اپني نظروں سے اوجھل نہ ہونے ديں اور وہ جوان جہاں آيا کو ملازم رکھنے کي ہر گز قائل نہيں، مگر تارا بائي جيسي بے جان اور سگڑ خادمہ کو ديکھ کر انہوں نے اپني تجربہ کار خال کے اعتکاب پر اعتراض نہيں کيا۔
تارابائي صبح کو بيڈ روم ميں چائے لاتي ہے بڑي عقيدت سے صاحب کے جوتوں پر پالش اور کپڑوں پر استري کرتي ہے، ان کے شيو کا پاني لگاتي ہے ، جھاڑو پوچھ کرتے وقت وہ بڑ حيرت سے ان خوبصورت چيزوں پر ہاتھ پھيرتي ہے، جو صاحب اپنے ساتھ پيرس سے لائے ہيں، ان کا وائلن وارڈروب کے اوپر رکھا ہے، جب پہلي بار تارا بائي نے بيڈروم کي صفائي کي تو وائلن پر بڑي دير تک ہاتھ پھيرا، مگر پرسوں صبح حسب معمول جب وہ بڑي نفاست سے وائلن صاف کر رہي تھي تو نرم مزارج اور شريف صاحب بيگم صاحب تنيا مرچ ہيں اسي وقت کمرے ميں آگئے اور اس پر برس پڑے کہ وائلن کو ہاتھ کيوں لگايا اور تارابائي کے ہاتھ سے چھين کر اسے الماري کے اوپر پٹخ ديا، تارابائي سہم گئي اور اس کي آنکھوں ميں آنسو آگئے اور صاحب ذرا شرمندہ سے ہوکر باہر برآمدے ميں چلے گئے، جہاں بيگم صاحبہ چائے پي رہي تھي ويسے بيگم صاحبہ کي صبح ہئير ڈريسر اور بيوٹی سليون ميں گزرتي ہے ميني کيو، پيڈي کيور، تاج نيشنل ايک سے ايک بڑھيا ساڑھيا درجنوں رنگ برنگے سيٹس اور عطر کے ڈبے اور گہنے ان کي الماريوں ميں پڑےپڑے ہيں مگر تارا بائي سوچتي ہے، بھگوان نے صاحب کو دلوت بھي، اجت بھي اور ايسا سندر پتي بھي بس شکل دينے ميں کنجوسي کر گئے۔
صاحب سنا ہے ميم صاحب مس صاحب لوگ کي سوسائٹی ميں بے حد مقبول تھے، مگر بياہ کے بعد سے بيگم صاحبہ نے ان پر بہت سے پابندياں لگادي ہي، دفتر جاتے ہيں تو دن ميں کئي بار فون کرتي ہيں، شام کو کسي کام سے باہر جائيں تو بيگم صاحبہ کو پتہ رہتا ہے۔
کہ کہاں گئے ہيں اور ان جگہوں پر فون کرتي ہيں، شام کو سير و تفريہ اور ملنے ملانے کيلئے دونوں باہر جاتي ہيں تب بھي بيگم صاحب بڑي کڑي نگراني رکھتي ہيں مجال ہے جو کسي دوسري لڑکي پر نظر ڈاليں، صاحب نے يہ سارے قاعدے قانون ہنسي خوشي قبول کر لئے ہيں، کيونکہ بيگم صاحبہ بہت امير اور صاحب کي نوکري بھي ان کے دولت مند سسر نے دلوائي ہے، ورنہ بياہ سے پہلے صاحب بہت غريب تھے اسکالر شپ پر انجنئيرنگ پڑھنے فرانس گئے تھے، واپس آئے تو روزگار نہيں ملا، پريشان حال گھوم رہے تھے جب ہي بيگم صاحبہ کے گھر والوں نے انہيں پھانس ليا، بڑے لوگوں کي دنيا کے عجيب قصے تارا بائي فليٹ کے مستري باورچي اور دوسرے نوکروں سے سنتي اور اس کي آنکھيں اچھبنے سے بھلا رہتي ہيں، خورشيد عالم بڑے اچھے اور وائلن نواز آدمي تھے، مگر جب سے بياہ ہوا تو بيوي کي محبت ميں ايسے کھوئے کہ وائلن کو ہاتھ نہيں لگايا، کيونکہ الماس بيگم کو اس سازے سے دلي نفرت تھي، خورشيد عالم بيوي کے بے حد احسان مندہ ہيں کيونکہ اس شادي سے ان کي زندگي بدل گئي، اور احسان مندي ايسي شے ہے کہ ايک سنگيت کي قرباني بھي دے سکتا ہے، خورشيد عالم شہر کي ايک خستہ عمارت ميں پڑے تھے اور بسوں ميں مارے مارے پھرتے تھے اب لکھ پتي کي حيثت سے کمبالابل ميں فروکش ہيں مرد کيلئے اس کا اقتصادي تحفظ غالبا سے بڑي چيز ہے۔
خورشيد عال اب وائلن کبھي نہيں بجائيں گے، يہ صرف ڈيڑھ سال پہلے کا ذکر ہے کہ الماس اپنے ملک التجار باپ کي عالي شان کوٹھي ميں مالا بار بل پر رہتي تھي، وہ سوشل ورک رہی تھي، اور عمر زيادہ ہوجانے کے کارن شادي کي امدي سے دست بر دار ہوچکي تھي جب ايک دعوت ميں ان کي ملاقات خورشيد عالم سے ہوئي اور ان کي جہاں ديدہ خال بيگم عثماني نے ممکنات بھانپ کر اپنے جاسوسوں کے ذريعہ معلوام فراہم کيں ، لڑکا يوپي کا ہے، يورپ سے لوٹ کر تلش معاش ميں سرگردان ہے مگر شادي پر تيار نہيں کيونکہ فرانس ميں ايک لڑکي چھوڑ آيا ہے اور اس کي آمد کا منتظر ہے بگيم عثماني فورا پني مہم پر جٹ گئيں، الماس کے والد نےاپني ايک فرم ميں خورشيد عالم کو پندرہ سو روپے ماہوار پر ملازم رکھ ليا، الماس کي والد نے انہيں اپنے ہاں مدعو کيا اور الماس سے ملاقاتيں خود بخود شروع ہوگئيں، مگر پھر بھي لڑکے نے لڑکي کے سلسلے ميں کسي گرم جوشي کا اظہار نہيں کيا، دفتر سے لوٹ کر انہيں بيشتر وقت الماس کے ہاں گزارنا پڑتا اور اس لڑکي کي سطحي گفتگو سے اکتا کر اس پر فضا بالکني ميں جا کر کھڑے ہوتے جس کا رخ سمندر کي طرف تھا، پھر وہ سوچتے ايک دن اس کا جہاز آکر اس ساحل پر لگے لگا، اور وہ اس ميں سے اترے گي، اسے ہمراہ ہي آجانا چاہئيے تھا مگر پيرس ميں کالج ميں اس کا کام ختم نہيں ہوا تھا اس کا جہاز ساحل سے آگے نکل گيا، وہ بالکني کے جنگلے پر جھکے افق کو تکتے رہتے الماس اندر سے نکل کر شگفتگي سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھتي کيا سوچ رہے ہيں وہ ذرا جھينپ کر مسکرا ديتے۔
رات کے کھانے پر الماس کے والد کے ساتھ ملکي سياست سے وابستہ ہائي فنانس پر تبادلہ خيلات کرنے کے بعد وہ تھکے ہارے اپني جائے قيام پر پہنچ اور وائلن نکال کر دہنيں بجانے لگتے، جو اس کي سنگيت ميں پيرس ميں بجايا کرتے تھے، وہ دونوں ہر تيسرے دن ايک دوسرے کو خط لکھتے تھے، اور پچھلے خط ميں انہوں نے اسے اطلاع دي تھي انہيں بمبئي ہي ميں بڑي عمدہ ملازمت مل گئي ہے، ملازمت کے ساتھ جو خوفناک شاخسانے بھي تھے اس کا ذکر انہوں نے خط ميں نہيں کيا تھا۔
ايک برس گزر گيا مگر انہوں نے الماس سے شادي کا کوئي اراد ظاہر نہيں کيا، آخر عثماني بيگم نے طے کيا کہ خود ہي ان سے صاف صاف بات کرلينا چاہئيے، عين مناسب ہوگا، مگر تب ہي پرتاب گڑ سے تار آيا کہ خورشيد عالم کے والد سخت بيمار ہيں اور وہ چھٹي لے کر وطن واپس روانہ ہوگئے، انکو پرتاب گڑھ گئے چند روز ہي گزرے تھے کہ الماس جو ان کي طرف سے نا اميد ہوچکي تھي ايک شام اپني سہليوں کے ساتھ ايک جرمن پيانست کا کونسرٹ سننے تاج محل ميں گئي، کرسٹل روم ميں حسب معمول بوڑھے پارسيوں اور پاسنوں کا مجمع تھا، اور ايک حسين آنکھوں والي پار لڑکي کونسٹ کا پروگرام بانٹ پھر رہي تھي، ايک شنا سا خاتون نے الماس کا تعارف اس لڑکي سے کرايا، الماس نے حسب عادت بڑي ناقدانہ اور تيکھي نظروں سے اس اجنبي لڑکي کا جائزہ ليا لڑکي بے حد حسين تھي، آپ کا نام کيا ابتاليا مسز رستم جي نے؟ الماس نے ذرا مشتقانہ انداز ميں سوال کيا۔
پروجا سدتور لڑکي نے سادگي سے جواب ديا، ميں نے آپ کو پہلے کسي کونسرٹ وغيرہ ميں نہيں ديکھا۔
ميں سات برس بعد پچھلے ہفتے ہي پيرس سے آئي ہوں۔