محمد تابش صدیقی
منتظم
یہ نظم اصلی واقعہ پر لکھی گئی ہے جو کہ دادا کے ساتھ عید الاضحی 1986ء کے موقع پر پیش آیا۔ عید الاضحی کے موقع پر احبابِ محفل کی دلچسپی کی نذر:
ساتھ میرے عیدِ قرباں پر جو گزرا سانحہ
میں سناتا ہوں ذرا تفصیل سے وہ واقعہ
تھی جو نیت گاؤ نر میں عید پر قرباں کروں
تاکہ حاصل اس طرح خوشنودیِ یزداں کروں
جا کے پنڈی میں خریدا جانور اک فربہ تن
جلد کو چمکا رہی تھی جس کے سورج کی کرن
جانور تھے سینکڑوں وہ سینکڑوں میں ایک تھا
خورد سال و خوبصورت اور بظاہر نیک تھا
الغرض اس کو خریدا صرف کر کے دو ہزار
باغِ سرداراں سے گھر تک وہ نہ بدکا ایک بار
لان میں باندھا گیا وہ گھاس چرنے کے لیے
بالٹی پانی کی رکھی تاکہ وہ پانی پیے
منہ لگایا گھاس کو اس نے نہ پانی ہی پیا
دوپہر سے شام تک بھوکا پیاسا وہ رہا
قیدِ تنہائی پہ اپنی تھا وہ بے حد بد حواس
سلبِ آزادی پہ اپنے تھا اسے خوف و ہراس
آہنی پھاٹک کی جانب دیکھتا تھا بار بار
مضطرب تھا وہ کسی عنواں ملے راہِ فرار
بعد کچھ وقفہ کے دیکھا دھوپ کی زد میں اسے
میں نے سوچا باندھ دوں اب سایہ کی حد میں اسے
پاس سے گزرا تو بڑھ کر میری جانب 'فُوں' کیا
میں یہ سمجھا جانور ہے عادتاً ہی یوں کیا
کھول دی رسّی تو پھر منظر ہوا نادیدنی
تل گیا وہ کام کرنے جو کہ تھا ناکردنی
جارحانہ، وحشیانہ، جنگ جویانہ بڑھا
جان کر مجھ کو حریف اپنا حریفانہ بڑھا
نیک خو سمجھے تھے ہم پر وہ تو نکلا بدنہاد
ڈھیل پا کر ہو گیا آمادۂ شر نامراد
اس کی ٹکر سے گرا چت بے دھڑک میں لان پر
ہوش پرّاں تھے مرے اور بن گئی تھی جان پر
پھر بڑھا وہ دوسری ٹکر لگانے کے لیے
دستِ غیبی آ گیا آڑے بچانے کے لیے
سینگ دونوں رک گئے آ کر مری پسلی کے پاس
میں کہ تھا در عالمِ بے چارگی و حزن و یاس
پوری قوت مجتمع کر کے ہوا اٹھ کر کھڑا
تیسری ٹکر لگانے مجھ کو ظالم پھر بڑھا
ہو گیا مجھ کو یقیں ہرگز نہ چھوڑے گا مجھے
روند ڈالے گا یہ ظالم آج زیرِ پا مجھے
شور پوتے نے مچایا آ گیا بیٹا مرا
آتے ہی اس کو رسید اک زور کا ڈنڈا کیا
میری جانب سے مڑا اور اس کی جانب منہ کیا
اس کو اک ٹکر لگانے کے لیے آگے بڑھا
مل گیا موقع غنیمت اٹھ کے بھاگا بے تکاں
گھس گیا گھر میں گلے آ کر ملی عمرِ رواں
آ گئی تھی سر پہ لیکن ٹل گئی میری قضا
دو نفل میں نے پڑھے اور بعدہٗ صدقہ دیا
بچ گیا کیسے مگر مجھ پر کھلا یہ بعد میں
گیارھویں آیت پڑھی جب سورۂ الرعد میں
کچھ فرشتے ہیں مقرر پیش و پس انسان کے
جو محافظ حکمِ رب سے ہیں ہر اک کی جان کے
جانور سرکش اگر ہو موت کا پروانہ ہے
یہ نصیحت سن لے میری جو کوئی فرزانہ ہے
دل میں ٹھانی ہے نظرؔ میں نے گر آئندہ جیوں
عیدِ قرباں پر میں قرباں جانور چھوٹا کروں
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
میں سناتا ہوں ذرا تفصیل سے وہ واقعہ
تھی جو نیت گاؤ نر میں عید پر قرباں کروں
تاکہ حاصل اس طرح خوشنودیِ یزداں کروں
جا کے پنڈی میں خریدا جانور اک فربہ تن
جلد کو چمکا رہی تھی جس کے سورج کی کرن
جانور تھے سینکڑوں وہ سینکڑوں میں ایک تھا
خورد سال و خوبصورت اور بظاہر نیک تھا
الغرض اس کو خریدا صرف کر کے دو ہزار
باغِ سرداراں سے گھر تک وہ نہ بدکا ایک بار
لان میں باندھا گیا وہ گھاس چرنے کے لیے
بالٹی پانی کی رکھی تاکہ وہ پانی پیے
منہ لگایا گھاس کو اس نے نہ پانی ہی پیا
دوپہر سے شام تک بھوکا پیاسا وہ رہا
قیدِ تنہائی پہ اپنی تھا وہ بے حد بد حواس
سلبِ آزادی پہ اپنے تھا اسے خوف و ہراس
آہنی پھاٹک کی جانب دیکھتا تھا بار بار
مضطرب تھا وہ کسی عنواں ملے راہِ فرار
بعد کچھ وقفہ کے دیکھا دھوپ کی زد میں اسے
میں نے سوچا باندھ دوں اب سایہ کی حد میں اسے
پاس سے گزرا تو بڑھ کر میری جانب 'فُوں' کیا
میں یہ سمجھا جانور ہے عادتاً ہی یوں کیا
کھول دی رسّی تو پھر منظر ہوا نادیدنی
تل گیا وہ کام کرنے جو کہ تھا ناکردنی
جارحانہ، وحشیانہ، جنگ جویانہ بڑھا
جان کر مجھ کو حریف اپنا حریفانہ بڑھا
نیک خو سمجھے تھے ہم پر وہ تو نکلا بدنہاد
ڈھیل پا کر ہو گیا آمادۂ شر نامراد
اس کی ٹکر سے گرا چت بے دھڑک میں لان پر
ہوش پرّاں تھے مرے اور بن گئی تھی جان پر
پھر بڑھا وہ دوسری ٹکر لگانے کے لیے
دستِ غیبی آ گیا آڑے بچانے کے لیے
سینگ دونوں رک گئے آ کر مری پسلی کے پاس
میں کہ تھا در عالمِ بے چارگی و حزن و یاس
پوری قوت مجتمع کر کے ہوا اٹھ کر کھڑا
تیسری ٹکر لگانے مجھ کو ظالم پھر بڑھا
ہو گیا مجھ کو یقیں ہرگز نہ چھوڑے گا مجھے
روند ڈالے گا یہ ظالم آج زیرِ پا مجھے
شور پوتے نے مچایا آ گیا بیٹا مرا
آتے ہی اس کو رسید اک زور کا ڈنڈا کیا
میری جانب سے مڑا اور اس کی جانب منہ کیا
اس کو اک ٹکر لگانے کے لیے آگے بڑھا
مل گیا موقع غنیمت اٹھ کے بھاگا بے تکاں
گھس گیا گھر میں گلے آ کر ملی عمرِ رواں
آ گئی تھی سر پہ لیکن ٹل گئی میری قضا
دو نفل میں نے پڑھے اور بعدہٗ صدقہ دیا
بچ گیا کیسے مگر مجھ پر کھلا یہ بعد میں
گیارھویں آیت پڑھی جب سورۂ الرعد میں
کچھ فرشتے ہیں مقرر پیش و پس انسان کے
جو محافظ حکمِ رب سے ہیں ہر اک کی جان کے
جانور سرکش اگر ہو موت کا پروانہ ہے
یہ نصیحت سن لے میری جو کوئی فرزانہ ہے
دل میں ٹھانی ہے نظرؔ میں نے گر آئندہ جیوں
عیدِ قرباں پر میں قرباں جانور چھوٹا کروں
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی