نظارہ - قرۃ العین حیدر

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ماوراء

محفلین
نظارہ​


تارا مائي کي آنکھيں تاروں ايسي روشن ہيں اور وہ گرد وپيش کي ہر چيز کو حيرت سے تکتي ہے، دراصل تارا بائي کے چہرے پر آنکھيں ہي آنکھيں ہيں، وہ قحط کي سوکھي ماري لڑکي ہے جسے بيگم الماس خورشيد کے ہاں کام کرتے ہوئے صرف چند ماہ ہوئے ہيں اور وہ اپني مالکن کے شان دار فليٹ کے سازو سامان کو آنکھيں پھاڑ پھاڑ کر ديکھتي رہتي ہے، کہ ايسا عيش و عشرت اس سے پہلے کبھي خواب ميں بھي نہ ديکھا تھا، وہ گور کھپور کے ايک گاؤں کي بال ودھوا ہے جسے کے سسر اور ماں باپ کے مرنے کے بعد اس کے ماما نے جو ممبئي ميں دودھ والا بھيا ہے، اسے يہاں بلا بھيجا تھا۔
الماس بيگم کے بياج کو ابھي تين چار مہينے ہي گزرے ہيں ان کي منگورين آيا جو ان کے ساتھ آئي تھي ملک چلي گئي تو ان کے بے حد منتظم خالہ بيگم عثماني نے جو ايک نامور سوشل ورکر ہيں ، ايمپلائمنٹ ايکسچينچ فون کيا اور تارا بائي پٹ بجنے کي طرح آنکھيں جھپکاتي کمبابل کے اسکائي اسکريپر گل فسترن کي دسويں منزل پر آن پہنچيں، الماس بيگم نے انکو ہر طرح قابل اطمينان پايا، مگر دوسرے ملازموں نے ان کو تارا بائي کہہ کر پکا رہ وہ بہت بگڑيں، ہم کوئي پتريا ہيں؟ انہوں نے احتجاج کيا، مگر اب ان کو تارا بائي کے بجائے باراوئي کہلانے کي عادت ہوگئي ہے، اور وہ چپ چاپ کام ميں مصروف رہتي ہيں اور بيگم صاحب ان کے صاحب کو آنکھيں جھپکا جھپکا کر ديکھتي ہيں۔
الماس بيگم کا بس چلے تو وہ اپنے طرف داروہر کو ايک لمحے کيلئے اپني نظروں سے اوجھل نہ ہونے ديں اور وہ جوان جہاں آيا کو ملازم رکھنے کي ہر گز قائل نہيں، مگر تارا بائي جيسي بے جان اور سگڑ خادمہ کو ديکھ کر انہوں نے اپني تجربہ کار خال کے اعتکاب پر اعتراض نہيں کيا۔
تارابائي صبح کو بيڈ روم ميں چائے لاتي ہے بڑي عقيدت سے صاحب کے جوتوں پر پالش اور کپڑوں پر استري کرتي ہے، ان کے شيو کا پاني لگاتي ہے ، جھاڑو پوچھ کرتے وقت وہ بڑ حيرت سے ان خوبصورت چيزوں پر ہاتھ پھيرتي ہے، جو صاحب اپنے ساتھ پيرس سے لائے ہيں، ان کا وائلن وارڈروب کے اوپر رکھا ہے، جب پہلي بار تارا بائي نے بيڈروم کي صفائي کي تو وائلن پر بڑي دير تک ہاتھ پھيرا، مگر پرسوں صبح حسب معمول جب وہ بڑي نفاست سے وائلن صاف کر رہي تھي تو نرم مزارج اور شريف صاحب بيگم صاحب تنيا مرچ ہيں اسي وقت کمرے ميں آگئے اور اس پر برس پڑے کہ وائلن کو ہاتھ کيوں لگايا اور تارابائي کے ہاتھ سے چھين کر اسے الماري کے اوپر پٹخ ديا، تارابائي سہم گئي اور اس کي آنکھوں ميں آنسو آگئے اور صاحب ذرا شرمندہ سے ہوکر باہر برآمدے ميں چلے گئے، جہاں بيگم صاحبہ چائے پي رہي تھي ويسے بيگم صاحبہ کي صبح ہئير ڈريسر اور بيوٹی سليون ميں گزرتي ہے ميني کيو، پيڈي کيور، تاج نيشنل ايک سے ايک بڑھيا ساڑھيا درجنوں رنگ برنگے سيٹس اور عطر کے ڈبے اور گہنے ان کي الماريوں ميں پڑےپڑے ہيں مگر تارا بائي سوچتي ہے، بھگوان نے صاحب کو دلوت بھي، اجت بھي اور ايسا سندر پتي بھي بس شکل دينے ميں کنجوسي کر گئے۔
صاحب سنا ہے ميم صاحب مس صاحب لوگ کي سوسائٹی ميں بے حد مقبول تھے، مگر بياہ کے بعد سے بيگم صاحبہ نے ان پر بہت سے پابندياں لگادي ہي، دفتر جاتے ہيں تو دن ميں کئي بار فون کرتي ہيں، شام کو کسي کام سے باہر جائيں تو بيگم صاحبہ کو پتہ رہتا ہے۔
کہ کہاں گئے ہيں اور ان جگہوں پر فون کرتي ہيں، شام کو سير و تفريہ اور ملنے ملانے کيلئے دونوں باہر جاتي ہيں تب بھي بيگم صاحب بڑي کڑي نگراني رکھتي ہيں مجال ہے جو کسي دوسري لڑکي پر نظر ڈاليں، صاحب نے يہ سارے قاعدے قانون ہنسي خوشي قبول کر لئے ہيں، کيونکہ بيگم صاحبہ بہت امير اور صاحب کي نوکري بھي ان کے دولت مند سسر نے دلوائي ہے، ورنہ بياہ سے پہلے صاحب بہت غريب تھے اسکالر شپ پر انجنئيرنگ پڑھنے فرانس گئے تھے، واپس آئے تو روزگار نہيں ملا، پريشان حال گھوم رہے تھے جب ہي بيگم صاحبہ کے گھر والوں نے انہيں پھانس ليا، بڑے لوگوں کي دنيا کے عجيب قصے تارا بائي فليٹ کے مستري باورچي اور دوسرے نوکروں سے سنتي اور اس کي آنکھيں اچھبنے سے بھلا رہتي ہيں، خورشيد عالم بڑے اچھے اور وائلن نواز آدمي تھے، مگر جب سے بياہ ہوا تو بيوي کي محبت ميں ايسے کھوئے کہ وائلن کو ہاتھ نہيں لگايا، کيونکہ الماس بيگم کو اس سازے سے دلي نفرت تھي، خورشيد عالم بيوي کے بے حد احسان مندہ ہيں کيونکہ اس شادي سے ان کي زندگي بدل گئي، اور احسان مندي ايسي شے ہے کہ ايک سنگيت کي قرباني بھي دے سکتا ہے، خورشيد عالم شہر کي ايک خستہ عمارت ميں پڑے تھے اور بسوں ميں مارے مارے پھرتے تھے اب لکھ پتي کي حيثت سے کمبالابل ميں فروکش ہيں مرد کيلئے اس کا اقتصادي تحفظ غالبا سے بڑي چيز ہے۔
خورشيد عال اب وائلن کبھي نہيں بجائيں گے، يہ صرف ڈيڑھ سال پہلے کا ذکر ہے کہ الماس اپنے ملک التجار باپ کي عالي شان کوٹھي ميں مالا بار بل پر رہتي تھي، وہ سوشل ورک رہی تھي، اور عمر زيادہ ہوجانے کے کارن شادي کي امدي سے دست بر دار ہوچکي تھي جب ايک دعوت ميں ان کي ملاقات خورشيد عالم سے ہوئي اور ان کي جہاں ديدہ خال بيگم عثماني نے ممکنات بھانپ کر اپنے جاسوسوں کے ذريعہ معلوام فراہم کيں ، لڑکا يوپي کا ہے، يورپ سے لوٹ کر تلش معاش ميں سرگردان ہے مگر شادي پر تيار نہيں کيونکہ فرانس ميں ايک لڑکي چھوڑ آيا ہے اور اس کي آمد کا منتظر ہے بگيم عثماني فورا پني مہم پر جٹ گئيں، الماس کے والد نےاپني ايک فرم ميں خورشيد عالم کو پندرہ سو روپے ماہوار پر ملازم رکھ ليا، الماس کي والد نے انہيں اپنے ہاں مدعو کيا اور الماس سے ملاقاتيں خود بخود شروع ہوگئيں، مگر پھر بھي لڑکے نے لڑکي کے سلسلے ميں کسي گرم جوشي کا اظہار نہيں کيا، دفتر سے لوٹ کر انہيں بيشتر وقت الماس کے ہاں گزارنا پڑتا اور اس لڑکي کي سطحي گفتگو سے اکتا کر اس پر فضا بالکني ميں جا کر کھڑے ہوتے جس کا رخ سمندر کي طرف تھا، پھر وہ سوچتے ايک دن اس کا جہاز آکر اس ساحل پر لگے لگا، اور وہ اس ميں سے اترے گي، اسے ہمراہ ہي آجانا چاہئيے تھا مگر پيرس ميں کالج ميں اس کا کام ختم نہيں ہوا تھا اس کا جہاز ساحل سے آگے نکل گيا، وہ بالکني کے جنگلے پر جھکے افق کو تکتے رہتے الماس اندر سے نکل کر شگفتگي سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھتي کيا سوچ رہے ہيں وہ ذرا جھينپ کر مسکرا ديتے۔
رات کے کھانے پر الماس کے والد کے ساتھ ملکي سياست سے وابستہ ہائي فنانس پر تبادلہ خيلات کرنے کے بعد وہ تھکے ہارے اپني جائے قيام پر پہنچ اور وائلن نکال کر دہنيں بجانے لگتے، جو اس کي سنگيت ميں پيرس ميں بجايا کرتے تھے، وہ دونوں ہر تيسرے دن ايک دوسرے کو خط لکھتے تھے، اور پچھلے خط ميں انہوں نے اسے اطلاع دي تھي انہيں بمبئي ہي ميں بڑي عمدہ ملازمت مل گئي ہے، ملازمت کے ساتھ جو خوفناک شاخسانے بھي تھے اس کا ذکر انہوں نے خط ميں نہيں کيا تھا۔
ايک برس گزر گيا مگر انہوں نے الماس سے شادي کا کوئي اراد ظاہر نہيں کيا، آخر عثماني بيگم نے طے کيا کہ خود ہي ان سے صاف صاف بات کرلينا چاہئيے، عين مناسب ہوگا، مگر تب ہي پرتاب گڑ سے تار آيا کہ خورشيد عالم کے والد سخت بيمار ہيں اور وہ چھٹي لے کر وطن واپس روانہ ہوگئے، انکو پرتاب گڑھ گئے چند روز ہي گزرے تھے کہ الماس جو ان کي طرف سے نا اميد ہوچکي تھي ايک شام اپني سہليوں کے ساتھ ايک جرمن پيانست کا کونسرٹ سننے تاج محل ميں گئي، کرسٹل روم ميں حسب معمول بوڑھے پارسيوں اور پاسنوں کا مجمع تھا، اور ايک حسين آنکھوں والي پار لڑکي کونسٹ کا پروگرام بانٹ پھر رہي تھي، ايک شنا سا خاتون نے الماس کا تعارف اس لڑکي سے کرايا، الماس نے حسب عادت بڑي ناقدانہ اور تيکھي نظروں سے اس اجنبي لڑکي کا جائزہ ليا لڑکي بے حد حسين تھي، آپ کا نام کيا ابتاليا مسز رستم جي نے؟ الماس نے ذرا مشتقانہ انداز ميں سوال کيا۔
پروجا سدتور لڑکي نے سادگي سے جواب ديا، ميں نے آپ کو پہلے کسي کونسرٹ وغيرہ ميں نہيں ديکھا۔
ميں سات برس بعد پچھلے ہفتے ہي پيرس سے آئي ہوں۔
 

ماوراء

محفلین
سات برس پيرس ميں تب تو آپ فرنچ خوب فر فر بول ليتي ہوں گي؟ الما نے ذرا ناگواري سے کہا، جي ہاں پيرو جاہنسنے لگي، اب خاص خاص مہمان جرمن پيانسٹ کے ہمراہ لاؤنج کي سمت بڑھ رہے تھے، پروجا الماس سے معذرت چاہ کر ايک انگريز خاتون سے اس پيانسٹ کي موسيقي پر بے حد ٹيکنيکل قسم کا تبصرہ کرنے ميں منہک ہوگئي، ليکن ليکن لاؤنج ميں پہنچ کر الماس پھر اس لڑکي سے ٹکرا گئي، کمرے ميں چائے کي گہما گہمي شروع ہوچکي ہے، آئيے يہاں بيٹھ جائيں، پيرو جانے مسکرا کر الماس سے کہا وہ دونوں دريچے سے لگي ہوئي ايک ميز پر آمنے سامنے بيٹھ گئيں، آپ تو ويسٹرن ميوزک کي ايکسپرٹ معلوم ہوتي ہيں، الماس نے ذرا رکھائي سے بات شروع کي کيونکہ وہ خوب صورت اور کم عمر لڑکيوں کو ہر گز برداشت نہ کرسکتي تھي، جي ہاں ميں پيرس ميں پيانو کي اعلي تعليم کيلئے گئي تھي۔
الماس کے ذہن ميں کہيں دور خطرے کي گھنٹي بجي اس نے باہر سمندر کي شفاف اور بے حد نيلي سطح پر نظر ڈال کر فدتا بڑے اخلاق اور بے تکلفي سے کہا، ہاؤ انٹسرٹنگ، پيانو تو ہمارے پاس بھي موجود ہے کسي روز آکر کچھ سناؤ، ضرور، پيرو جانے مسرت سے جواب ديا، سنيچر کے روز کيا پروگرام ہے تمہارا ميں اپنے ہاں ايک پارٹي کر رہي ہوں، سہيلياں تم سے مل کر بہت خوش ہوں گي۔
آئي وڈ لو ٹو کم۔۔۔تھينک يو؟
تم رہتي کہا ہو پيرو جا؟
پيروجا نے تار ديو کي ايک گلي کا پتہ بتايا، الماس نے ذرا طمينان کي سانس لي، تار ديو مفلوک الحال پارسيوں کا محلہ ہے، ميں اپنے چچا کے ساتھ رہتي ہوں ميرے والد کا انتقال ہوچکا ہے، ميرے کوئي بھائي بہن بھي نہيں، مجھے چچا ہي نے پالا ہے، وہ لادلد ہے ، چچا ايک بينک ميں کلرک ہيں، پيروجا سادگي سے کہتي رہي، پھر ادھر ادھر کي چند باتوں کے بعد سمندر کي پر سکون سطح ديکھتے ہوئے اس نے اچانک کہا کيسي عجيب بات ہے پچھلے ہفتہ جب ميرا جہاز اس ساحل کي طرف بڑھ رہا تھا تو ميں سوچ رہي تھي کہ اتنے عرصے کے بعد اجنبيوں کي طرح بمبئي واپس پہنچ رہي ہو، يہ بڑا کٹھور شہر ہے تم کو معلوم ہي ہوگا، الماس مخلص دوست يہاں بہت مشکل سے ملتے ہيں، مگر ميري خوشي ديکھو آج تم سے ملاقات ہوگئي۔
الماس نے دردمندي کے ساتھ سر ہلا ديا، لاؤنج ميں باتوں کي دھيمي دھيمي بھنبھناہٹ جاتي تھي، چند لمحوں کے بعد اس نے پوچھا تم پيرس کيسے گئيں؟
مجھے اسکالر شپ مل گيا تھا، وہاں پيانوں کي ڈگري کي بعد چند سال تک ميوزک کالج ميں ريسرج کرتي رہي ميں وہاں بہت خوش تھي مگر يہاں ميرے چچا بالکل اکيلے تھے، وہ دونوں بہت بوڑھے ہوچکے ہيں، چچي بيچاري تو ضعيف العمري کي وجہ بالکل بہري بھي ہوگئيں ہيں ان کي خاطر وطن واپس آئي اور اس کے علاوہ۔۔۔۔۔
ہلو الماس تم يہاں بيٹھي ہوں، چلو جلدي مسز ملگاؤں نکر تم بلا رہي ہيں، ايک خاتون نے ميز کے پاس آکر کہا پيروجا بات ادھوري رہ گئي، الماس نے اس سے بات کہتے ہوئے معذرت چاہي کہ وہ سنيچر کو صبح گيارہ بجے کار بھيج دے گي، وہ ميز سے اٹھ کر مہمانوں کے مجمع ميں کھو گئي۔
سنيچر کے روز پيروجا الماس کے گھر پہنچي، جہاں مرغیوں کي پارٹی اپنے عروج پر تھي، پٹیلز کے ريکارڈ بج رہے تھے، چند لڑکيوں جنہوں نے چند روز پہلے ايک فيشن شو ميں حصہ ليا تھا، ذور شور سے اس پر تبصرہ کر رہي تھي، يہ سب لڑکياں جن کي ماتر بھاشائيں اردو، ہندي، گجراتي اور مراٹھي تھي انگريزي اور صرف انگريزي بول رہي تھيں، اور انہوں نے بے حد چست پتلونيں يعني اسٹريط پينٹس پہن رکھي تھي، پروجا کو ايک لمحے کيلئے محسوس ہوا کہ وہ ابھي ہندوستان واپس نہيں آئي ہے، اس کا اپنا فرقہ بے حد مںرب تھا، مگر برسوں يورپ ميں رہ کر اسے معلوم ہوچکا تھا کہ اجنتا کي زندہ تصويروں کے بجائے ان مفربيت زدہ ہندوستاني خواتين کو ديکھ کر اہل يورپ سخت افسوس اور مايوسي ہوتي ہے، چنانچہ پروجا جہانگر دستور پيرس اور روم ميں اپني ٹھيٹ ہندوستاني وضع قطع پر بڑي نازاں رہتي تھي، بمبئي ان کي نقلي امريکن لڑکيوں سے اکتا کر وہ بالکني ميں جا کھڑي ہوئی جس کے سامنے سمندر تھا اور پہلو ميں برج خومشا کا جنگل نظر آرہا تھا، وہ چونک اٹھي گھنے جنگل کے اوپر کھلي فضاؤں ميں چند گدھ اور کوے منڈلا رہے تھے، اور چاروں طرف بڑا ڈراؤنا سناٹا طاري تھا، وہ گھبرا کر واپس نيچے اتري اور زندگي سے گونجتے ہوئے کمرے ميں آکر صوفے پر ٹک گئي۔
کمرے کے ايک کونے ميں غالبا بطور آرائش اسٹين دے گرينڈ پيانو رکھا ہوا تھا، لڑکياں اب ريڈيوں گرام پر ببلي ببلا فوٹنے کا پران کلسپو جميکا فئير بجارہي تھي، معني کي دل کش آواز گٹار کي جان ليوا گونج کمرے ميں پھيلنے لگي۔
DOWN THE WAY WHERE T F NIGHT ARE GAY AND THE SUN SHINES DAILY IN THE MOUNTAIN TOP I TOOK A TRIP ON A SAILING SHIP AND WHEN I REACHED SAMICA I MADE A STOP BUT I AM SAD TODAY I M ON MY WAY AND WONT BE BACK FOR MANY DAYS I HAD TO LEARN A LITTLE GIRL IN KINGSTONE TOWN....
الماس چپ چاپ جا کر بالکني ميں کھڑي ہو گئي، ريکارڈ ختم ہوا تو اس نيا نذر آکر پيروجا سے کہا، ہم لوگ سخت بد مذاق ہيں ايک ماہر پيانسٹ يہاں بيٹھي ہے اور ريکارڈ بجا رہے ہيں۔۔۔چلو بھائي۔۔۔۔اٹھو۔۔۔۔
پيروجا مسکرائي ہوئي پيانو کي اسٹول پر بيٹھ گئي۔
کيا سناؤ؟ ميں تو صرف کلاسيکي ميوزک ہي بجاتي ہوں۔
ہائے ۔۔۔پوپ۔۔۔نہيں؟ لڑکيوں نے غل مچايا۔۔۔۔۔اچھا کوئي انڈين فلم سانگ ہي بجائو۔۔۔۔
فلم سانگ بھي مجھے نہيں آتے۔۔۔۔۔مگر ايک غزل ياد ہے۔۔۔۔جو مجھے۔۔۔۔جو مجھے وہ جھينپ کر ٹھنک گئي۔۔۔غزل؟ وہ آئي لو پوئيٹري۔ ايک مسلمان لڑکي جس نے والدين اہل زبان تھے بڑے سرپستانہ انداز ميں کہا۔
پروجا نے پرودوں پر انگلياں پھيريں اور ايک اانجاني مسرور پھريري سي آئي پھر اس نے آہستہ آہستہ ايک دل کشن دھن بجانا شروع کيا گائو بھي ساتھ ساتھ لڑکياں چلائيں۔
بھئي ميں گا نہيں سکتي، ميرا اردو تلفظ بہت خطرناک ہے۔
اچھا اس کے الفاظ بتادو۔۔۔ ہم لوگ گائيں گے۔
وہ کچھ اس طرح ہے ۔۔۔پيرو جانے کہا۔
تو سامنے ہے اپنے بہتا کہ تو کہاں ہے۔
کس طرح تجھ کو ديکھو نظارہ درمياں ہے
چند لڑکيوں نے ساتھ ساتھ گانا شروع کيا، نظارہ درميان ہے۔۔۔۔۔نظارہ درميان ہے۔
غزل ختم ہوئي تالياں بجيں۔
اب کوئي ويسٹرن چيز بجاؤ۔۔۔۔ ايک لڑکي نے فرمائش کي۔۔۔

 

ماوراء

محفلین
شوپال کي ميڈنز فينسي بجاؤں؟ يہ نغمہ ميں اور ميرا منگيتر ہميشہ اکھٹے بجاتے تھے، پيرس ميں وہ وائلن پر ميري سنگيت کرتے تھے، تمہارے منگيتر بھي ميوزيشن ہيں؟ايک لڑکي نے پوچھا۔
پروفيشنل نہيں شوقيہ، پيروجانے نے جواب ديا اور نغمہ بجانے ميں محو ہوگئي، اگلے ہفتوں ميں الماس نے پيروجا سے بڑي گہري دوستي گانٹھ لي، اس دوران ميں پيروجا نے کو ايک کانونٹ کالج ميں پيانو سکھانے کي نوکري مل گئي، جو تعطيلات کے بعد ملنے والا تھا، ہفتے ميں تين بار ايک امريکن کي دس سالہ لڑکي کو پيانو سکھانے کا ٹيوشن بھي اسے مل گيا تھا، امريکن کي بيوي کا حال ہي ميں انتقال ہوا تھا اور وہ اپنا غم بھلانے کيلئے اپنے بچوں کے ہمراہ بغرض سیاحت ہندوستان آيا ہوا تھا، اور جو ہو ميں سن اور سينڈ ميں مقيم تھا، تارريو سے جو ہوکا سفر خاصا طويل تھا مگر امريکن پيروجا کو اچھي تنخوا دينے والا تھا، اور بڑي شفقت سے پيش آتا تھا، پيرو جا اپني زنگي سے في الحال بہت خوش تھي، چند روز بعد وہ اپنے وطن سے آنے والا تھا، پيرو جا نے اسے بمبئي آتے ہي ملازمت اور ٹيوشن ملنے کي اطلاع نہيں دي تھي، کہ وہ اسے ايک اچانک سر پرائز دينا چاہتي تھي۔
ايک روز الماس کے ساتھ اس کي کوٹھي کے باغ ميں ٹہل رہي تھي کہ فوارے پر پہنچ کر الماس نے اس دفعتاً سوال کيا تم نےوہ غزل کہاں سے سيکھي تھي۔
اوہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔؟ پيرس ميں۔۔۔۔
پيرس ميں ہاؤ انٹرسٹنگ کس نے سکھائي؟
ميرے منگيتر نے۔۔۔
اوہ پيروجا۔۔۔يوڈراک ہوريں۔۔۔۔چارسو بيس مجھ کو بتايا بھي نہيں اب تک
تمہاري ہي کميونٹي کے ہيں وہ۔۔۔۔۔۔
اوہ۔۔۔واقعي۔۔۔۔الماس فوراے کي منڈ پر بيٹھ گئي۔
ميرے باپ داد ستو تھے ميرے چچا بہت روشن خيال ہيں انہوں نے اجازت دے دي ہے۔
کيا نام ہے صاحب زادے کا؟
يہ ناموں کا بھي عجيب قصہ تھا خورشيد عالم اس کي نرگسي آنکھوں پر عاشق ہوئے تھے، جب پيرس کے ہندوستاني سفارت خانے کي ايک تقریب ميں پہلي ملاقات ہوئي اور کيس نے اس کا تعارف پيروجا کہہ کر ان سے کرايا تو انہوں نے شرارت سے کہا تھا ليکن آپ نام نرگس ہو چاہے تھا، وہ نرگيش؟ نرگيش تو ميري آنٹی کا نام ہے۔
لاحول والا قوۃ۔۔۔خورشيد عالم نے ايسي بے تکلفي سے کہا تھا جيسے اسے ہميشہ سے جانتے ہوں۔۔۔۔نرگيش کھور شيٹ پيرو جا آپ لوگوں نے حسين ايراني ناموں کي ريڑھ ماري ہے، ميں آپ کو فيروزہ پکاروں تو کوئي اعتراض ہے؟ ہر گز نہيں پيروجانے ہنس کر جواب ديا تھا، اور پھر ايک بار خورشيد عالم نے دريا کنارے ٹہلتے ہوئے اس سے کہا تھا يہ تمہاري بہادر آنکھيں، ہفت زبان آنکھيں۔۔۔۔جگنو ايسي شہاب ثاقب ايسي، ہيرے جواہرات ايسي ، روشن دھوپ اور جھلملاتي بارش ايسي آنکھيں۔۔۔۔نرگس کے پھول جو تمہارے آنکھوں ميں تبديل ہوگئے۔
ميں نے پوچھا کيا نام نے ان صاحب کا؟ الماس کي تيکھي آواز پر وہ چونکي، کھور شيٹ عالم اس نےجواب ديا، چند لمحوں کے سکوت کے بعد اس نے گھبرا کر نظريں اٹھائيں، سياہ ساري ميں ملبوس، کمر پر ہاتھ رکھے سياہ اونت کي طرح اس کے سامنے کھڑي الماس اس سے کہہ رہي تھي کيسا عجيب اتفاق ہے پيرو جا ڈير ميرے منگيتر کا نام بھي خورشيد عالم ہے وہ بھي وائلن بجاتے ہيں اور وہ بھي پيرس سے آئے ہوئے ہيں، اور ان دنوں اپنے والے کے ملنے وطن گئے ہوئے ہيں۔

اگست کے آسمان پر زور سے بجلي چمکي مگر کسي نے نہيں ديکھا کہ وہ کڑکتي ہوئي بجلي آن کر پيروجا دستور گرگئي، وہ کچھ دير تک ساکت بيٹھي رہي، پھر اس نے اس عالي شان عمارت پر نظر ڈالي اور اپنے تاروي کے فليٹ کا تصور کيا، بجلي پھر چمکي اور مالا بار ہل کے اس منظر کو روشن کر گئي، جشم زون ميں ساري بات پروجا کي سمجي ميں آگئي، اور يہ بھي کہ اپنے نظرں ميں خورشيد عالم نے الماس کا ذکر کيوں نہیں کيا تھا، اور کچھ عرصے شادي کے تذکرہ کو وہ کس وجہ سے اپنے خط ميں ٹال رہے تھے، وہ آہستہ سے اٹھي اور اس نے آہستہ سے کہا اچھا بھئي الماس، منگني مبارک ہو خدا حافظ۔
جار رہي ہوں پروجا؟ ٹھہرو ميري کار تم کو پہنچا آئے گي۔۔۔ڈرائيور۔۔۔۔الماس نے سکون کے ساتھ آواز دي۔
نہيں الماس شکريہ وہ تقريباً بھاگتي ہوئي پھاٹک سے نکلي۔۔۔سڑک سے دوسري طرف اسي وقت بس آن کر رکي، وہ تيزي سے سڑک پار کر کے پاس ميں سوار ہوگئي۔،
فوراے کے پاس کھڑي الماس پھاٹک کي طرف ديکھتي رہي، بارش کي زبردست بوچھاڑ نے پام کے درختوں کو جھکا ديا۔
وہ جلدي سے قدم اٹھاتي کيچڑے سے چچتي برساتي کے اندر چلي گئي۔
اس واقعے کے تيسرے روز خورشيد عالم کا خط الماس کے والد کے نام آيا جس ميں انہوں نے اپنے ابا مياں کي شديد علالت کي وجہ سے رخصت معياد بڑھنا کي درخواست کي تھي، انہوں نے الماس کے والد کو يہ نہيں لکھا کہ اس خبر سے کہ ان کا اکلوتا لڑکا کيس مسلمان رئيس زادي کے بجائے کسي پارسن سے شادي کر رہا ہے، ان کے کڑ مذہبي ابا جان صدمے کے جاب بلب ہوچکے ہيں، خورشيد عالم کے خط سے ظاہر تھا کہ وہ بيحد پريشان ہيں جواب ميں الماس نے خود انھيں لکھا۔
آپ جتنے دن چاہے وہاں رہے ڈيڈي آپ کو غير کو نہيں سمجھتے ہم سب آپ کي پريشاني ميں شريک ہيں، آپ ابا مياں کو علاج کيلئے يہاں کيوں نہيں لے آتے؟
برسبيل تذکرہ کل ميں سوئمنگ کيلئے سن اينڈ گئي تھي، وہاں ايک بڑي دل چپ پارسن مس پيرو جاو جادستور سے ملاقات ہوئي جو پيانو بجاتي ہے اور پيرس سے آئي ہے، اور شايد کسي امريکن کي گرل فرينڈ ہے اور شايد اسي کے ساتھ سن اينڈ سينڈ ميں ٹھہري ہوئي ہے ميں نے آپ کو اس لئے لکھا کہ غالبا آپ بھي کبھي اس سے ملے ہوں ہوں پيرس ميں۔۔۔
اچھا۔۔۔اب آپ ابا مياں کو لے آکر آجائيے، تاکہ يہاں بريج کنيڈي ہسپتال ميں ان کيلئے کمرہ ريزور کرليا جائے۔
آپ کي مخلص۔۔۔۔الماس۔۔۔
شام پڑے تاريو کي خستہ حال عمارت کے سامنے ٹيکسي آکر رکي اور خورشيد عالم باہر اترے جيب سے نوٹ بک نکال کر انہوں نے پتے نظر ڈالي اور عمارت کے لب سڑک برآمدے کي دھنسي ہوئي سيڑي پر قدم رکھا، سامنے ايک دروازے کي چوکھٹ پر چونے سےجو چوک صبح بنايا گيا تھا، وہ اب تک موجود تھا اندو نيم تاريک کمرے کے سرے پر کھڑکي ميں ايک بوڑھا پارسي صدر اور ميلي سفيد پتلون پہنے سر پر گول ٹوپي اوڑھے کمرے ميں بندھي کسٹي کھول کر اس ميں گرہيں لگاتے ہوئے زير لب دعائيں پڑھ رہا تھا، ايک طرف ميلي سي آرام کرسي پڑھي تھي وسطي ميز پر رنگين موم جامہ بچھا تھا، ديوار پر زرتشت کي بڑي تصوير آويزاں تھي، کمرے ميں ناريل اور پچھلي کي تيز باس امڈ رہي تھي، ايک بوڑھي پارسن سرخ جاجٹ کي ساري پہنے سر پر رومال باندھے منڈيا ہلاتي اندر سے نکلي۔
مس دستور ہيں۔
پيرو جا؟ پارسن نے دھندلي آنکھوں سے خورشید عالم ديکھتے ہوئے سينڈ اينڈ سينڈ کيا؟ کيا مس دستور سن اينڈ سينڈ ميں منتقل ہوگئي ہيں؟
بہري پٹ نے اقرار ميں سر ہلايا۔
کس کے ۔۔۔کے ساتھ۔۔۔؟ خورشيد عالم نے ہلکا کر پوچھا۔
بوڑھي عورت اندر گئي اور ايک وزيٹنگ کارڈ لا کر خورشيد کي ہتھيلي پر رکھ ديا، کارڈ پر کسي امريکن کا نام درج تھا۔
تم مسٹر کھور شيٹ عالم ہو؟ پيروجا نے کہا تھا کہ تم آنے والے ہو اگر اسے ڈھونڈتے ہوئے يہاں آؤں تو ميں فوراً اس کو جو ہو فون کردو اور تم کو يہ بتاؤ وہ کہاں گئي ہے اس نے بلاؤز کي جيب سے پچيس پيسے نکالے۔ خورشيد عالم نے ہکا بکا ہو کر بوڑھي کو ديکھا۔
آپ کو ايسي صورت حال پر کوئي اعتراض نہيں؟
بہري بھند نے نفي ميں سر ہلايا، ہم بہت غريب لوگ ہيں، مگر اب پيروجا کو ايک امريکن۔۔دفعتہ دفعتہ مسر دستور کو ياد آيا کہ انہوں ے مہمانوں کو اندر ہي نہيں بلايا ہے اور انہوں نے پيٹھ جھکا کر کہا آؤ اندر آجاؤ۔
خورشيد عالم مبہوت کھڑے رہے پھر تيزي سے پلٹ کر ٹيکسي ميں جا بيٹھے۔
بائي بائي ضعيفہ نے ہاتھ ہلايا۔
بوڑھا پارسي دعا ختم کرکے باہر لپکا مگر ٹيکسي زن سے آگے جاچکي تھي۔
جس روز الماس اور خورشيد عالم کي منگني کي دعوت تھي، ايسي ٹوٹ کر بارش ہوئي کہ جل تھل ايک ہوگئے ڈنر سے ذرا پہلے بارش تھي اور خورشيد عالم اور الماس کے والد کے دوست ڈاکڑ صديقي جو حال ہي ميں تبديل ہو کر بمبئ آئے تھے، بالکني ميں جا کھڑے ہوئے جس سے کچھ فاصلے پر برج خموشاں کا اندھيرا جنگل بھيگي ہوائي ہوائيں ہوائيں سائيں سائيں کر رہا تھا، انڈر ڈرائنگ روم ميں قہقہے گونج رہے تھے اور گرينڈ پيانوں پر رکھے ہوئے شمعدان ميں موم بتياں جھلملا رہي تھي بڑا سخت رومينٹک اور پر کيف وقت تھا اتنے ميں گيلري ميں ٹيلي فون کي گھنٹي بجي ايک ملازم نے آکر الماس سے کہاں خورشيد صاحب کيلئے فون آيا ہے ، دلہن بني ہوئي الماس لپک کر فون پر پہنچي ايک مقامي ہسپتال سے ايک نرس پريشان آواز ميں دريافت کر رہي تھي، کيا مسٹر عالم وہاں موجود ہيں؟
آپ بتائيے آپ کو مسٹر عالم سے کيا کام ہے؟ الماس نے روشني سے پوچھا۔۔
مس پيروجا دستور ايک مہينے سے يہاں سخت بيمار پڑي ہيں آج ان کي حالت زيادہ نازک ہوگئ ہے انہوں نے کہلوايا ہے اگر چند منٹ کيلئے مسٹر عالم يہاں آسکيں مسٹر عالم يہاں نہيں ہيں۔
آر يو شيور؟
يس آئي ايم شيور۔۔۔الماس نے گرج کر جواب ديا، کيا آپ سمجھتي ہيں ميں جھوٹ بول رہي ہوں؟ اور کھٹ سے فون بند کرديا، اور ذرا سرااسيمگي سے مہمانوں ميں شامل ہوئي۔
دو گھنٹے بعد پھر فون آيا۔
ڈاکڑ صديقي آپ کي کال ۔۔۔۔گيلري ميں کسي نے آواز دي آپ کو فوراً ہسپتال بلايا گيا ہے، ڈاکڑ صديق جلدي سے ٹيلي فون پر گئے پھر انہوں نے الماس کو آواز دي بھئي معاف کرنا مجھے بھاگنا پڑ رہا ہے۔
الماس دروازے تک آئي کل ضرور ہم لوگ ويک اينڈ کيلئے پونا جارہے ہيں۔
ضرور۔۔۔۔ضرور۔۔۔۔گڈنائٹ۔۔۔۔ڈاکٹر صديقي نے اور باہر نکل گئے۔
پريچ کنيڈي کے ہسپتال ميں صحت ياب ہوکر خورشيد عالم کے ابا مياں خوش خوش پرتاب گدھ واپس جاچکے ہيں، جب تک کمبالا بل والا فليٹ تيار نہيں ہوا جو دلہن کو جيہز ميں ملا تھا، شادي کے بعد دولہا مياں سسرال ہي ميں رہے، اکثر وہ صبح کو دفتر جانے سے پہلے
بالکني ميں جا کر کھڑے ہوتے نيچے پہاڑ کے گھنے باغ ميں گزرتي بل کھاتي سڑک برج خموشاں کي طرف جاتي تھي، دفعتاً دفعتاً سفيد براق کپڑوں ميں ملبوس پاسي نسيار سفيد رومالوں کے ذريعہ ايک دوسرے کے ہاتھ تھامے قطاريں بنائے جنازہ اٹھائے دور پہاڑي پر چڑھتے ہوئے نظر آئے، کوے اور گدھ درختوں پر منتظر بيٹھے رہتے ، برج خموشا کے احاطے کا پھاٹک کے باہر زندگي کا پر جوش سمندر اسي طرح دنيا ميں پھيلے ہے ايک سے ايک دل چسپ شہروں تک سفر کرنے کي دعوت ميں مصروف رہتا۔
اس نے ايک بار خط ميں لکھا تھا، ذہن کي ہزاروں آنکھيں ہيں، دل کي آنکھ صرف ايک ليکن جب محبت ختم ہوجائے تو ساري زندگي ختم ہوجاتي ہے۔
سمندر کي موج پل کي پل ميں فنا ہوگئي، آسمان پر سے گزرنے والے بادل فضا ميں نخيل ہوچکے تب وہ مري ہوگي تو کوئوں اور گدھوں نے اس کا کس طرح سواگت کيا ہوگا، اس طوفاني رات کو ہسپتال کے وارڈ سے نکل کر اس کي روح جب آسمانوں پر پہنچي ہوگي، اور عالم بالا کے گھپ اندھيرے ميں يا کسي دوسري روح نے اسے تکرا کر پوچھا ہوگا تم کون ہوں؟ تو اس نے جواب ديا ہوگا، پتہ نہيں۔۔۔ميں کل ہي تو مري ہوں؟
اب تک اس کي روح کہاں سے کہاں نکل گئي ہوگي، مرے ہوئے انسان زيادہ تيزي سے سفر کرتے ہيں۔
تارابائي اپني روشن آنکھوں سے صاحب کے گھر کي ہر چيز کو ارمان اور حيرت سے ديکھتي ہے، وہ صاحب کو حيرت سے تکا کرتي ہے، الماس بيگم اب اميد سے ہيں بہت جلد تارا بائي کا کام دگنا بڑھ جائے گا، آج صبح آئي اسپيشلسٹ ڈاکڑ صديقي آئے تھے، جب تارا بائي ان کيلئے چائے لے کر برآمدے ميں کوئي تو وہ چونک پڑے اور خوشي سے پوچھا ارے تارا بائي، تم يہاں کام کر رہي ہو؟
جي گدر صاحب ۔۔۔۔۔تارا بائي نے شرما کر جواب ديا۔
اب صاف سجھائي ديتا ہے، جي داگدرجي۔۔۔اب سب کچھ بہت صاف سجھائي ديتا ہے۔
گڈ۔۔۔۔پھر وہ مسٹر اور مسز خورشيد عالم سے مخاطب ہوئے بھئي يہ لڑکي دس سال کي عمر ميں اندھي ہوگئي تھي، مگر خوش قسمتي سے اس کا اندھا پن عارضي ثابت ہوا تمہيں ياد ہے الماس تمہاري انگيجمنٹ پارٹي کي رات مجھے ہسپتال بھاگنا پڑا تھا؟ وہاں ايک خاتون مس پيرو جادستور کا انتقال ہوگيا تھا، انہوں نے مرنے سے چند روز قبل اپني آنکھيں آئي بينک کو ڈونيٹ کرنے کي وصيت کي تھي، لہذا ان کے مرتے ہي مجھے فورا بلاليا گيا کہ ان آنکھوں کے ڈلے نکال لوں بے حد نرگسي آنکھيں تھيں، بے چاري کي، جانے کون تھي، غريب، ايک بہري بڑھيا، پارسن پلنگ کے سرہانے کھڑے بري طرح روئے جارہي تھي بڑا الم ناک منظر تھا۔۔۔۔ خير تو چند روز بعد اس تارا بائي کا ماموں اسے ميرےپاس لايا تھا اسے کسي ڈاکڑ نے بتايا تھا کہ نيا کورينا لگانے سے اس کي بينائي واپس آسکتي ہے، ميں نے وہي مس دستور کي آنکھيں ذخيرے سے نکال کر ان کو کورينا اس لڑکي کي آنکھوں میں گرافٹ کرديا، ديکھو کيس تارا ايس آنکھيں ہوگئيں اس کي، واقعي ميڈيکل سائنس آج کل معجزے دکھا رہے ہيں۔
ڈاکڑ صديقي نے بات ختم کرکے اطمينان سے سگريٹ جلايا، مگر الماس بيگم کا چہرہ فق ہوگيا خورشيد عالم لڑکھڑاتے ہوئے اٹھ کر جيسے اندھوں کي طرح ہوا ميں کچھ ٹٹولتے اپنے کمرے ميں چلے گئے تارا بائي ان کي کيفيت ديکھ کر بھاگي بھاگي اندر جاتي ہے، صاحب پلٹ کر باولوں کي طرف اسے تکتے ہيں تارا بائي کي سمجھ ميں کچھ نہيں آرہا تھا، وہ بوکھلائي ہوئي باورچي خانے ميں جا کر برتن صاف کرنے ميں مصروف ہوجاتي ہے، دور برج خموشاں پہ اسي طرح گدھ اور کوے منڈلا رہے ہيں۔
کاگا سب تن کھائيو چن چن کھائيو ماس
دوئي نيناں مت کھائيوں پيا ملن کي آس
 

مہوش علی

لائبریرین
پروف ریڈ



نظارہ

تارا بائی کی آنکھیں تاروں ایسی روشن ہیں اور وہ گرد وپیش کی ہر چیز کو حیرت سے تکتی ہے، دراصل تارا بائی کے چہرے پر آنکھیں ہی آنکھیں ہیں، وہ قحط کی سوکھی ماری لڑکی ہے جسے بیگم الماس خورشید کے ہاں کام کرتے ہوئے صرف چند ماہ ہوئے ہیں اور وہ اپنی مالکن کے شان دار فلیٹ کے سازو سامان کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتی رہتی ہے، کہ ایسا عیش و عشرت اس سے پہلے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا تھا، وہ گور کھپور کے ایک گاؤں کی بال ودھواں ہے جس کے سسر اور ماں باپ کے مرنے کے بعد اس کے ماما نے جو ممبئی میں دودھ والا بھیا ہے، اسے یہاں بلا بھیجا تھا۔
الماس بیگم کے بیاہ کو ابھی تین چار مہینے ہی گزرے ہیں ان کی منگورین آیا جو ان کے ساتھ آئی تھی ملک چلی گئی تو ان کے بے حد منتظم خالہ بیگم عثمانی نے جو ایک نامور سوشل ورکر ہیں، ایمپلائمنٹ ایکسچینچ فون کیا اور تارا بائی پٹ بجنے کی طرح آنکھیں جھپکاتی کمبابل کے اسکائی اسکریپر گل فسترن کی دسویں منزل پر آن پہنچیں، الماس بیگم نے انکو ہر طرح قابل اطمینان پایا، مگر دوسرے ملازموں نے ان کو تارا بائی کہہ کر پکارا وہ بہت بگڑیں، ہم کوئی پتریا ہیں؟ انہوں نے احتجاج کیا، مگر اب ان کو تارا بائی کے بجائے باراوئی کہلانے کی عادت ہوگئی ہے، اور وہ چپ چاپ کام میں مصروف رہتی ہیں اور بیگم صاحب اور ان کے صاحب کو آنکھیں جھپکا جھپکا کر دیکھتی ہیں۔
الماس بیگم کا بس چلے تو وہ اپنے شوہر کو ایک لمحے کیلئے اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں اور وہ جوان جہاں آیا کو ملازم رکھنے کی ہر گز قائل نہیں، مگر تارا بائی جیسی بے جان اور سگڑ خادمہ کو دیکھ کر انہوں نے اپنی تجربہ کار خالہ کے انتخاب پر اعتراض نہیں کیا۔
تارابائی صبح کو بیڈ روم میں چائے لاتی ہے بڑی عقیدت سے صاحب کے جوتوں پر پالش اور کپڑوں پر استری کرتی ہے، ان کے شیو کا پانی لگاتی ہے ، جھاڑو پوچھ کرتے وقت وہ بڑی حیرت سے ان خوبصورت چیزوں پر ہاتھ پھیرتی ہے، جو صاحب اپنے ساتھ پیرس سے لائے ہیں، ان کا وائلن وارڈروب کے اوپر رکھا ہے، جب پہلی بار تارا بائی نے بیڈروم کی صفائی کی تو وائلن پر بڑی دیر تک ہاتھ پھیرا، مگر پرسوں صبح حسب معمول جب وہ بڑی نفاست سے وائلن صاف کر رہی تھی تو نرم مزاج اور شریف صاحب اسی وقت کمرے میں آگئے اور اس پر برس پڑے کہ وائلن کو ہاتھ کیوں لگایا اور تارابائی کے ہاتھ سے چھین کر اسے الماری کے اوپر پٹخ دیا، تارابائی سہم گئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور صاحب ذرا شرمندہ سے ہوکر باہر برآمدے میں چلے گئے، جہاں بیگم صاحبہ چائے پی رہی تھی ویسے بیگم صاحبہ کی صبح ہئیر ڈریسر اور بیوٹی سلیون میں گذرتی ہے مینی کیو، پیڈی کیور، تاج نیشنل ایک سے ایک بڑھیا ساڑھیاں درجنوں رنگ برنگے سیٹس اور عطر کے ڈبے اور گہنے ان کی الماریوں میں پڑے ہیں مگر تارا بائی سوچتی ہے، بھگوان نے میم صاحب کو دلوت بھی، اجت بھی اور ایسا سندر پتی دیا، بس شکل دینے میں کنجوسی کر گئے۔
سنا ہے کہ صاحب اپنی خوبصورتی کی وجہ سے میم صاحبوں کی سوسائٹی میں بے حد مقبول تھے، مگر بیاہ کے بعد سے بیگم صاحبہ نے ان پر بہت سے پابندیاں لگادی ہی، دفتر جاتے ہیں تو دن میں کئی بار فون کرتی ہیں، شام کو کسی کام سے باہر جائیں تو بیگم صاحبہ کو پتہ رہتا ہے، کہ کہاں گئے ہیں اور ان جگہوں پر فون کرتی ہیں، شام کو سیر و تفریح اور ملنے ملانے کیلئے دونوں باہر جاتے ہیں تب بھی بیگم صاحب بڑی کڑی نگرانی رکھتی ہیں مجال ہے جو کسی دوسری لڑکی پر نظر ڈالیں، صاحب نے یہ سارے قاعدے قانون ہنسی خوشی قبول کر لئے ہیں، کیونکہ بیگم صاحبہ بہت امیر اور صاحب کی نوکری بھی ان کے دولت مند سسر نے دلوائی ہے، ورنہ بیاہ سے پہلے صاحب بہت غریب تھے اسکالر شپ پر انجنئیرنگ پڑھنے فرانس گئے تھے، واپس آئے تو روزگار نہیں ملا، پریشان حال گھوم رہے تھے جب ہی بیگم صاحبہ کے گھر والوں نے انہیں پھانس لیا، بڑے لوگوں کی دنیا کے عجیب قصے تارا بائی فلیٹ کے مستری باورچی اور دوسرے نوکروں سے سنتی اور اس کی آنکھیں اچھبنے سے کھلی رہتی ہیں، خورشید عالم بڑے اچھے اور وائلن نواز آدمی تھے، مگر جب سے بیاہ ہوا تو بیوی کی محبت میں ایسے کھوئے کہ وائلن کو ہاتھ نہیں لگایا، کیونکہ الماس بیگم کو اس ساز سے دلی نفرت تھی، خورشید عالم بیوی کے بے حد احسان مند ہیں کیونکہ اس شادی سے ان کی زندگی بدل گئی، اور احسان مندی ایسی شے ہے کہ انسان سنگیت کی قربانی بھی دے سکتا ہے، خورشید عالم شہر کی ایک خستہ عمارت میں پڑے تھے اور بسوں میں مارے مارے پھرتے تھے اب لکھ پتی کی حیثیت سے کمبالابل میں فروکش ہیں مرد کیلئے اس کا اقتصادی تحفظ غالبا سب سے بڑی چیز ہے۔
خورشید عال اب وائلن کبھی نہیں بجائیں گے، یہ صرف ڈیڑھ سال پہلے کا ذکر ہے کہ الماس اپنے ملک التجار باپ کی عالی شان کوٹھی میں مالا بار بل پر رہتی تھی، وہ سوشل ورکر رہی تھی، اور عمر زیادہ ہوجانے کے کارن شادی کی امید سے دست بر دار ہوچکی تھی جب ایک دعوت میں ان کی ملاقات خورشید عالم سے ہوئی اور ان کی جہاں دیدہ خالہ بیگم عثمانی نے ممکنات بھانپ کر اپنے جاسوسوں کے ذریعہ معلوات فراہم کیں ، لڑکا یوپی کا ہے، یورپ سے لوٹ کر تلاش معاش میں سرگردان ہے مگر شادی پر تیار نہیں کیونکہ فرانس میں ایک لڑکی چھوڑ آیا ہے اور اس کی آمد کا منتظر ہے بیگم عثمانی فورا پنی مہم پر جٹ گئیں، الماس کے والد نےاپنی ایک فرم میں خورشید عالم کو پندرہ سو روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا، الماس کی والد نے انہیں اپنے ہاں مدعو کیا اور الماس سے ملاقاتیں خود بخود شروع ہوگئیں، مگر پھر بھی لڑکے نے لڑکی کے سلسلے میں کسی گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا، دفتر سے لوٹ کر انہیں بیشتر وقت الماس کے ہاں گزارنا پڑتا اور اس لڑکی کی سطحی گفتگو سے اکتا کر اُس پر فضا بالکنی میں جا کر کھڑے ہوتے جس کا رخ سمندر کی طرف تھا، پھر وہ سوچتے ایک دن اس کا جہاز آ کر اس ساحل پر لگے لگا، اور وہ اس میں سے اترے گی، اسے ہمراہ ہی آجانا چاہئیے تھا مگر پیرس میں کالج میں اس کا کام ختم نہیں ہوا تھا اس کا جہاز ساحل سے آگے نکل گیا، وہ بالکنی کے جنگلے پر جھکے افق کو تکتے رہتے الماس اندر سے نکل کر شگفتگی سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھتی کیا سوچ رہے ہیں وہ ذرا جھینپ کر مسکرا دیتے۔
رات کے کھانے پر الماس کے والد کے ساتھ ملکی سیاست سے وابستہ ہائی فنانس پر تبادلہ خیالات کرنے کے بعد وہ تھکے ہارے اپنی جائے قیام پر پہنچتے اور وائلن نکال کر دھنیں بجانے لگتے، جو اس کی سنگت میں پیرس میں بجایا کرتے تھے، وہ دونوں ہر تیسرے دن ایک دوسرے کو خط لکھتے تھے، اور پچھلے خط میں انہوں نے اسے اطلاع دی تھی انہیں بمبئی ہی میں بڑی عمدہ ملازمت مل گئی ہے، ملازمت کے ساتھ جو خوفناک شاخسانے بھی تھے اس کا ذکر انہوں نے خط میں نہیں کیا تھا۔
ایک برس گزر گیا مگر انہوں نے الماس سے شادی کا کوئی اراد ظاہر نہیں کیا، آخر عثمانی بیگم نے طے کیا کہ خود ہی ان سے صاف صاف بات کرلینا چاہئیے، عین مناسب ہوگا، مگر تب ہی پرتاب گڑھ سے تار آیا کہ خورشید عالم کے والد سخت بیمار ہیں اور وہ چھٹی لے کر وطن واپس روانہ ہوگئے، انکو پرتاب گڑھ گئے چند روز ہی گزرے تھے کہ الماس جو ان کی طرف سے نا امید ہوچکی تھی ایک شام اپنی سہلیوں کے ساتھ ایک جرمن پیانست کا کنسرٹ سننے تاج محل میں گئی، کرسٹل روم میں حسب معمول بوڑھے پارسیوں اور پاسنوں کا مجمع تھا، اور ایک حسین آنکھوں والی پارسی لڑکی کنسرٹ کا پروگرام بانٹی پھر رہی تھی، ایک شناسا خاتون نے الماس کا تعارف اس لڑکی سے کرایا، الماس نے حسب عادت بڑی ناقدانہ اور تیکھی نظروں سے اس اجنبی لڑکی کا جائزہ لیا لڑکی بے حد حسین تھی، آپ کا نام کیا بتایا مسز رستم جی نے؟ الماس نے ذرا مشتاقانہ انداز میں سوال کیا۔
پروجا سدتور لڑکی نے سادگی سے جواب دیا، میں نے آپ کو پہلے کسی کنسرٹ وغیرہ میں نہیں دیکھا۔
میں سات برس بعد پچھلے ہفتے ہی پیرس سے آئی ہوں۔
سات برس پیرس میں تب تو آپ فرنچ خوب فر فر بول لیتی ہوں گی؟ الماس نے ذرا ناگواری سے کہا، جی ہاں پیروجا ہنسنے لگی، اب خاص خاص مہمان جرمن پیانسٹ کے ہمراہ لاؤنج کی سمت بڑھ رہے تھے، پروجا الماس سے معذرت چاہ کر ایک انگریز خاتون سے اس پیانسٹ کی موسیقی پر بے حد ٹیکنیکل قسم کا تبصرہ کرنے میں منہمک ہوگئی، لیکن لیکن لاؤنج میں پہنچ کر الماس پھر اس لڑکی سے ٹکرا گئی، کمرے میں چائے کی گہما گہمی شروع ہوچکی ہے، آئیے یہاں بیٹھ جائیں، پیرو جا نے مسکرا کر الماس سے کہا وہ دونوں دریچے سے لگی ہوئی ایک میز پر آمنے سامنے بیٹھ گئیں، آپ تو ویسٹرن میوزک کی ایکسپرٹ معلوم ہوتی ہیں، الماس نے ذرا رکھائی سے بات شروع کی کیونکہ وہ خوب صورت اور کم عمر لڑکیوں کو ہر گز برداشت نہ کرسکتی تھی، جی ہاں میں پیرس میں پیانو کی اعلٰی تعلیم کیلئے گئی تھی۔
الماس کے ذہن میں کہیں دور خطرے کی گھنٹی بجی اس نے باہر سمندر کی شفاف اور بے حد نیلی سطح پر نظر ڈال کر بڑے اخلاق اور بے تکلفی سے کہا، ہاؤ انٹرسٹنگ، پیانو تو ہمارے پاس بھی موجود ہے کسی روز آکر کچھ سناؤ، ضرور، پیروجا نے مسرت سے جواب دیا، سنیچر کے روز کیا پروگرام ہے تمہارا میں اپنے ہاں ایک پارٹی کر رہی ہوں، سہیلیاں تم سے مل کر بہت خوش ہوں گی۔
آئی وڈ لو ٹو کم۔۔۔تھینک یو؟
تم رہتی کہا ہو پیرو جا؟
پیروجا نے تار دیو کی ایک گلی کا پتہ بتایا، الماس نے ذرا اطمینان کی سانس لی، تار دیو مفلوک الحال پارسیوں کا محلہ ہے، میں اپنے چچا کے ساتھ رہتی ہوں میرے والد کا انتقال ہوچکا ہے، میرے کوئی بھائی بہن بھی نہیں، مجھے چچا ہی نے پالا ہے، وہ لاولد ہے ، چچا ایک بینک میں کلرک ہیں، پیروجا سادگی سے کہتی رہی، پھر ادھر ادھر کی چند باتوں کے بعد سمندر کی پر سکون سطح دیکھتے ہوئے اس نے اچانک کہا کیسی عجیب بات ہے پچھلے ہفتہ جب میرا جہاز اس ساحل کی طرف بڑھ رہا تھا تو میں سوچ رہی تھی کہ اتنے عرصے کے بعد اجنبیوں کی طرح بمبئی واپس پہنچ رہی ہوں، یہ بڑا کٹھور شہر ہے تم کو معلوم ہی ہوگا، الماس مخلص دوست یہاں بہت مشکل سے ملتے ہیں، مگر میری خوشی دیکھو آج تم سے ملاقات ہوگئی۔
الماس نے دردمندی کے ساتھ سر ہلا دیا، لاؤنج میں باتوں کی دھیمی دھیمی بھنبھناہٹ جاتی تھی، چند لمحوں کے بعد اس نے پوچھا تم پیرس کیسے گئیں؟
مجھے اسکالر شپ مل گیا تھا، وہاں پیانوں کی ڈگری کی بعد چند سال تک میوزک کالج میں ریسرج کرتی رہی میں وہاں بہت خوش تھی مگر یہاں میرے چچا بالکل اکیلے تھے، وہ دونوں بہت بوڑھے ہوچکے ہیں، چچی بیچاری تو ضعیف العمری کی وجہ بالکل بہری بھی ہوگئیں ہیں ان کی خاطر وطن واپس آئی اور اس کے علاوہ۔۔۔۔۔
ہلو الماس تم یہاں بیٹھی ہوں، چلو جلدی مسز ملگاؤں تم کو بلا رہی ہیں، ایک خاتون نے میز کے پاس آکر کہا پیروجا کی بات ادھوری رہ گئی، الماس نے اس سے بات کہتے ہوئے معذرت چاہی کہ وہ سنیچر کو صبح گیارہ بجے کار بھیج دے گی، وہ میز سے اٹھ کر مہمانوں کے مجمع میں کھو گئی۔
سنیچر کے روز پیروجا الماس کے گھر پہنچی، جہاں مرغیوں کی پارٹی اپنے عروج پر تھی، پٹیلز کے ریکارڈ بج رہے تھے، چند لڑکیوں جنہوں نے چند روز پہلے ایک فیشن شو میں حصہ لیا تھا، زور شور سے اس پر تبصرہ کر رہی تھی، یہ سب لڑکیاں جن کی ماتر بھاشائیں اردو، ہندی، گجراتی اور مراٹھی تھی انگریزی اور صرف انگریزی بول رہی تھیں، اور انہوں نے بے حد چست پتلونیں پہن رکھی تھیں، پروجا کو ایک لمحے کیلئے محسوس ہوا کہ وہ ابھی ہندوستان واپس نہیں آئی ہے۔ برسوں یورپ میں رہ کر اسے معلوم ہوچکا تھا کہ جنتا کی زندہ تصویروں کے بجائے ان مغربیت زدہ ہندوستانی خواتین کو دیکھ کر اہل یورپ کو سخت افسوس اور مایوسی ہوتی ہے، چنانچہ پروجا پیرس اور روم میں اپنی ٹھیٹ ہندوستانی وضع قطع پر بڑی نازاں رہتی تھی، بمبئی کی ان نقلی امریکن لڑکیوں سے اکتا کر وہ بالکنی میں جا کھڑی ہوئی جس کے سامنے سمندر تھا اور پہلو میں برج خومشاں کا جنگل نظر آرہا تھا، وہ چونک اٹھی گھنے جنگل کے اوپر کھلی فضاؤں میں چند گدھ اور کوے منڈلا رہے تھے، اور چاروں طرف بڑا ڈراؤنا سناٹا طاری تھا، وہ گھبرا کر واپس نیچے اتری اور زندگی سے گونجتے ہوئے کمرے میں آکر صوفے پر ٹک گئی۔
کمرے کے ایک کونے میں غالبا بطور آرائش گرینڈ پیانو رکھا ہوا تھا، لڑکیاں اب ریڈیو گرام پر ببلی ببلا فوٹنے کا پران کلسپو جمیکا فئیر بجارہی تھی، اور گٹار کی جان لیوا گونج کمرے میں پھیلنے لگی۔

Down The Way Where T F Night Are Gay And The Sun Shines
Daily In The Mountain Top
I Took A Trip On A Sailing Ship
And When I Reached Samica
I Made A Stop
But I Am Sad Today I M On My Way
And Wont Be Back For Many Days
I Had To Learn A Little Girl In Kingstone Town۔۔۔

الماس چپ چاپ جا کر بالکنی میں کھڑی ہو گئی، ریکارڈ ختم ہوا تو اس نے پیروجا سے کہا، ہم لوگ سخت بد مذاق ہیں ایک ماہر پیانسٹ یہاں بیٹھی ہے اور ریکارڈ بجا رہے ہیں۔۔۔چلو بھائی۔۔۔۔اٹھو۔۔۔۔
پیروجا مسکرائی ہوئی پیانو کی اسٹول پر بیٹھ گئی۔
کیا سناؤں؟ میں تو صرف کلاسیکی میوزک ہی بجاتی ہوں۔
ہائے ۔۔۔پوپ۔۔۔نہیں؟ لڑکیوں نے غل مچایا۔۔۔۔۔اچھا کوئی انڈین فلم سانگ ہی بجائو۔۔۔۔
فلم سانگ بھی مجھے نہیں آتے۔۔۔۔۔مگر ایک غزل یاد ہے۔۔۔۔جو مجھے۔۔۔۔جو مجھے وہ جھینپ کر ٹھنک گئی۔۔۔غزل؟ وہ آئی لو پوئیٹری۔ ایک مسلمان لڑکی جس نے والدین اہل زبان تھے بڑے سرپرستانہ انداز میں کہا۔
پروجا نے پرودوں پر انگلیاں پھیریں اور ایک اانجانی مسرور پھریری سی آئی پھر اس نے آہستہ آہستہ ایک دل کشن دھن بجانا شروع کیا گاؤ بھی ساتھ ساتھ لڑکیاں چلائیں۔
بھئی میں گا نہیں سکتی، میرا اردو تلفظ بہت خطرناک ہے۔
اچھا اس کے الفاظ بتادو۔۔۔ ہم لوگ گائیں گے۔
وہ کچھ اس طرح ہے ۔۔۔پیرو جانے کہا۔
تو سامنے ہے اپنے بہتا کہ تو کہاں ہے۔
کس طرح تجھ کو دیکھو نظارہ درمیاں ہے
چند لڑکیوں نے ساتھ ساتھ گانا شروع کیا، نظارہ درمیان ہے۔۔۔۔۔نظارہ درمیان ہے۔
غزل ختم ہوئی تالیاں بجیں۔
اب کوئی ویسٹرن چیز بجاؤ۔۔۔۔ ایک لڑکی نے فرمائش کی۔۔۔
شوپال کی میڈنز فینسی بجاؤں؟ یہ نغمہ میں اور میرا منگیتر ہمیشہ اکھٹے بجاتے تھے، پیرس میں وہ وائلن پر میری سنگیت کرتے تھے، تمہارے منگیتر بھی میوزیشن ہیں؟ایک لڑکی نے پوچھا۔
پروفیشنل نہیں شوقیہ، پیروجانے نے جواب دیا اور نغمہ بجانے میں محو ہوگئی، اگلے ہفتوں میں الماس نے پیروجا سے بڑی گہری دوستی گانٹھ لی، اس دوران میں پیروجا نے کو ایک کانونٹ کالج میں پیانو سکھانے کی نوکری مل گئی، جو تعطیلات کے بعد کھلنے والا تھا، ہفتے میں تین بار ایک امریکن کی دس سالہ لڑکی کو پیانو سکھانے کا ٹیوشن بھی اسے مل گیا تھا، امریکن کی بیوی کا حال ہی میں انتقال ہوا تھا اور وہ اپنا غم بھلانے کیلئے اپنے بچوں کے ہمراہ بغرض سیاحت ہندوستان آیا ہوا تھا، اور جوہو میں سن اور سینڈ میں مقیم تھا، تارریو سے جو ہو کا سفر خاصا طویل تھا مگر امریکن پیروجا کو اچھی تنخوا دینے والا تھا، اور بڑی شفقت سے پیش آتا تھا، پیرو جا اپنی زندگی سے فی الحال بہت خوش تھی، چند روز بعد وہ اپنے وطن سے آنے والا تھا، پیرو جا نے اسے بمبئی آتے ہی ملازمت اور ٹیوشن ملنے کی اطلاع نہیں دی تھی، کہ وہ اسے ایک اچانک سر پرائز دینا چاہتی تھی۔
ایک روز الماس کے ساتھ اس کی کوٹھی کے باغ میں ٹہل رہی تھی کہ فوارے پر پہنچ کر الماس نے اس دفعتاً سوال کیا تم نےوہ غزل کہاں سے سیکھی تھی۔
اوہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔؟ پیرس میں۔۔۔۔
پیرس میں ہاؤ انٹرسٹنگ کس نے سکھائی؟
میرے منگیتر نے۔۔۔
اوہ پیروجا، تم نے مجھ کو بتایا بھی نہیں اب تک
تمہاری ہی کمیونٹی کے ہیں وہ۔۔۔۔۔۔
اوہ۔۔۔واقعی۔۔۔۔الماس فوارے کی منڈ پر بیٹھ گئی۔
میرے باپ داد ستو تھے میرے چچا بہت روشن خیال ہیں انہوں نے اجازت دے دی ہے۔
کیا نام ہے صاحب زادے کا؟
یہ ناموں کا بھی عجیب قصہ تھا خورشید عالم اس کی نرگسی آنکھوں پر عاشق ہوئے تھے، جب پیرس کے ہندوستانی سفارت خانے کی ایک تقریب میں پہلی ملاقات ہوئی اور کسی نے اس کا تعارف پیروجا کہہ کر ان سے کرایا تو انہوں نے شرارت سے کہا تھا کہ لیکن آپکا نام نرگس ہونا چاہیے تھا۔
پیروجا نے جواب دیا: "نرگیش؟ نرگیش تو میری آنٹی کا نام ہے۔"
لاحول والا قوۃ۔۔۔خورشید عالم نے ایسی بے تکلفی سے کہا تھا جیسے اسے ہمیشہ سے جانتے ہوں۔۔۔۔نرگیش کھور شیٹ پیرو جا آپ لوگوں نے حسین ایرانی ناموں کی ریڑھ ماری ہے، میں آپ کو فیروزہ پکاروں تو کوئی اعتراض ہے؟ ہر گز نہیں پیروجانے ہنس کر جواب دیا تھا، اور پھر ایک بار خورشید عالم نے دریا کنارے ٹہلتے ہوئے اس سے کہا تھا یہ تمہاری بہادر آنکھیں، ہفت زبان آنکھیں۔۔۔۔جگنو ایسی شہاب ثاقب ایسی، ہیرے جواہرات ایسی ، روشن دھوپ اور جھلملاتی بارش ایسی آنکھیں۔۔۔۔نرگس کے پھول جو تمہارے آنکھوں میں تبدیل ہوگئے۔
"میں نے پوچھا کیا نام ہے ان صاحب کا؟" الماس کی تیکھی آواز پر وہ چونکی۔
" کھور شیٹ عالم۔" پیروجا نےجواب دیا، چند لمحوں کے سکوت کے بعد اس نے گھبرا کر نظریں اٹھائیں، سیاہ ساری میں ملبوس، کمر پر ہاتھ رکھے سیاہ اونت کی طرح اس کے سامنے کھڑی الماس اس سے کہہ رہی تھی کیسا عجیب اتفاق ہے پیرو جا ڈئیر میرے منگیتر کا نام بھی خورشید عالم ہے وہ بھی وائلن بجاتے ہیں اور وہ بھی پیرس سے آئے ہوئے ہیں، اور ان دنوں اپنے ملنے والوں سے ملنے کے لیے وطن گئے ہوئے ہیں۔

اگست کے آسمان پر زور سے بجلی چمکی مگر کسی نے نہیں دیکھا کہ وہ کڑکتی ہوئی بجلی آن کر پیروجا پر گر گئی۔ وہ کچھ دیر تک ساکت بیٹھی رہی، پھر اس نے اس عالی شان عمارت پر نظر ڈالی اور اپنے پرانے اور چھوٹے سے فلیٹ کا تصور کیا، بجلی پھر چمکی اور مالابار ہل کے اس منظر کو روشن کر گئی، جشم زدن میں ساری بات پروجا کی سمجھ میں آگئی، اور یہ بھی کہ اپنے نظرں میں خورشید عالم نے الماس کا ذکر کیوں نہیں کیا تھا، اور کچھ عرصے شادی کے تذکرہ کو وہ کس وجہ سے اپنے خط میں ٹال رہے تھے، وہ آہستہ سے اٹھی اور اس نے آہستہ سے کہا اچھا بھئی الماس، منگنی مبارک ہو خدا حافظ۔
جا رہی ہو پروجا؟ ٹھہرو میری کار تم کو پہنچا آئے گی۔۔۔ڈرائیور۔۔۔۔الماس نے سکون کے ساتھ آواز دی۔
نہیں الماس شکریہ وہ تقریباً بھاگتی ہوئی پھاٹک سے نکلی۔۔۔سڑک سے دوسری طرف اسی وقت بس آن کر رکی، وہ تیزی سے سڑک پار کر کے بس میں سوار ہوگئی۔،
فوراے کے پاس کھڑی الماس پھاٹک کی طرف دیکھتی رہی، بارش کی زبردست بوچھاڑ نے پام کے درختوں کو جھکا دیا۔
اس واقعے کے تیسرے روز خورشید عالم کا خط الماس کے والد کے نام آیا جس میں انہوں نے اپنے ابا میاں کی شدید علالت کی وجہ سے رخصت معیاد بڑھانے کی درخواست کی تھی، انہوں نے الماس کے والد کو یہ نہیں لکھا کہ اس خبر سے کہ ان کا اکلوتا لڑکا کسی مسلمان رئیس زادی کے بجائے کسی پارسن سے شادی کر رہا ہے، ان کے کٹر مذہبی ابا جان صدمے کے باعث جاں بلب ہوچکے ہیں، خورشید عالم کے خط سے ظاہر تھا کہ وہ بیحد پریشان ہیں جواب میں الماس نے خود انھیں لکھا۔
آپ جتنے دن چاہے وہاں رہیں ڈیڈی آپ کو غیر نہیں سمجھتے ہم سب آپ کی پریشانی میں شریک ہیں، آپ ابا میاں کو علاج کیلئے یہاں کیوں نہیں لے آتے؟
برسبیل تذکرہ کل میں سوئمنگ کیلئے سن اینڈ گئی تھی، وہاں ایک بڑی دل چپ پارسن مس پیروجا سے ملاقات ہوئی جو پیانو بجاتی ہے اور پیرس سے آئی ہے، اور شاید کسی امریکن کی گرل فرینڈ ہے اور شاید اسی کے ساتھ سن اینڈ سینڈ میں ٹھہری ہوئی ہے میں نے آپ کو اس لئے لکھا کہ غالبا آپ بھی کبھی اس سے ملے ہوں ہوں پیرس میں۔۔۔
اچھا۔۔۔اب آپ ابا میاں کو لے آکر آجائیے، تاکہ یہاں بریج کنیڈی ہسپتال میں ان کیلئے کمرہ ریزور کرلیا جائے۔
آپ کی مخلص۔۔۔۔الماس۔۔۔
شام پڑے تاریو کی خستہ حال عمارت کے سامنے ٹیکسی آکر رکی اور خورشید عالم باہر اترے جیب سے نوٹ بک نکال کر انہوں نے ایڈریس پر نظر ڈالی اور عمارت کے لب سڑک برآمدے کی دھنسی ہوئی سیڑی پر قدم رکھا، سامنے ایک دروازے کی چوکھٹ پر چونے سےجو چوک صبح بنایا گیا تھا، وہ اب تک موجود تھا اندر نیم تاریک کمرے کے سرے پر کھڑکی میں ایک بوڑھا پارسی میلی سفید پتلون پہنے سر پر گول ٹوپی اوڑھے کمرے میں زیر لب دعائیں پڑھ رہا تھا، ایک طرف میلی سی کرسی پڑی تھی وسطی میز پر رنگین موم جامہ بچھا تھا، دیوار پر زرتشت کی بڑی تصویر آویزاں تھی، کمرے میں ناریل اور مچھلی کی تیز باس امڈ رہی تھی، ایک بوڑھی پارسن سرخ جاجٹ کی ساڑھی پہنے سر پر رومال باندھے منڈیا ہلاتی اندر سے نکلی۔
مس پیروجا دستور ہیں۔
پیرو جا؟ پارسن نے دھندلی آنکھوں سے خورشید عالم دیکھتے ہوئے سوال کیا؟ کیا مس دستور سن اینڈ سینڈ میں منتقل ہوگئی ہیں؟
بہری پٹ نے اقرار میں سر ہلایا۔
کس کے ۔۔۔کے ساتھ۔۔۔؟ خورشید عالم نے ہلکا کر پوچھا۔
بوڑھی عورت اندر گئی اور ایک وزیٹنگ کارڈ لا کر خورشید کی ہتھیلی پر رکھ دیا، کارڈ پر کسی امریکن کا نام درج تھا۔
تم مسٹر کھور شیٹ عالم ہو؟ پیروجا نے کہا تھا کہ تم آنے والے ہو اگر اسے ڈھونڈتے ہوئے یہاں آؤں تو میں فوراً اس کو جو ہو فون کردوں اور تم کو یہ بتاؤ وہ کہاں گئی ہے اس نے بلاؤز کی جیب سے پچیس پیسے نکالے۔ خورشید عالم نے ہکا بکا ہو کر بوڑھی کو دیکھا۔
آپ کو ایسی صورت حال پر کوئی اعتراض نہیں؟
بہری بھند نے نفی میں سر ہلایا، ہم بہت غریب لوگ ہیں، مگر اب پیروجا کو ایک امریکن۔۔دفعتاً بوڑھی پارسن کو یاد آیا کہ انہوں نے مہمانوں کو اندر ہی نہیں بلایا ہے اور انہوں نے پیٹھ جھکا کر کہا آؤ اندر آجاؤ۔
خورشید عالم مبہوت کھڑے رہے پھر تیزی سے پلٹ کر ٹیکسی میں جا بیٹھے۔
بائی بائی ضعیفہ نے ہاتھ ہلایا۔
بوڑھا پارسی دعا ختم کرکے باہر لپکا مگر ٹیکسی زن سے آگے جاچکی تھی۔
جس روز الماس اور خورشید عالم کی منگنی کی دعوت تھی، ایسی ٹوٹ کر بارش ہوئی کہ جل تھل ایک ہوگئے ڈنر سے ذرا پہلے بارش تھی اور خورشید عالم اور الماس کے والد کے دوست ڈاکڑ صدیقی جو حال ہی میں تبدیل ہو کر بمبئ آئے تھے، بالکنی میں جا کھڑے ہوئے جس سے کچھ فاصلے پر برج خموشاں کا اندھیرا سائیں سائیں کر رہا تھا، انڈر ڈرائنگ روم میں قہقہے گونج رہے تھے اور گرینڈ پیانوں پر رکھے ہوئے شمعدان میں موم بتیاں جھلملا رہی تھی بڑا سخت رومینٹک اور پر کیف وقت تھا اتنے میں گیلری میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ایک ملازم نے آکر الماس سے کہا خورشید صاحب کیلئے فون آیا ہے ، دلہن بنی ہوئی الماس لپک کر فون پر پہنچی ایک مقامی ہسپتال سے ایک نرس پریشان آواز میں دریافت کر رہی تھی، کیا مسٹر عالم وہاں موجود ہیں؟
آپ بتائیے آپ کو مسٹر عالم سے کیا کام ہے؟ الماس نے روشنی سے پوچھا۔۔
مس پیروجا دستور ایک مہینے سے یہاں سخت بیمار پڑی ہیں آج ان کی حالت زیادہ نازک ہو گئی ہے انہوں نے کہلوایا ہے اگر چند منٹ کیلئے مسٹر عالم یہاں آسکیں مسٹر عالم یہاں نہیں ہیں۔
آر یو شیور؟
یس آئی ایم شیور۔۔۔الماس نے گرج کر جواب دیا، کیا آپ سمجھتی ہیں میں جھوٹ بول رہی ہوں؟ اور کھٹ سے فون بند کردیا۔
دو گھنٹے بعد پھر فون آیا۔
ڈاکڑ صدیقی آپ کی کال ۔۔۔۔گیلری میں کسی نے آواز دی آپ کو فوراً ہسپتال بلایا گیا ہے، ڈاکڑ صدیق جلدی سے ٹیلی فون پر گئے پھر انہوں نے الماس کو آواز دی بھئی معاف کرنا مجھے بھاگنا پڑ رہا ہے۔
الماس دروازے تک آئی کل ضرور ہم لوگ ویک اینڈ کیلئے پونا جارہے ہیں۔
ضرور۔۔۔۔ضرور۔۔۔۔گڈنائٹ۔۔۔۔ڈاکٹر صدیقی نے اور باہر نکل گئے۔
پریچ کنیڈی کے ہسپتال میں صحت یاب ہوکر خورشید عالم کے ابا میاں خوش خوش پرتاب گدھ واپس جاچکے ہیں، جب تک کمبالا بل والا فلیٹ تیار نہیں ہوا جو دلہن کو جیہز میں ملا تھا، شادی کے بعد دولہا میاں سسرال ہی میں رہے، اکثر وہ صبح کو دفتر جانے سے پہلے
بالکنی میں جا کر کھڑے ہوتے نیچے پہاڑ کے گھنے باغ میں گزرتی بل کھاتی سڑک برج خموشاں کی طرف جاتی تھی، دفعتاً سفید براق کپڑوں میں ملبوس پارسی سفید رومالوں کے ذریعہ ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے قطاریں بنائے جنازہ اٹھائے دور پہاڑی پر چڑھتے ہوئے نظر آئے، کوے اور گدھ درختوں پر منتظر بیٹھے رہتے ، برج خموشاں کے احاطے کے پھاٹک کے باہر زندگی کا پر جوش سمندر اسی طرح دنیا میں پھیلے ہے ایک سے ایک دلچسپ شہروں تک سفر کرنے کی دعوت میں مصروف رہتا۔
اس نے ایک بار خط میں لکھا تھا، ذہن کی ہزاروں آنکھیں ہیں، دل کی آنکھ صرف ایک لیکن جب محبت ختم ہوجائے تو ساری زندگی ختم ہوجاتی ہے۔
سمندر کی موج پل کی پل میں فنا ہوگئی، آسمان پر سے گذرنے والے بادل فضا میں غائب ہوچکے تب وہ مری ہوگی تو کوؤں اور گدھوں نے اس کا کس طرح سواگت کیا ہوگا، اس طوفانی رات کو ہسپتال کے وارڈ سے نکل کر اس کی روح جب آسمانوں پر پہنچی ہوگی، اور عالم بالا کے گھپ اندھیرے میں یا کسی دوسری روح نے اسے پوچھا ہوگا تم کون ہوں؟ تو اس نے جواب دیا ہوگا، پتہ نہیں۔۔۔میں کل ہی تو مری ہوں؟
اب تک اس کی روح کہاں سے کہاں نکل گئی ہوگی، مرے ہوئے انسان زیادہ تیزی سے سفر کرتے ہیں۔
تارابائی اپنی روشن آنکھوں سے صاحب کے گھر کی ہر چیز کو ارمان اور حیرت سے دیکھتی ہے، وہ صاحب کو حیرت سے تکا کرتی ہے، الماس بیگم اب امید سے ہیں بہت جلد تارا بائی کا کام دگنا بڑھ جائے گا، آج صبح آئی اسپیشلسٹ ڈاکڑ صدیقی آئے تھے، جب تارا بائی ان کیلئے چائے لے کر برآمدے میں گئی تو وہ چونک پڑے اور خوشی سے پوچھا ارے تارا بائی، تم یہاں کام کر رہی ہو؟
جی صاحب ۔۔۔۔۔تارا بائی نے شرما کر جواب دیا۔
اب صاف دکھائی دیتا ہے، جی داگدرجی۔۔۔اب سب کچھ بہت صاف سجھائی دیتا ہے۔
گڈ۔۔۔۔پھر وہ مسٹر اور مسز خورشید عالم سے مخاطب ہوئے بھئی یہ لڑکی دس سال کی عمر میں اندھی ہوگئی تھی، مگر خوش قسمتی سے اس کا اندھا پن عارضی ثابت ہوا تمہیں یاد ہے الماس تمہاری انگیجمنٹ پارٹی کی رات مجھے ہسپتال بھاگنا پڑا تھا؟ وہاں ایک خاتون مس پیرو جا دستور کا انتقال ہوگیا تھا، انہوں نے مرنے سے چند روز قبل اپنی آنکھیں آئی بینک کو ڈونیٹ کرنے کی وصیت کی تھی، لہذا ان کے مرتے ہی مجھے فورا بلالیا گیا کہ ان آنکھوں کے ڈلے نکال لوں بے حد نرگسی آنکھیں تھیں، بے چاری کی، جانے کون تھی، غریب، ایک بہری بڑھیا، پارسن پلنگ کے سرہانے کھڑے بری طرح روئے جارہی تھی بڑا الم ناک منظر تھا۔۔۔۔ خیر تو چند روز بعد اس تارا بائی کا ماموں اسے میرےپاس لایا تھا اسے کسی ڈاکڑ نے بتایا تھا کہ نیا کورینا لگانے سے اس کی بینائی واپس آسکتی ہے، میں نے وہی مس دستور کی آنکھیں ذخیرے سے نکال کر ان کی کورینا اس لڑکی کی آنکھوں میں فٹ کردیا، دیکھو کیسی تارا ایسی آنکھیں ہوگئیں اس کی، واقعی میڈیکل سائنس آج کل معجزے دکھا رہی ہے۔
ڈاکڑ صدیقی نے بات ختم کرکے اطمینان سے سگریٹ جلایا، مگر الماس بیگم کا چہرہ فق ہوگیا خورشید عالم لڑکھڑاتے ہوئے اٹھ کر جیسے اندھوں کی طرح ہوا میں کچھ ٹٹولتے اپنے کمرے میں چلے گئے تارا بائی ان کی کیفیت دیکھ کر بھاگی بھاگی اندر جاتی ہے، صاحب پلٹ کر باولوں کی طرف اسے تکتے ہیں تارا بائی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا، وہ بوکھلائی ہوئی باورچی خانے میں جا کر برتن صاف کرنے میں مصروف ہوجاتی ہے، دور برج خموشاں پہ اسی طرح گدھ اور کوے منڈلا رہے ہیں۔
کاگا سب تن کھائیو چن چن کھائیو ماس
دوئی نیناں مت کھائیوں پیا ملن کی آس
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top