نظم - "اکیلی" - بلراج کومل

عندلیب

محفلین
ایک "اکیلی" کے نام !!

اُس "اکیلی" کے نام ۔۔۔
جو کبھی فلسطین کے ویراں علاقوں میں ملے
کبھی عراق کے تباہ و برباد شہروں میں
تو کبھی گجرات کی خون ریز سڑکوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عندلیب !


اکیلی
شاعر : بلراج کومل
اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
جانتی ہوں تمہارے لئے غیر ہوں
پھر بھی ٹھہرو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں

آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
میری امی نہیں
میرے ابا نہیں
میری آپا نہیں
میرے ننھے سے معصوم بھیا نہیں
میری عصمت کی مغرور کرنیں نہیں
وہ گھروندہ نہیں جس کے سائے تلے
لوریوں کے ترنم کو سنتی رہی
پھول چنتی رہی
گیت گاتی رہی
مسکراتی رہی
آج کچھ بھی نہیں

میری نظروں کے سہمے ہوئے آئینے
میری امی کے ، میرے ابا کے ، آپا کے
اور میرے ننھے سے معصوم بھیا کے خون سے
ہیں دہشت زدہ
آج میری نگاہوں کی ویرانیاں
چند مجروح یادوں سے آباد ہیں
آج میری امنگوں کے سوکھے کنول
میرے اشکوں کے پانی سے شاداب ہیں
آج میری تڑپتی ہوئی سسکیاں
اک سازِ شکستہ کی فریاد ہیں
اور کچھ بھی نہیں
بھوک مٹتی نہیں
تن پہ کپڑا نہیں
آس معدوم ہے

آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں

میری امی بنو
میرے ابا بنو
میری آپا بنو
میرے ننھے سے معصوم بھیا بنو
میری عصمت کی مغرور کرنیں بنو
میرے کچھ تو بنو
میرے کچھ تو بنو
میرے کچھ تو بنو !!
 

ابوشامل

محفلین
عندلیب صاحبہ آپ کا انتساب بھی بہت خوب ہے (میرے خیال میں انتساب آپ نے خود دیا ہے، شاعر نے نہیں)
 

گرو جی

محفلین
:(:(:(:(:(:(:(:(:(:(:(
مجھے نہ جانے کیوں یہ گانا یاد آگیا ہے۔
اک غم کے سواء دنیا میں اب اور ہمارا کوئی نہیں۔
کل دل کے سہارے تھے کیا کیا، اب دل کا سہارا کوئی نہیں۔
 

عندلیب

محفلین
آپ تمام کے جواب دینے کا شکریہ۔
معافی چاہتی ہوں کہ دل گرفتہ کر دیا :( ۔ خود میں نے بھی کمپوز کرتے ہوئے بمشکل آنسو روکے تھے :( :( :( :(
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ عندلیب
کتنی افسوس ناک حقیقت ہے جس سے کبھی ہم آنکھیں چراتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور کبھی یہ ہمارے بس میں نہیں ہوتا۔
 

ابوشامل

محفلین
نہیں عندلیب صاحبہ! ایسا غم جو بندے کو حقیقت کا علم دے وہ ضروری ہے بجائے اس کے کہ اسے وہ خوشی عطا کی جائے جو حقیقت سے نظریں ہٹا دے۔ بہت شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
بلراج کی یہ نظم پڑھی ہوئی کلگ رہی ہے لیکن کہاں، یہ یاد نہیں۔۔ کیا ’پرانے موسموں کی آواز‘ سے لی ہے اس کے مجموعے؟ ذرا ماخذ بھی بتا دینا۔
 

عندلیب

محفلین
بلراج کی یہ نظم پڑھی ہوئی کلگ رہی ہے لیکن کہاں، یہ یاد نہیں۔۔ کیا ’پرانے موسموں کی آواز‘ سے لی ہے اس کے مجموعے؟ ذرا ماخذ بھی بتا دینا۔
الف عین انکل۔ یہ نظم میری ڈائری میں لکھی ہوئی تھی۔ گجرات فسادات کے موضوع پر شائد "دعوت" یا "نشیمن" کا خصوصی شمارہ چھپا تھا تو اس میں سے دیکھ کر میں نے لکھ لی تھی۔ پرانی بات ہے یہ۔
 
نظم - اکیلی ۔بلراج کومل

اکیلی

اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
جانتی ہوں تمہارے لیے غیر ہوں
پھر بھی ٹھہرو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں

آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
میری امی نہیں
میرے ابا نہیں
میرے ننھے سے معصوم بھیا نہیں
میری عصمت کی مغرور کرنیں نہیں
وہ گھروندہ نہیں جس کے سائے تلے
لوریوں کے ترنم کو سنتی رہی
پھول چنتی رہی
گیت گاتی رہی
مسکراتی رہی
آج کچھ بھی نہیں

میری نظروں کے سہمے ہوئے آئینے
میری امی کے میرے ابا کے آپا کے
اور میرے ننھے سے معصوم بھیا کے خوں سے
ہیں دہشت زدہ
آج میری نگاہوں کی ویرانیاں
چند مجروح یادوں سے آباد ہیں
آج میری امنگوں کے سوکھے کنول
میرے اشکوں کے پانی سے شاداب ہیں
آج میری تڑپتی ہوئی سسکیاں
اک سازِ شکستہ کی فریاد ہیں
اور کچھ بھی نہیں
بھوک مٹتی نہیں
تن پہ کپڑا نہیں
آس معدوم ہے

آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں
میری امی بنو
میرے ابا بنو
میری آپا بنو
میرے ننھے سے معصوم بھیا بنو
میری عصمت کی مغرور کرنیں بنو
میرے کچھ تو بنو
میرے کچھ تو بنو
میرے کچھ تو بنو

بلراج کومل
 

الف عین

لائبریرین
اکیلی۔۔۔ بلراج کومل

یہ نظم 1948 کی ہے جس نے بلراج کومل کا نام موقر ادیبوں اور شاعروں میں شامل کروایا۔ اس کی آفاقیت آج بھی قائم و دائم ہے

اکیلی

بلراج کومل

اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
جانتی ہوں تمہارے لئے غیر ہوں
پھر بھی ٹھہرو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں

آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
میری امی نہیں
میرے ابا نہیں
میری آپا نہیں
میرے ننھے سے معصوم بھیا نہیں
میری عصمت کی مغرور کرنیں نہیں
وہ گھروندا نہیں جس کے سائے تلے
لوریوں کے ترنم کو سنتی رہی
پھول چنتی رہی
گیت گاتی رہی مسکراتی رہی
آج کچھ بھی نہیں
آج کچھ بھی نہیں
میری نظروں کے سہمے ہوئے آئینے
میری امّی کے، ابّا کے، آپا کے اور میرے ننھے سے معصوم بھیّا کے خوں سے ہیں وحشت زدہ
آج میری نگاہوں کی ویرانیاں چند مجروح یادوں سے آباد ہیں
آج میری امنگوں کے سوکھے کنول میرے اشکوں کے پانی سے شاداب ہیں
آج میری تڑپتی ہوئی سسکیاں ایک سازِ شکستہ کی فریاد ہیں
بھوک مٹتی نہیں
تن پہ کپڑا نہیں
آس معدوم ہے
آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں

اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں
میری امی بنو
میرے ابا بنو
میری آپا بنو
میرے ننھے سے معصوم بھیا بنو
میری عصمت کی مغرور کرنیں بنو
میرے کچھ تو بنو
میرے کچھ تو بنو!
میرے کچھ تو بنو!!
 

محمد وارث

لائبریرین
خوبصورت نظم ہے اعجاز صاحب، معذرت خواہ ہوں کہ یہ نظم پہلے بھی پوسٹ ہو چکی ہے یہاں، سو یکجا کر دیا ہے!
 

الف عین

لائبریرین
’شعر و حکمت‘ کتاب دس میں بلراج کومل کے گوشے میں یہ شامل ہے، مجھے علم ہوتا کہ پوسٹ ہو چکی ہے تو محنت نہیں کرتا۔ اور اس کی امید نہیں تھی کہ بلراج کومل کی شاعری دستیاب ہوگی کہیں، اس لئے ’گوگلا‘ بھی نہیں، یہ کوئی وصی شاہ تو نہیں جو نیٹ پر جا بجا ملے!! حالانکہ میرے بھی کمنٹس شامل ہیں عندلیب کی پوسٹ میں۔
 
Top