پیاسا صحرا
محفلین
نظم -اُس سمت نہ جانا جان مری! - محسن نقوی
اُس سمت نہ جانا جان مری!
اُس سمت کی ساری روشنیاں
آنکھوں کو بجھا کر جلتی ہیں
اُس سمت کی اجلی مٹی میں
ناگن آشائیں پلتی ہیں!
اُس سمت کی صبحیں شام تلک
ہونٹوں سے زہر اگلتی ہیں!
اُس سمت نہ جانا جان مری
اُس سمت کے آنگن قاتل ہیں
اُس سمت کی دہکتی گلیوں میں
زہریلی باس کا جادو ہے
اُس سمت مہکتی کلیوں میں
کافور کی قاتل خوشبو ہے
اُس سمت کی ہر دہلیز تلے
شمشان ہے جلتے جسموں کا
اُس سمت فضا پر سایہ ہے
بے معنی مبہم اسموں کا!
اُس سمت نہ جانا جان مری!
اُس سمت کی ساری پھلجھڑیاں
بارود کی تال میں ڈھلتی ہیں
اُس سمت کے پتھر رستوں میں
منہ زور ہوائیں چلتی ہیبں
اُس سمت کی ساری روشنیاں
آنکھوں کو بجھا کر جلتی ہیں
اُس سمت کے وہموں میں گِھر کر
کھو بیٹھو کی پہچان مری!
اُس سمت نہ جانا جان مری!
مُحسن نقوی
اُس سمت نہ جانا جان مری!
اُس سمت کی ساری روشنیاں
آنکھوں کو بجھا کر جلتی ہیں
اُس سمت کی اجلی مٹی میں
ناگن آشائیں پلتی ہیں!
اُس سمت کی صبحیں شام تلک
ہونٹوں سے زہر اگلتی ہیں!
اُس سمت نہ جانا جان مری
اُس سمت کے آنگن قاتل ہیں
اُس سمت کی دہکتی گلیوں میں
زہریلی باس کا جادو ہے
اُس سمت مہکتی کلیوں میں
کافور کی قاتل خوشبو ہے
اُس سمت کی ہر دہلیز تلے
شمشان ہے جلتے جسموں کا
اُس سمت فضا پر سایہ ہے
بے معنی مبہم اسموں کا!
اُس سمت نہ جانا جان مری!
اُس سمت کی ساری پھلجھڑیاں
بارود کی تال میں ڈھلتی ہیں
اُس سمت کے پتھر رستوں میں
منہ زور ہوائیں چلتی ہیبں
اُس سمت کی ساری روشنیاں
آنکھوں کو بجھا کر جلتی ہیں
اُس سمت کے وہموں میں گِھر کر
کھو بیٹھو کی پہچان مری!
اُس سمت نہ جانا جان مری!
مُحسن نقوی