معاذ ذوالفقار
محفلین
(نوٹ: یہ ایک طنزیہ مضمون ہے ۔ جو محض معدوم ہوتے اردو میڈیم نظامِ تعلیم کی ایک یادداشت کے طور پر لکھا گیا)علمِ فلکیات سے ہمیں قطعی طور پر کوئی دِلچسپی نہیں ماسوائے سائنس فکشن فلموں کے ، بشرطِ کہ ان میں ہماری پسندیدہ اداکارائیں جلوہ گر ہوں۔
جہاں تک ہمیں یاد پڑھتا ہے فلکیات سے ہمارا پہلا واسطہ پانچویں جماعت کی سائنس کی کتاب کے طفیل پڑا۔جس کا آخری باب نظامِ شمسی پر مشتمل تھا۔ اردو میڈیم ہونے کی باعث تما م اصطلاحات بھی اردو میں ہوتی تھیں۔فلکیات اور نظامِ شمسی سے ہمارا یہ واسطہ دسویں جماعت تک رہا۔ پھر اس کے بعد ہم ترقی پا کر انگریزی میڈیم ہو گئے ۔
شاید فلکیات پر سب سے پہلے عربوں نے کام کیا تھا اسی وجہ سے تمام زیادہ تر اصطلاحات عربی سے ماخوز تھیں۔ اس لئےہم نظامِ شمسی پڑھتے ہوئے خود کو سچا مسلمان سمجھتے تھے۔
‘شمسی’ کی سمجھ تو ہمیں آ گئی کہ یہ سورج سے متعلق ہے مگر اس کے بعد جو سیاروں کے نام آئے تو ہو ہمیں اجرامِ فلکی کی بجائے اردو کی کلاسیکی شاعری کی اصطلاحات معلوم ہوتیں۔
عطارد، زُہرہ، زمین، مریخ، مشتری اور زحل کو ہم مسلمانوں کے ستارے سمجھتے تھے ۔جبکہ انگریزی ناموں والے سیاروں یورینس، نیپچون اور پلوٹو کو انگریزوں کی ملکیت سمجھتے تھے۔بعد میں جب معلوم ہوا کہ پلوٹو کو نظامِ شمسی کے خارج کر دیا گیا ہے تو بہت خوشی ہوئی کہ انگریزوں کا ایک سیارہ کم ہوگیا۔
زُہرہ سے ہمیں ‘زُہرہ جبین’ ذہن میں آتا جسے شعرا پیشانی کی چمک دمک کےلیے استعمال کرتے ہیں۔اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سائنس دانوں سے زیادہ شعرا کو علمِ فلکیات سے دل چسپی ہے۔علامہ اقبال بھی وقتا فوقتا مسلمانوں کو فلکیات میں دلچسپی کی ہدایت کرتے رہے، کبھی نوجوانوں کو ستاروں پر کمند ڈالتا دیکھنے کا معصوم شوق ظاہر کیاتو کبھی نوجوان مسلم کواس بارے میں تدبر کرنے کا فرماتے کہ وہ کس گردوں کا ایک ٹوٹا ہوا تارہ ہے۔
زمین کے بعد مریخ ہمارا پسندیدہ سیارہ تھا۔کیوں کہ سُنتے آئے تھے کہ انسان چاند کے بعد مریخ پر قدم جمانے والا ہے۔مریخ پر جانے والی پہلی پرواز کے ہم بھی منتظر ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ کارنامہ پی۔آئی۔آئے ہی سرانجام دے گا۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں جب ہم چھٹیوں کا کام کررہے ہوتے اور پلوٹو کے بارے میں پڑھتے کہ یہ نظامِ شمسی کا سب سے ٹھنڈا سیارہ ہے تو بے اختیار دل کرتا ہے کہ ہم زمین کی بجائے پلوٹو پر پیدا ہوئے ہوتے۔نہ تو اس قدر سخت اور طویل گرمیاں ہوتیں اور نہ ہی گرمیوں کا کام۔
نُوری سال کو ہم اپنی تعلیمی سال کی طرح ہی کوئی سال سمجھتے تھے اور ہماری شدید خواہش تھی کہ ہمارے تعلیمی سال کی جگہ نوری سال کو نافذ کر دیا جائے۔ کیوں کہ ہمارے تعلیمی سال میں ایک تو چھٹیاں بہت قلیل ہوتیں ہیں یعنی صرف گرمیوں اور سردیوں کی، دوسرا دو تین دفعہ امتحانات بھی آجاتے ہیں۔شاید نوری سال میں ان چھٹیوں کے ساتھ ساتھ مزید چھٹیاں بھی ہوں گی یعنی موسمِ بہار، خزاں ، برسات وغیرہ وغیرہ اور ہو سکتا ہے ہماری امتحانات سے بھی جان چُھوٹ جائے۔
شہابِ ثاقب تو ہمیں کسی فارسی شاعر کا نام لگتا جس کا تخلص ثاقب ہو گا۔ دُم دار ستار ے دیکھنے کی بھی بےحد خواہش تھی مگر یہ دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی کہ اس کی دُم بالکل ایسی نہیں تھی جیسی ہم نے سوچی ہوئی تھی۔
دُبِ اصغر اور دُبِ اکبر کو ہم دو بھائی سمجھتے تھے جو شاید بچپن میں بچھڑ گئے ہوں گے۔ امتحان میں اگر ان کے نام بھوُ ل جاتے تو ‘ریچھ والے ستارے’ لکھ آتے۔
نیل آرمسٹرونگ وہ واحد خَلا نورد تھ جسے ہم جانتے تھےبلکہ قریبی دوست سمجھتے تھے۔بہت عرصے تک ہم خلا نورد اور صحرا نورد کو بھی دو گہرے دوست سمجھتے رہے۔ مگر بعد میں پتا چلا کہ صحرا نورد ہمارے قیس
صاحب تھے جو خلا کے بجائے صحرا میں اپنا چاند ڈھونڈتے رہے۔
چونکہ ہمارے پرچم میں بھی چاند اور ستارہ ہے اس لیے اصولا تو پاکستانیوں کو فلکیات میں سب آگے ہونا چاہیے۔مگر ہمیں پاکستانیوں کی چاندپر تحقیق کے بارے میں سائنس کی کتاب میں کچھ نہ ملا اور نہ ہم کسی پاکستانی ادارے کی پتا تھا جو ایسا کام کر رہا ہے مگر اب ہمیں پتا چلا کہ پاکستان میں ایک ایسا ادارہ موجود ہے جو چاند پر تحقیق کے معاملے میں اس حد تک آگے چلا گیا ہے کہ ناسا اور اسپیس ایکس جیسے ادارے بھی اِس سے خار کھاتے ہیں ، اور وہ ادارہ ہے ‘رویت ہلال کمیٹی’۔