پیاسا صحرا
محفلین
آئیڈیل
میری آنکھوں میں کوئی چہرہ، چراغِ آرزو
وہ مرا آئینہ جس سے خود جھلک جاؤں کبھی
ایسا موسم، جیسے مے پی کر چھلک جاؤں کبھی
یا کوئی ہے خواب
جو دیکھا تھا لیکن پھر مجھے
یاد کرنے پر بھی یاد آیا نہ تھا
دل یہ کہتا ہے وہی ہو بہو
اور سامنے پایا نہ تھا
گفتگو اس سے ہے اور ہے روبرو
خواب ہو جائے نہ لیکن گفگو
میری آنکھوں میں کوئی چہرہ، چراغِ آرزو
عبیداللہ علیم
میری آنکھوں میں کوئی چہرہ، چراغِ آرزو
وہ مرا آئینہ جس سے خود جھلک جاؤں کبھی
ایسا موسم، جیسے مے پی کر چھلک جاؤں کبھی
یا کوئی ہے خواب
جو دیکھا تھا لیکن پھر مجھے
یاد کرنے پر بھی یاد آیا نہ تھا
دل یہ کہتا ہے وہی ہو بہو
اور سامنے پایا نہ تھا
گفتگو اس سے ہے اور ہے روبرو
خواب ہو جائے نہ لیکن گفگو
میری آنکھوں میں کوئی چہرہ، چراغِ آرزو
عبیداللہ علیم