محمود احمد غزنوی
محفلین
مسئلہ کیا ہے؟ ۔۔
میں اس بات سے پوری طرح متفق ہو کہ پاکستان دو قومی نظرئے کے تحت وجود میں آیا اور یادرکھنے والی بات یہ ہے کہ یہ دو قومی نظریہ علماء کے کسی فتوے کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ یہ برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کے دل کی آواز تھی۔ یہ کسی نے ان پر خارجی طو پر مسلط یا نافذ نہیں کیا تھا، بلکہ یہ اجتماعی حیثیت سے مسلمانوں کی ایک غالب اکثریت کی اپنی شناخت ،یعنی دینِ اسلام کے بارے میں ایک اجمالی فہم و بصیرت کا اظہار تھا۔۔۔ہر مسلمان خواہ وہ دین کی تفصیلات سے کما حقہ آگاہ ہو یا نہ ہو، اتنا ضرور جانتا تھا کہ اسکی اوّلین وابستگی اسکے دین سے ہے، اسکی اولین شناخت اسکا دین ہے، نہ صرف انکی اپنی نظر میں ، بلکہ غیرمسلموں کی نظر میں بھی وہ ایک علیحدہ قوم ہیں، چنانچہ انہیں متحدہ ہندوستان کی شکل میں ہندو اکثریت کی جانب سے مذہبی بنیادوں پر روا رکھے جانے والے تعصب کا اندیشہ تھا (اور کانگرس وغیرہ کی پری پارٹیشن حکومت نے ان اندیشوں کی صداقت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی) ۔۔دین کے حوالے سے اپنی شناخت کا یہی وہ اجمالی علم ہے جسکی بنیاد پر انہوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔۔۔
چنانچہ پاکستان کے وجود میں آنے سے یہ ثابت ہوا کہ یہاں کی غالب اکثریت کے نزدیک ان کا دین ہی انکی اولین شناخت ہے جس پر اصولی طور پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی کسی غیر مسلم قوت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کی قسمتوں کے فیصلے کرے (کیونکہ ان غیر مسلم قوتوں کے پچھلے دو سو سال کے طرزِ عمل نے یہ بات ثابت کردی تھی کہ مسلمانوں کا مسلمان ہونا ہی انکے مصائب کی بنیاد تھا۔ اور مسلمان ان غیر مسلم قوتوں کے لئے اس وقت تک قابلِ قبول نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنی بنیادی شناخت سے ہاتھ نہیں دھو لیتے)۔۔ یہی نظریہ پاکستان تھا۔۔۔اور یہی وہ نظریہ تھا جو پاکستان کے قیام کا محرک بنا۔۔۔۔
ہونا تو یہی چاہئیے تھا کہ پاکستان کے حصول میں کامیاب ہونے کے بعد، مسلمان بحیثیت ایک قوم کے اپنی ترجیحات کا اور سمتوں کا تعین کرتے،اور دین کا وہ اجمالی علم سکی بنیاد پر انہوں نے ایک الگ وطن حاصلکرلیا تھا، اب اس کی گہرائ میں اتر کر یعنی ایک تفصیلی علم کے ساتھ اس مملکت کے خدّوخال واضح کرتے۔۔۔لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا کیونکہ Devil lies in the details ۔۔۔جس طرح دین کا وہ اجمالی علم جس نے مسلمانوں کو انکی شناخت دی تھی، یہ علماء کے کسی فتوے کا مرہونِ منت نہیں تھا یعنی یہ خارجی طور پر ان پر نافذ یا مسلط نہیں کیا گیاتھا ۔۔۔اسی طرح پاکستان کے حقیقی اسلامی و فلاحی مملکت بننے کیلئے کسی خارجی طور پر نافذکردہ version of islam کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح پاکستان ایک اسلامی فلاحی مملکت بن سکتا ہے۔۔اسکے لئیے بھی ضروری ہے کہ عام مسلمانوں پر ، انکی غالب اکثریت پر اس اسلامی فلاحی ریاست کے خدّوخال واضح کئے جائیں، انکے ذہنوں میں اسکا ایک واضح image ہو۔۔جب وہ امیج انکی آنکھوں کے سامنے ہوگا تو اس کو Actualize کرنا زیادہ دیر نہیں لے گا، بعینہ جس طرح 7 سال کے قلیل عرصے میں انہیں ایک الگ وطن مل گیا، اسی طرح منزل کا درست تعین اور اسکے حقیقی خدوخال واضح ہونے کے بعد جلد ہی یہ ملک ایک اسامی فلاحی مملکت میں ڈھل جائے گا۔۔۔
لیکن اس امیج کو عوام کی نظروں کے سامنے کبھی بھی درست طور پر پیش نہیں کیا گیا۔۔۔علما، فوجی جرنیل یا طالع آزما سیاستدانوں نے محض کھوکھلے نعرے اور کتابی اصطلاحات استعمال کیں کیونکہ شاید ایسا کوئی واضح امیج خود انکے ذہنوں میں بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس ملک کے دانشور، علماء، آرٹسٹ، غرضیکہ ہر میدان کے لوگ ایک Dialogue میں involve ہوں، اور اہلِ علم اور اہلِ دانش انکے سامنے اسلام کی صرف وہ باتیں جو ہر فرقے اور ہر مکتبِ فکر کے نزدیک متفق علیہ ہوں (اور وہ باتیں اسلام کی بنیادی اقدار ہیں اور چند بنیادی احکام ہیں) صرف وہ باتیں رکھیں اور صرف انکی Actualization پر توجہ دیں، اور باقی تمام اختلافی امور کو نظر انداز کرکے فرد کی صوابدید پر چھوڑدیں تو بہت جلد اسلامی فلاحی مملکت کے حقیقی خدوخال دنیا پر واضح ہوجائیں گے۔ اور یہی حقیقی نظریہ پاکستان ہوگا
میں اس بات سے پوری طرح متفق ہو کہ پاکستان دو قومی نظرئے کے تحت وجود میں آیا اور یادرکھنے والی بات یہ ہے کہ یہ دو قومی نظریہ علماء کے کسی فتوے کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ یہ برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کے دل کی آواز تھی۔ یہ کسی نے ان پر خارجی طو پر مسلط یا نافذ نہیں کیا تھا، بلکہ یہ اجتماعی حیثیت سے مسلمانوں کی ایک غالب اکثریت کی اپنی شناخت ،یعنی دینِ اسلام کے بارے میں ایک اجمالی فہم و بصیرت کا اظہار تھا۔۔۔ہر مسلمان خواہ وہ دین کی تفصیلات سے کما حقہ آگاہ ہو یا نہ ہو، اتنا ضرور جانتا تھا کہ اسکی اوّلین وابستگی اسکے دین سے ہے، اسکی اولین شناخت اسکا دین ہے، نہ صرف انکی اپنی نظر میں ، بلکہ غیرمسلموں کی نظر میں بھی وہ ایک علیحدہ قوم ہیں، چنانچہ انہیں متحدہ ہندوستان کی شکل میں ہندو اکثریت کی جانب سے مذہبی بنیادوں پر روا رکھے جانے والے تعصب کا اندیشہ تھا (اور کانگرس وغیرہ کی پری پارٹیشن حکومت نے ان اندیشوں کی صداقت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی) ۔۔دین کے حوالے سے اپنی شناخت کا یہی وہ اجمالی علم ہے جسکی بنیاد پر انہوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔۔۔
چنانچہ پاکستان کے وجود میں آنے سے یہ ثابت ہوا کہ یہاں کی غالب اکثریت کے نزدیک ان کا دین ہی انکی اولین شناخت ہے جس پر اصولی طور پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی کسی غیر مسلم قوت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کی قسمتوں کے فیصلے کرے (کیونکہ ان غیر مسلم قوتوں کے پچھلے دو سو سال کے طرزِ عمل نے یہ بات ثابت کردی تھی کہ مسلمانوں کا مسلمان ہونا ہی انکے مصائب کی بنیاد تھا۔ اور مسلمان ان غیر مسلم قوتوں کے لئے اس وقت تک قابلِ قبول نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنی بنیادی شناخت سے ہاتھ نہیں دھو لیتے)۔۔ یہی نظریہ پاکستان تھا۔۔۔اور یہی وہ نظریہ تھا جو پاکستان کے قیام کا محرک بنا۔۔۔۔
ہونا تو یہی چاہئیے تھا کہ پاکستان کے حصول میں کامیاب ہونے کے بعد، مسلمان بحیثیت ایک قوم کے اپنی ترجیحات کا اور سمتوں کا تعین کرتے،اور دین کا وہ اجمالی علم سکی بنیاد پر انہوں نے ایک الگ وطن حاصلکرلیا تھا، اب اس کی گہرائ میں اتر کر یعنی ایک تفصیلی علم کے ساتھ اس مملکت کے خدّوخال واضح کرتے۔۔۔لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا کیونکہ Devil lies in the details ۔۔۔جس طرح دین کا وہ اجمالی علم جس نے مسلمانوں کو انکی شناخت دی تھی، یہ علماء کے کسی فتوے کا مرہونِ منت نہیں تھا یعنی یہ خارجی طور پر ان پر نافذ یا مسلط نہیں کیا گیاتھا ۔۔۔اسی طرح پاکستان کے حقیقی اسلامی و فلاحی مملکت بننے کیلئے کسی خارجی طور پر نافذکردہ version of islam کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح پاکستان ایک اسلامی فلاحی مملکت بن سکتا ہے۔۔اسکے لئیے بھی ضروری ہے کہ عام مسلمانوں پر ، انکی غالب اکثریت پر اس اسلامی فلاحی ریاست کے خدّوخال واضح کئے جائیں، انکے ذہنوں میں اسکا ایک واضح image ہو۔۔جب وہ امیج انکی آنکھوں کے سامنے ہوگا تو اس کو Actualize کرنا زیادہ دیر نہیں لے گا، بعینہ جس طرح 7 سال کے قلیل عرصے میں انہیں ایک الگ وطن مل گیا، اسی طرح منزل کا درست تعین اور اسکے حقیقی خدوخال واضح ہونے کے بعد جلد ہی یہ ملک ایک اسامی فلاحی مملکت میں ڈھل جائے گا۔۔۔
لیکن اس امیج کو عوام کی نظروں کے سامنے کبھی بھی درست طور پر پیش نہیں کیا گیا۔۔۔علما، فوجی جرنیل یا طالع آزما سیاستدانوں نے محض کھوکھلے نعرے اور کتابی اصطلاحات استعمال کیں کیونکہ شاید ایسا کوئی واضح امیج خود انکے ذہنوں میں بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس ملک کے دانشور، علماء، آرٹسٹ، غرضیکہ ہر میدان کے لوگ ایک Dialogue میں involve ہوں، اور اہلِ علم اور اہلِ دانش انکے سامنے اسلام کی صرف وہ باتیں جو ہر فرقے اور ہر مکتبِ فکر کے نزدیک متفق علیہ ہوں (اور وہ باتیں اسلام کی بنیادی اقدار ہیں اور چند بنیادی احکام ہیں) صرف وہ باتیں رکھیں اور صرف انکی Actualization پر توجہ دیں، اور باقی تمام اختلافی امور کو نظر انداز کرکے فرد کی صوابدید پر چھوڑدیں تو بہت جلد اسلامی فلاحی مملکت کے حقیقی خدوخال دنیا پر واضح ہوجائیں گے۔ اور یہی حقیقی نظریہ پاکستان ہوگا