سید اسد معروف
محفلین
اعتراف
مفاعلاتن، مفاعلاتن
میں اپنے دامن میں اپنی تنہائیاں سمیٹے ہوئے، امیدوں کا نرم و نازک سا ہاتھ تھامے۔۔۔
نظر میں چا ہت کے خواب بھر کے،
میں شہرِ خوباں کے راستوں سے گزر رہا تھا،
میں جانتا تھا۔۔۔۔
میں جانتا تھا کہ اس شہر کی ہر اِک گلی کے ہر ایک گھر میں کئی حسین و جمیل چہرے
اداس آنکھوں میں دِل سجائے کسی کی چاہت کے منتظر ہیں،
میں دیکھتا تھا
کہ کچھ نگاہیں مری طرف بھی اٹھی ہوئی ہیں
تھی جن میں وسعت سمندروں کی
کہ جیسے مجھ کو خود اپنے من میں سمیٹ لینے کی آرزو ہو۔۔۔
میں دیکھتا تھا مگر میں ان سے نظر بچا کے، کچھ آگے جا کے یہ سوچتا تھا
کہ میرا معیار یہ نہیں ہے۔
میرے تخیل میں ایک چہرہ نجانے کب سے سجا ہوا تھا۔۔۔۔
پھر ایک دِن یوں ہوا کہ میں نے اسی شہر میں خموش سا ایک شخص دیکھا
جسے کسی کی طلب نہیں تھی،
جو غور سے میں نے اس کو دیکھا تو اس میں وہ ساری خوبیاں تھیں
جو میں خیالات میں بسائے ہر ایک چہرے میں ڈھونڈتا تھا
اسے جو دیکھا تو پھر خوشی سے زمیں پہ پاؤں نہ ٹِک رہے تھے
میں چاہتا تھا۔۔۔
میں چاہتا تھا کہ اس کو منزل بنا کے اپنی، میں اتنا چاہوں ،
کہ چاہ میں انتخاب کر دوں
ہے گل اگر تو گلاب کر دوں
دِیا ہے تو ماہتاب کر دوں
اسی کی چاہت کے آسرے پہ میں اپنی ساری عمر گزاروں
اگر وہ مانگے تو جان واروں،
یہ میری چاہت کا فیصلہ تھا۔۔۔۔۔
مگر جب اس کے قریب پہنچا تو اس کی آنکھوں میں بے نیازی بہت نمایاں دکھائی دی تھی
وہ جیسے میرے وجود کو بھی نہ ماننے پہ تلا ہوا تھا۔
وہ جانتا تھا
وہ جانتا تھا کہ میں اسی کی طرف ہوں مائل مگر وہ شائد
خود اپنی مجبوریوں کے ہاتھوں سہم گیا تھا، ڈرا ہوا تھا۔۔۔
جو میں نے گبھرا کے مڑ کے دیکھا تو میرے پیچھے نہ کوئی منزل نہ راستہ تھا
میں شہرِ خوباں کے سارے چہروں سمیت ماضی کو کھو چکا تھا
وفا کے ہاتھوں میں لٹ چکا تھا
اور اپنے دامن میں اپنی تنہائیاں سمیٹے میں وقت کے اک وصیع صحرا میں
جیسے تنھا کھڑا ہوا تھا
میرے مقابِل وہ اجنبی تھا کہ جِس کی آنکھوں میں ایک شفّاف آئنہ تھا
اس آئنے میں وہ حیرتیں تھیں
کہ جیسے مجھ کو قبول کرنے کی اس میں جراءت نہ حوصلہ تھا
میں اپنی تنہائیاں سمیٹے وہاں اکیلا کھڑا ہوا تھا
میں آج بھی اس مقام پر ہوں جہاں پہ میں کل رکا ہوا تھا
1992
مفاعلاتن، مفاعلاتن
میں اپنے دامن میں اپنی تنہائیاں سمیٹے ہوئے، امیدوں کا نرم و نازک سا ہاتھ تھامے۔۔۔
نظر میں چا ہت کے خواب بھر کے،
میں شہرِ خوباں کے راستوں سے گزر رہا تھا،
میں جانتا تھا۔۔۔۔
میں جانتا تھا کہ اس شہر کی ہر اِک گلی کے ہر ایک گھر میں کئی حسین و جمیل چہرے
اداس آنکھوں میں دِل سجائے کسی کی چاہت کے منتظر ہیں،
میں دیکھتا تھا
کہ کچھ نگاہیں مری طرف بھی اٹھی ہوئی ہیں
تھی جن میں وسعت سمندروں کی
کہ جیسے مجھ کو خود اپنے من میں سمیٹ لینے کی آرزو ہو۔۔۔
میں دیکھتا تھا مگر میں ان سے نظر بچا کے، کچھ آگے جا کے یہ سوچتا تھا
کہ میرا معیار یہ نہیں ہے۔
میرے تخیل میں ایک چہرہ نجانے کب سے سجا ہوا تھا۔۔۔۔
پھر ایک دِن یوں ہوا کہ میں نے اسی شہر میں خموش سا ایک شخص دیکھا
جسے کسی کی طلب نہیں تھی،
جو غور سے میں نے اس کو دیکھا تو اس میں وہ ساری خوبیاں تھیں
جو میں خیالات میں بسائے ہر ایک چہرے میں ڈھونڈتا تھا
اسے جو دیکھا تو پھر خوشی سے زمیں پہ پاؤں نہ ٹِک رہے تھے
میں چاہتا تھا۔۔۔
میں چاہتا تھا کہ اس کو منزل بنا کے اپنی، میں اتنا چاہوں ،
کہ چاہ میں انتخاب کر دوں
ہے گل اگر تو گلاب کر دوں
دِیا ہے تو ماہتاب کر دوں
اسی کی چاہت کے آسرے پہ میں اپنی ساری عمر گزاروں
اگر وہ مانگے تو جان واروں،
یہ میری چاہت کا فیصلہ تھا۔۔۔۔۔
مگر جب اس کے قریب پہنچا تو اس کی آنکھوں میں بے نیازی بہت نمایاں دکھائی دی تھی
وہ جیسے میرے وجود کو بھی نہ ماننے پہ تلا ہوا تھا۔
وہ جانتا تھا
وہ جانتا تھا کہ میں اسی کی طرف ہوں مائل مگر وہ شائد
خود اپنی مجبوریوں کے ہاتھوں سہم گیا تھا، ڈرا ہوا تھا۔۔۔
جو میں نے گبھرا کے مڑ کے دیکھا تو میرے پیچھے نہ کوئی منزل نہ راستہ تھا
میں شہرِ خوباں کے سارے چہروں سمیت ماضی کو کھو چکا تھا
وفا کے ہاتھوں میں لٹ چکا تھا
اور اپنے دامن میں اپنی تنہائیاں سمیٹے میں وقت کے اک وصیع صحرا میں
جیسے تنھا کھڑا ہوا تھا
میرے مقابِل وہ اجنبی تھا کہ جِس کی آنکھوں میں ایک شفّاف آئنہ تھا
اس آئنے میں وہ حیرتیں تھیں
کہ جیسے مجھ کو قبول کرنے کی اس میں جراءت نہ حوصلہ تھا
میں اپنی تنہائیاں سمیٹے وہاں اکیلا کھڑا ہوا تھا
میں آج بھی اس مقام پر ہوں جہاں پہ میں کل رکا ہوا تھا
1992