زرقا مفتی
محفلین
اپنے دیور کے نام
(اُسکی بیوہ کی ترجمانی کرتے ہوئے)
تمہارا ساتھ جب پایا
محبت پہ یقیں آیا
بھرا خوشیوں سے آنگن تھا
کھلے تھے پھول گلشن میں
سہانی زندگانی تھی
مگر کیا جانئے کس پل
کسی حاسد کی نظرِ بد
لگی میرے نشیمن کو
لٹیرے تین آئے تھے
ارادے سے ڈکیتی کے
مجھے سونا بچانا تھا
نہ مجھ کو مال پیارا تھا
مگر اک خوف تھا دل میں
فقط تم سے جُدائی کا
کسے معلوم تھا لیکن
لکھا تھا کیا نصیبوں میں
بڑا بھاری وہ لمحہ تھا
نہ لرزا ہاتھ قاتل کا
چلائی اُس نے جو گولی
مری تو جان ہی لے لی
تمہیں لے کر میں بانہوں میں
لگی تھی التجاوں میں
کہیں ٹوٹے نہ اے ہمدم
تمہارے سانس کی ڈوری
ابھی تو زندگانی کا
سفر کتنا ہی باقی ہے
مگر دستِقضا سے تو
کبھی مہلت نہیں ملتی
مری خوشیاں مرے سپنے
تمہارے سب حسیں وعدے
تمہارے ساتھ جا سوئے
یہاں اب کچھ نہیں باقی
سوائے پانچ لاشوں کے
کبھی اے خادمِ اعلیِ
یہاں سے جو گزرنا ہو
جھکا لینا یہ سر اپنا
تمہاری حکمرانی میں
نہیں محفوظ کوئی گھر
ابھی آزاد ہیں قاتل
زرقا مفتی ؔ