پیاسا صحرا
محفلین
برقِ کلیسا
( یہ نظم 1907 میں لکھی گئی تھی)
رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں دو چار
ہائے وہ حسن، وہ شوخی، وہ نزاکت، وہ ابھار
زلفِ پیچاں میں وہ سج دھج کہ بلائیں بھی مرید
قدِ رعنا میں وہ چم خم کہ قیامت بھی شہید
آنکھیں وہ فتنۂ دوراں کہ گنہگار کریں
گال وہ صبحِ درخشاں کہ ملک پیار کریں
گرم تقریر جسے سننے کو شعلہ لپکے
دلکش آواز کہ سن کر جسے بلبل جھپکے
دلکشی چال میں ایسی کہ ستارے رک جائیں
سرکشی ناز میں ایسی کہ گورنر جھک جائیں
آتشِ حسن سے تقویٰ کو جلانے والی
بجلیاں لطفِ تبسم سے گرانے والی
پہلوئے حسنِ بیاں شوخیِ تقریر میں غرق
ٹرکی و مصر و فلسطین کے حالات میں برق
پس گیا، لوٹ گیا، دل میں سکت ہی نہ رہی
سر تھے تمکین کے جس گت میں وہ گت ہی نہ رہی
ضبط کے عزم کا اس وقت اثر کچھ نہ ہوا
یاحفیظٌ کا کیا ورد مگر کچھ نہ ہوا
عرض کی میں نے کہ اے گلشنِ فطرت کی بہار
دولت و عزت و ایماں ترے قدموں پہ نثار
تو اگر عہدِ وفا باندھ کے میری ہو جائے
ساری دنیا سے قلب کو سیری ہو جائے
شوق کے جوش میں میں نے جو زبان یوں کھولی
ناز و انداز سے تیوری کو چڑھا کر بولی
غیر ممکن ہے مجھے انس مسلمانوں سے
بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے
لن ترانی کی یہ لیتے ہیں نمازی بن کر
حملے سرحد پہ کیا کرتے ہیں غازی بن کر
کوئی بنتا ہے جو مہدی تو بگڑ جاتے ہیں
آگ میں کودتے ہیں توپ سے لڑ جاتے ہیں
گل کھلائیں کوئی میداں میں تو اترا جائیں
پائیں سامان اقامت تو قیامت ڈھائیں
مطمئن ہو کوئی کیوں کر کہ یہ ہیں نیک نہاد
ہے ہنوز ان کی رگوں میں اثر حکم جہاد
دشمن صبر کی نظروں میں لگاوٹ پائی
کامیابی کی دلِ زار نے آہٹ پائی
عرض کی میں نے کہ اے لذت جاں راحت روح
اب زمانے پہ نہیں ہے اثر آدم و نوح
شجر طور کا اس باغ میں پودا ہی نہیں
گیسوئے حور کا اس دور میں سودا ہی نہیں
اب کہاں ذہن میں باقی ہیں براق و رفرف
ٹکٹکی بندھ گئی ہے قوم کی انجن کی طرف
ہم ہیں باقی نہیں اب خالد(رض) جانباز کا رنگ
دل پہ غالب ہے فقط حافظ شیراز کا رنگ
یاں نہ وہ نعرۃء تکبیر نہ وہ جوشِ سپاہ
سب کے سب آپ ہی پڑھتے ہیں سبحان اللہ
جوہر تیغ مجاہد ترے ابرو پہ نثار
نور ایماں کا ترے آئینہ رو پہ نثار
اٹھ گئی صفحہ خاطر سے وہ بحث بد و نیک
دو دلے ہو رہے ہیں کہتے ہیں اللہ کو نیک
موج کوثر کی کہاں اب ہے مرے باغ کی گرد
میں تو تہذیب میں ہوں پیرِ مغاں کا شاگرد
مجھ پہ کچھ وجہِ عتاب آپ کو اے جان نہیں
نام ہی نام ہے ورنہ میں مسلمان نہیں
جب کہا صاف یہ میں نے کہ جو ہو صاحب فہم
تو نکالو دلِ نازک سے یہ شبہ وہم
میرے اسلام کو اک قصہء ماضی سمجھو
ہنس کے بولی کہ تو پھر مجھ کو بھی راضی سمجھو
اکبر الٰہ آبادی
( یہ نظم 1907 میں لکھی گئی تھی)
رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں دو چار
ہائے وہ حسن، وہ شوخی، وہ نزاکت، وہ ابھار
زلفِ پیچاں میں وہ سج دھج کہ بلائیں بھی مرید
قدِ رعنا میں وہ چم خم کہ قیامت بھی شہید
آنکھیں وہ فتنۂ دوراں کہ گنہگار کریں
گال وہ صبحِ درخشاں کہ ملک پیار کریں
گرم تقریر جسے سننے کو شعلہ لپکے
دلکش آواز کہ سن کر جسے بلبل جھپکے
دلکشی چال میں ایسی کہ ستارے رک جائیں
سرکشی ناز میں ایسی کہ گورنر جھک جائیں
آتشِ حسن سے تقویٰ کو جلانے والی
بجلیاں لطفِ تبسم سے گرانے والی
پہلوئے حسنِ بیاں شوخیِ تقریر میں غرق
ٹرکی و مصر و فلسطین کے حالات میں برق
پس گیا، لوٹ گیا، دل میں سکت ہی نہ رہی
سر تھے تمکین کے جس گت میں وہ گت ہی نہ رہی
ضبط کے عزم کا اس وقت اثر کچھ نہ ہوا
یاحفیظٌ کا کیا ورد مگر کچھ نہ ہوا
عرض کی میں نے کہ اے گلشنِ فطرت کی بہار
دولت و عزت و ایماں ترے قدموں پہ نثار
تو اگر عہدِ وفا باندھ کے میری ہو جائے
ساری دنیا سے قلب کو سیری ہو جائے
شوق کے جوش میں میں نے جو زبان یوں کھولی
ناز و انداز سے تیوری کو چڑھا کر بولی
غیر ممکن ہے مجھے انس مسلمانوں سے
بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے
لن ترانی کی یہ لیتے ہیں نمازی بن کر
حملے سرحد پہ کیا کرتے ہیں غازی بن کر
کوئی بنتا ہے جو مہدی تو بگڑ جاتے ہیں
آگ میں کودتے ہیں توپ سے لڑ جاتے ہیں
گل کھلائیں کوئی میداں میں تو اترا جائیں
پائیں سامان اقامت تو قیامت ڈھائیں
مطمئن ہو کوئی کیوں کر کہ یہ ہیں نیک نہاد
ہے ہنوز ان کی رگوں میں اثر حکم جہاد
دشمن صبر کی نظروں میں لگاوٹ پائی
کامیابی کی دلِ زار نے آہٹ پائی
عرض کی میں نے کہ اے لذت جاں راحت روح
اب زمانے پہ نہیں ہے اثر آدم و نوح
شجر طور کا اس باغ میں پودا ہی نہیں
گیسوئے حور کا اس دور میں سودا ہی نہیں
اب کہاں ذہن میں باقی ہیں براق و رفرف
ٹکٹکی بندھ گئی ہے قوم کی انجن کی طرف
ہم ہیں باقی نہیں اب خالد(رض) جانباز کا رنگ
دل پہ غالب ہے فقط حافظ شیراز کا رنگ
یاں نہ وہ نعرۃء تکبیر نہ وہ جوشِ سپاہ
سب کے سب آپ ہی پڑھتے ہیں سبحان اللہ
جوہر تیغ مجاہد ترے ابرو پہ نثار
نور ایماں کا ترے آئینہ رو پہ نثار
اٹھ گئی صفحہ خاطر سے وہ بحث بد و نیک
دو دلے ہو رہے ہیں کہتے ہیں اللہ کو نیک
موج کوثر کی کہاں اب ہے مرے باغ کی گرد
میں تو تہذیب میں ہوں پیرِ مغاں کا شاگرد
مجھ پہ کچھ وجہِ عتاب آپ کو اے جان نہیں
نام ہی نام ہے ورنہ میں مسلمان نہیں
جب کہا صاف یہ میں نے کہ جو ہو صاحب فہم
تو نکالو دلِ نازک سے یہ شبہ وہم
میرے اسلام کو اک قصہء ماضی سمجھو
ہنس کے بولی کہ تو پھر مجھ کو بھی راضی سمجھو
اکبر الٰہ آبادی