محمداحمد
لائبریرین
غزل
نظر میں ظلمت، بدن میں ٹھنڈک، جمال کتنا عجیب سا تھا
میں تیری چاہت میں گھر سے نکلا تو حال کتنا عجیب سا تھا
نہ میں نے اُس کو خطوط لکھے نہ اُس نے میری پناہ چاہی
خود اپنی اپنی جگہ پہ ہم کو ملال کتنا عجیب سا تھا
نہ جانے کیسے نئی رتوں میں پرانی یادوں کی نائو ڈوبی
نظر کے دریا میں آنے والا اُبال کتنا عجیب سا تھا
ہتھیلیوں پہ رکھے چراغوں کو خود بجھایا ہوا سے پہلے
اُداس موسم میں بے بسی کا یہ سال کتنا عجیب سا تھا
“سفر اکیلے ہی کاٹ لو گے؟“ یہ میں نے پوچھا تو رو پڑا وہ
جواب کتنا عجیب سا تھا، سوال کتنا عجیب سا تھا
نجم الثاقب
نظر میں ظلمت، بدن میں ٹھنڈک، جمال کتنا عجیب سا تھا
میں تیری چاہت میں گھر سے نکلا تو حال کتنا عجیب سا تھا
نہ میں نے اُس کو خطوط لکھے نہ اُس نے میری پناہ چاہی
خود اپنی اپنی جگہ پہ ہم کو ملال کتنا عجیب سا تھا
نہ جانے کیسے نئی رتوں میں پرانی یادوں کی نائو ڈوبی
نظر کے دریا میں آنے والا اُبال کتنا عجیب سا تھا
ہتھیلیوں پہ رکھے چراغوں کو خود بجھایا ہوا سے پہلے
اُداس موسم میں بے بسی کا یہ سال کتنا عجیب سا تھا
“سفر اکیلے ہی کاٹ لو گے؟“ یہ میں نے پوچھا تو رو پڑا وہ
جواب کتنا عجیب سا تھا، سوال کتنا عجیب سا تھا
نجم الثاقب