محمد تابش صدیقی
منتظم
بھونچال
٭
کرۂ ارض کی مانند ہے انسان کا وجود
سطح پر پھول ہیں، سبزہ ہے، خنک چھاؤں ہے
برف ہے، چاندنی ہے، رات ہے، خاموشی ہے
اور بادل، جو فضاؤں میں رواں ہیں چپ چاپ
دور سے موتیے کے ڈھیر نظر آتے ہیں
اور باطن میں گرجتا ہے وہ لاوا، جس سے
زلزلے آتے ہیں، کہسار چٹخ جاتے ہیں
کس کو فرصت ہے کہ اک پل کو ٹھٹھک کر سوچے
لبِ دریا جو یہ معصوم سا اک گاؤں ہے
اس کے نیچے وہ جہنم ہے، کہ جب جاگے گا
آدمی اپنے ہی پیکر سے نکل بھاگے گا
کرۂ ارض کی مانند ہے انساں کا وجود
کس کو معلوم، کہ رعنائیِ تن کے اس پار
کون جانے، کہ دمکتے ہوئے عارض سے اُدھر
نگہتِ گیسو و شیرینیِ لب کے پیچھے
حسنِ تہذیب و تمدن سے ذرا سا ہٹ کر
ذہن کی آتشِ سیال میں پڑتے ہیں بھنور
اس کے رستے میں کوئی فلسفہ حائل ہو اگر
قدریں تھراتی ہیں، معيار الٹ جاتے ہیں
اور اس زلزلۂ فکر و نظر سے، ہر بار
کتنے دیوانے، روایت سے دغا کرتے ہیں
کتنے بت ٹوٹتے ہیں، کتنے ”خدا“ مرتے ہیں
٭٭٭
احمد ندیم قاسمی
٭
کرۂ ارض کی مانند ہے انسان کا وجود
سطح پر پھول ہیں، سبزہ ہے، خنک چھاؤں ہے
برف ہے، چاندنی ہے، رات ہے، خاموشی ہے
اور بادل، جو فضاؤں میں رواں ہیں چپ چاپ
دور سے موتیے کے ڈھیر نظر آتے ہیں
اور باطن میں گرجتا ہے وہ لاوا، جس سے
زلزلے آتے ہیں، کہسار چٹخ جاتے ہیں
کس کو فرصت ہے کہ اک پل کو ٹھٹھک کر سوچے
لبِ دریا جو یہ معصوم سا اک گاؤں ہے
اس کے نیچے وہ جہنم ہے، کہ جب جاگے گا
آدمی اپنے ہی پیکر سے نکل بھاگے گا
کرۂ ارض کی مانند ہے انساں کا وجود
کس کو معلوم، کہ رعنائیِ تن کے اس پار
کون جانے، کہ دمکتے ہوئے عارض سے اُدھر
نگہتِ گیسو و شیرینیِ لب کے پیچھے
حسنِ تہذیب و تمدن سے ذرا سا ہٹ کر
ذہن کی آتشِ سیال میں پڑتے ہیں بھنور
اس کے رستے میں کوئی فلسفہ حائل ہو اگر
قدریں تھراتی ہیں، معيار الٹ جاتے ہیں
اور اس زلزلۂ فکر و نظر سے، ہر بار
کتنے دیوانے، روایت سے دغا کرتے ہیں
کتنے بت ٹوٹتے ہیں، کتنے ”خدا“ مرتے ہیں
٭٭٭
احمد ندیم قاسمی