اختر شیرانی کا کا کلام مدت پہلے پڑھا تھا ۔ ایک ماحول اور خاص سماں باندھنے کی مہارت میں واقعی ید طولیٰ رکھتے ہیں (ن م راشد بھی اس میں خوب ماہر ہیں ) ۔ لیکن یاد پڑتا ہے کہ اس طرح کے کئی آزاد اور طبع زاد قسم کے نمونے موجود تھے کلام میں ۔ آزاد ہی کہلائیں گے اکثر ان میں البتہ ایک گونہ پابندی بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں ۔یہ کیسی نظم ہے اس کے مصرعے چھوٹے بڑے سے لگ رپے ہیں۔
بہت اعلیٰ ۔۔۔مئے پارینہ کی خوبی کی نشانی یہ ہے
مدتوں تک وہ چھپائی جائے
فہد بھائی ، یہ تجرباتی نظم ہے ۔ ہر پہلا مصرع فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن میں اور ہر دوسرا فاعلاتن فعلاتن فعلن میں ہے ۔ جیسا کہ وارث صاحب نے کہا یہ مستزاد کی طرز پر ایک نیا تجربہ ہے ۔ روایتی مستزاد کم از کم دومصرعوں کے شعر پر لگایا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ۔ لیکن یہاں اختر شیرانی نے ایک ایک مصرع پر "مستزاد" لگا کر گویا ایک ایسا شعر بنایا ہے کہ جس کا پہلا مصرع چار رکنی اور دوسرا مصرع تین رکنی ہے ۔ اور اس پر التزام یہ رکھا ہے کہ تمام اشعار کے پہلے مصرعوں میں ایک الگ قافیے کی پابندی ہے اور دوسرے مصرعوں میں دوسرے قافیے کی ۔یہ کیسی نظم ہے اس کے مصرعے چھوٹے بڑے سے لگ رہے ہیں۔