نظم "دعا" از محمد عثمان جامعی

عین عین

لائبریرین
دعا
محمد عثمان جامعی
رہیں سلامت میرے مولیٰ اجرک کے گُل بُوٹے
اس کا کوئی تار نہ نکلے، رنگ ذرا نہ چُھوٹے
دوری کبھی نہ آنے پائے رِِلّی کے خانوں میں
رنگ سدا یوں بھرے رہیں ان چورس پیمانوں میں
سَر کی عزت بنی رہے یہ ٹوپی سجدے والی
جُڑے رہیں سب شیشے اس کے، رب سائیں رکھوالی!
زہر گُھلے، نہ لالی اُترے سندھو کی لہروں میں
چلے نہ کوئی بیری جھکّڑ گوٹھوں میں، شہروں میں
بِچھی رہے ساری دھرتی پر نیم کی ماں سی چھاؤں
لالوکھیت کی گلیاں ہوں یا دادو، تھر کے گاؤں
سندھی کے میٹھے لفظوں میں پریم کا راگ سنائیں
سندھ کے باسی سچل کی اردو میں نغمے گائیں
رہے مہکتا پیڑوں پر میٹھے سندھڑی کا بور
ریت پہ رم جھم برسے برکھا، تھر میں ناچے مور
لگا رہے اورنگی، کورنگی میں رونق میلہ
شاد رہیں کیماڑی، کلفٹن اور پھلیلی، بیلہ
ایسی پیاری دھرتی کا کس دل سے ہو بٹوارا
سارا سندھ تمھارا سائیں، سارا سندھ ہمارا
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہ
کیا خوب شراکت دی ہے دعائے عثمان میں محترم عین عین صاحب
آمین ثم آمین
ایسی پیاری دھرتی کا کس دل سے ہو بٹوارا
سارا سندھ تمھارا سائیں، سارا سندھ ہمارا
 

عین عین

لائبریرین
بہت شکریہ۔ عثمان جامعی ایک درد مند انسان ہیں۔ صحافی، مزاح نگار اور شاعر ہیں۔ انھوں نے اس سے قبل بھی کراچی میں لسانی بنیادوں پر نفرت کا بیج بونے والے عناصر کے خلاف اپنا کردار قلم کے ذریعے ادا کیا تھا۔ موجودہ حالات میں جہاں ریاست اور اس کے اداروں پر امن عامہ اور دیگر سنگین نوعیت کے مسائل کا حل نکالنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہیں ہمارے ادیبوں، دانش وروں اور شعرا کو بھی کوشش کرنا ہو گی اور عوام کی ذہن سازی کرنا ہو گی اور انھیں یہ سمجھانا ہو گا کہ سیاست ان کی لاشوں پر ہو رہی ہے اور ہمیں کسی کا آلہ کار نہیں بننا ہے۔ یہ نظم بھی محبت اور امن کا پیام دیتی ہے۔ ایسے خوب صورت احساسات اور پیغام کو عام کرنا ضروری ہے۔

فسادیوں سے!
از: محمد عثمان جامعی
یہ نُکڑ پہ جو بند ہے چائے خانہ
نشاں ہے مُحلّے کا برسوں پُرانا
یہ ہوٹل سلامت رہے گا، کُھلے گا
کُھلے گا
کراچی تو زندہ رہے گا
بنارس پہ جو قافلہ رُک گیا ہے
جو اس چوک پر کب سے خائف کھڑا ہے
یقیناً وہ بے خوف ہوکر چلے گا
چلے گا
کراچی تو زندہ رہے گا
سڑک کے کنارے وہ موچی کی پیٹی
کئی روز سے جس پہ تالا پڑا ہے
کسی صبح موچی یہیں پر مِلے گا
مِلے گا
کراچی تو زندہ رہے گا
وہ ارضِ اورنگی کا ننھا سا بچہ
جو گولی کی تڑ تڑ سے ڈرسا گیا ہے
وہ گلیوں میں دوڑے گا، کھیلے ہنسے گا
ہنسے گا
کراچی تو زندہ رہے گا
وہ رکشا جو ڈر کے نہیں چل رہا ہے
کہیں کچے گھر پہ جو سہما کھڑا ہے
وہ لانڈھی کی گلیوں میں پِھر سے اُڑے گا
اُڑے گا
کراچی تُو زندہ رہے گا
وہ انچولی گلشن کے خوش باش لڑکے
الآصف پہ کھانے نہیں آرہے جو
الآصف پہ پھر ان کا میلہ لگے گا
لگے گا
کراچی تُو زندہ رہے گا
وہ مزدا، وہ کنڈکٹروں کی صدائیں
جو اردو میں پشتو کے تیور جگائیں
یہ لہجہ سماعت میں گونجا کرے گا
کرے گا
کراچی تُو زندہ رہے گا
پرے شہر سے جو دکاں پان کی ہے
کئی روز سے جو نہیں کُھل سکی ہے
شٹر اس کا سورج کو لے کر اُٹھے گا
اُٹھے گا
کراچی تُو زندہ رہے گا
 

پاکستانی

محفلین
زندہ باد

بہت شکریہ عین عین ۔۔۔ انشاءاللہ یہ وقت بہت جلد آئے گا کیونکہ کراچی تُو زندہ رہے گا
 
Top