میں نے اس مضمون کے پہلے حصے میں ایک نظریہ کو ایک ریاست کے قیام کے لیئے ناگزیر قرار دیا ۔اور یہ کہ جب ایک معاشرہ ایک ریاست کو تخلیق کرتا ہے تو اس ریاست کی بنیاد کسی نظریے پر کھڑی ہوتی ہے ۔ اور پھر اسی طرح بتدریج نظریہ کی افادیت اور پھر اس نظریہ کو کسی ریاست پر لاگو کرکے کسی معاشرے کی معاشی ، مذہبی اور معاشرتی حالت میں جو تبدیلیاں ناگزیر ہوتی ہیں ان کے حوالے سے بات کی ہے ۔
چونکہ موضوع کا اصل ماخذ پاکستان ہے ۔ اس لیئے اس مضمون کے دوسرے حصے میں چاہوں گا کہ ہم پاکستان کے حوالے سے بات کریں ۔ اور نظریہ کی اساس کو پاکستان کے تناظر میں دیکھیں ۔اور یہ بھی جاننے کی کوشش کریں کہ جس نظریہ کو بنیاد بنا کر پاکستان حاصل کیا گیا ۔ اور جس نظریے نے قیامِ پاکستان سے قبل اس خطے کے لوگوں کو مجتمع رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ۔ وہ نظریہ پاکستان کے بننے کے بعد لوگوں کی تقسیم در تقسیم کو کیوں باعث بنا ۔؟
قوم وطن سے بنتی ہے یا نظریے سے ۔ ؟
70 ، 80 سال قبل جب مسلمانانِ ہند کو اس سوال کا سامنا کرنا پڑا تو ان کی اکثریت نے نظریے کے حق میں فیصلہ دیا ۔ اور اس کے بعد پاکستان ایک نظریاتی مملکت بن کر وجود میں آیا ۔ لیکن ایک عجیب بات ہے کہ گذشتہ 60 سالوں کی تاریخ کوئی اور ہی داستان سناتی ہے ۔ 60 سال پہلے اس خطے کے لوگوں کو ایک نظریہ مجتمع کرنے کا باعث بنا۔ مگر بعد میں نظریے کی ہی بنیاد پر یہاں تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوگیا ۔ اسلام اور سوشلزم کی بحث ، اسلام اور کمیونزم کی بحث اور اب اعتدال پسندی یا روشن خیال اور انتہا پسندی ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہم نظریے کے چکر میں ایسے اُلجھے ہیں کہ قوم کے اندر polarization کا عمل بڑھتا چلا جارہا ہے ۔
نظریہ قوموں کی زندگی میں کیا کردار ادا کرتا ہے ۔ اور قوم میں وحدت پیدا کرنے کلے لیئے اس کا کیا کردار ہونا چاہیئے ۔ اور ہمارے ہاں گذشتہ 60 سالوں میں جو تجربات ہوئے ہیں وہ ہمیں کیا سبق دیتے ہیں ۔ ہم نے ٹھیک طرح سے نظریے کو سمجھا نہیں ہے یا اس کو بات کو ہمیں سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے کہ قوموں کو مجتمع رکھنے کے لیئے اساس اور بنیاد کیا ہونی چاہیئے ۔ ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو شاید ہم میں سے کئی کے ذہنوں میں گردش کرتے ہوں ۔ انہی سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم پاکستان کے سیاسی اور تاریخی پس منظر پر سرسری طور سے نظر ڈالتے ہیں ۔
قومی ریاست کا ایک تصور ہوتا ہے اور اسی تصور کے تحت ہم پاکستان کو بھی ایک Nation States کہتے ہیں ۔ اور جب Nation States بنتی ہے تو اس کی بنیاد ہمیشہ Nationalism پر ہوتی ہے ۔ یعنی اس خطے میں جو بھی لوگ بستے ہیں وہ اس ریاست کے شہری ہیں اور ان کےحقوق مساوی ہیں ۔ لیکن جب Nation States کو مذہب کی بنیاد پر بنائیں گے تو وہاں یہ مسئلہ آجاتا ہے کہ جو بھی ایک مذہب کو ماننے والے ہیں وہ تو ایک قوم ہوگئے ۔ مگر دوسرے جو کسی اور مذہب کے پیروکار ہیں وہ اس Nation States کے دائرے سے باہر ہوگئے ۔ اور اس طرح سے ان کی حیثیت اس ریاست میں ایک ثانوی شہری کی ہوگئی ۔ اور وہ ان حقوق سے محروم ہوگئے جو ایک مذہب کے ماننے والوں کو میسر ہیں ۔ لہذا اس دورِ جدید کی اصطلاح میں یعنی جمہوری دور میں اس عمل سے مشکلات سامنے آجاتیں ہیں کئی طرح کے مسائل جنم لے لیتے ہیں ۔
پاکستان کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ جب ہم نے اسے مذہبی نیشلزم کے تحت مذہبی ریاست کیا اور اس کی بنیاد ایک نظریے پر رکھی تو مسلمانوں کے علاوہ یہاں جو دوسرے مذہب کے ماننے والے تھے ۔ ان کو ایک طرح سے ہم نے قومیت سے باہر نکال دیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم مضبوطی اور اتحاد کا سرچشمہ ہونے کے برعکس کمزوری اور انتشار کا شکار ہوگئے ۔ ایک قوم کی علاقائی بنیاد پر جو تشکیل ہونی تھی وہ نہیں ہو سکی اور اس نے آگے چل کر بہت سے اور مسائل پیدا کیئے ۔
اس حوالے سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے اس نظریے کی جو افادیت اور اہمیت تھی کہ یہ نظریہ اُس وقت دو قومی نظریہ کے طور پر ایک بڑا تقاضا تھا ۔ مگر جب پاکستان بن گیا تو ہمیں اس نظریئے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیئے تھی ۔ اور قومیت کو مذہب سے منسلک کرنے کے بجائے اگر ہم اس کو علاقے سے وابستہ کر لیتے تو شاید یہ ماسئل پیدا نہیں ہوتے جن سے ابھی ہم گذر رہے ہیں ۔
نظریہ ہر زمانے کی ضرورت ہے ۔ نظریہ مثبت اور منفی دونوں رخوں پر پنپ سکتا ہے ۔ حالات اور واقعات نظریے کی تخلیق کرتے ہیں اور جیسے ہی حالات اور واقعات اپنی شکل بدلتے ہیں تو نظریہ بھی کروٹ لے لیتا ہے ۔ یعنی نظریہ ایک عمر بھی رکھتا ہے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب مسلم یہاں آئے تو انہوں نے کوئی ایسا فیصلہ یا کوئی ایسا راستہ منتخب نہیں کیا کہ ملک کو کس نظریے کے تحت چلایا جائے گا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہندؤں کے ساتھ ہمارے جو بھی مراسم تھے وہ تقربیاً ختم ہوگئے ۔ اور ہم اپنے ملک اور اپنے معاشرے میں آگئے ۔ چناچہ وہ دو قومی نظریہ جو دو قوموں کی بنیاد پر تخلیق ہوا تھا ۔ اس کی افادیت نہ رہی ۔ اور ہمارے سامنے دوسرے معاشرتی ، معاشی ایشوز اپنی مختلف ساخت میں ہمارے سامنے آگئے ۔
( جاری ہے )
چونکہ موضوع کا اصل ماخذ پاکستان ہے ۔ اس لیئے اس مضمون کے دوسرے حصے میں چاہوں گا کہ ہم پاکستان کے حوالے سے بات کریں ۔ اور نظریہ کی اساس کو پاکستان کے تناظر میں دیکھیں ۔اور یہ بھی جاننے کی کوشش کریں کہ جس نظریہ کو بنیاد بنا کر پاکستان حاصل کیا گیا ۔ اور جس نظریے نے قیامِ پاکستان سے قبل اس خطے کے لوگوں کو مجتمع رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ۔ وہ نظریہ پاکستان کے بننے کے بعد لوگوں کی تقسیم در تقسیم کو کیوں باعث بنا ۔؟
قوم وطن سے بنتی ہے یا نظریے سے ۔ ؟
70 ، 80 سال قبل جب مسلمانانِ ہند کو اس سوال کا سامنا کرنا پڑا تو ان کی اکثریت نے نظریے کے حق میں فیصلہ دیا ۔ اور اس کے بعد پاکستان ایک نظریاتی مملکت بن کر وجود میں آیا ۔ لیکن ایک عجیب بات ہے کہ گذشتہ 60 سالوں کی تاریخ کوئی اور ہی داستان سناتی ہے ۔ 60 سال پہلے اس خطے کے لوگوں کو ایک نظریہ مجتمع کرنے کا باعث بنا۔ مگر بعد میں نظریے کی ہی بنیاد پر یہاں تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوگیا ۔ اسلام اور سوشلزم کی بحث ، اسلام اور کمیونزم کی بحث اور اب اعتدال پسندی یا روشن خیال اور انتہا پسندی ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہم نظریے کے چکر میں ایسے اُلجھے ہیں کہ قوم کے اندر polarization کا عمل بڑھتا چلا جارہا ہے ۔
نظریہ قوموں کی زندگی میں کیا کردار ادا کرتا ہے ۔ اور قوم میں وحدت پیدا کرنے کلے لیئے اس کا کیا کردار ہونا چاہیئے ۔ اور ہمارے ہاں گذشتہ 60 سالوں میں جو تجربات ہوئے ہیں وہ ہمیں کیا سبق دیتے ہیں ۔ ہم نے ٹھیک طرح سے نظریے کو سمجھا نہیں ہے یا اس کو بات کو ہمیں سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے کہ قوموں کو مجتمع رکھنے کے لیئے اساس اور بنیاد کیا ہونی چاہیئے ۔ ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو شاید ہم میں سے کئی کے ذہنوں میں گردش کرتے ہوں ۔ انہی سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم پاکستان کے سیاسی اور تاریخی پس منظر پر سرسری طور سے نظر ڈالتے ہیں ۔
قومی ریاست کا ایک تصور ہوتا ہے اور اسی تصور کے تحت ہم پاکستان کو بھی ایک Nation States کہتے ہیں ۔ اور جب Nation States بنتی ہے تو اس کی بنیاد ہمیشہ Nationalism پر ہوتی ہے ۔ یعنی اس خطے میں جو بھی لوگ بستے ہیں وہ اس ریاست کے شہری ہیں اور ان کےحقوق مساوی ہیں ۔ لیکن جب Nation States کو مذہب کی بنیاد پر بنائیں گے تو وہاں یہ مسئلہ آجاتا ہے کہ جو بھی ایک مذہب کو ماننے والے ہیں وہ تو ایک قوم ہوگئے ۔ مگر دوسرے جو کسی اور مذہب کے پیروکار ہیں وہ اس Nation States کے دائرے سے باہر ہوگئے ۔ اور اس طرح سے ان کی حیثیت اس ریاست میں ایک ثانوی شہری کی ہوگئی ۔ اور وہ ان حقوق سے محروم ہوگئے جو ایک مذہب کے ماننے والوں کو میسر ہیں ۔ لہذا اس دورِ جدید کی اصطلاح میں یعنی جمہوری دور میں اس عمل سے مشکلات سامنے آجاتیں ہیں کئی طرح کے مسائل جنم لے لیتے ہیں ۔
پاکستان کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ جب ہم نے اسے مذہبی نیشلزم کے تحت مذہبی ریاست کیا اور اس کی بنیاد ایک نظریے پر رکھی تو مسلمانوں کے علاوہ یہاں جو دوسرے مذہب کے ماننے والے تھے ۔ ان کو ایک طرح سے ہم نے قومیت سے باہر نکال دیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم مضبوطی اور اتحاد کا سرچشمہ ہونے کے برعکس کمزوری اور انتشار کا شکار ہوگئے ۔ ایک قوم کی علاقائی بنیاد پر جو تشکیل ہونی تھی وہ نہیں ہو سکی اور اس نے آگے چل کر بہت سے اور مسائل پیدا کیئے ۔
اس حوالے سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے اس نظریے کی جو افادیت اور اہمیت تھی کہ یہ نظریہ اُس وقت دو قومی نظریہ کے طور پر ایک بڑا تقاضا تھا ۔ مگر جب پاکستان بن گیا تو ہمیں اس نظریئے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیئے تھی ۔ اور قومیت کو مذہب سے منسلک کرنے کے بجائے اگر ہم اس کو علاقے سے وابستہ کر لیتے تو شاید یہ ماسئل پیدا نہیں ہوتے جن سے ابھی ہم گذر رہے ہیں ۔
نظریہ ہر زمانے کی ضرورت ہے ۔ نظریہ مثبت اور منفی دونوں رخوں پر پنپ سکتا ہے ۔ حالات اور واقعات نظریے کی تخلیق کرتے ہیں اور جیسے ہی حالات اور واقعات اپنی شکل بدلتے ہیں تو نظریہ بھی کروٹ لے لیتا ہے ۔ یعنی نظریہ ایک عمر بھی رکھتا ہے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب مسلم یہاں آئے تو انہوں نے کوئی ایسا فیصلہ یا کوئی ایسا راستہ منتخب نہیں کیا کہ ملک کو کس نظریے کے تحت چلایا جائے گا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہندؤں کے ساتھ ہمارے جو بھی مراسم تھے وہ تقربیاً ختم ہوگئے ۔ اور ہم اپنے ملک اور اپنے معاشرے میں آگئے ۔ چناچہ وہ دو قومی نظریہ جو دو قوموں کی بنیاد پر تخلیق ہوا تھا ۔ اس کی افادیت نہ رہی ۔ اور ہمارے سامنے دوسرے معاشرتی ، معاشی ایشوز اپنی مختلف ساخت میں ہمارے سامنے آگئے ۔
( جاری ہے )