زینب
محفلین
ہمارے پاؤں میںجو رستہ تھا
رستے میں پیڑ تھے
پیڑوں پر جتنی طائروں کی ٹولیاں ہم سے ملا کرتی تھیں
اب وہ اڑٹے اڑتے تھک گئی ہیں
وہ گھنی شاخیں جو ہم پے سایہ کرتی تھیں
وہ سب مرجھا گئی ہیں
اسے کہنا
لبوں پر لفظ ہیں
لفظوں پر کوئی دستاں قصہ کہانی جو اسے اکثر سناتے تھے
کسے جا کر سنایئں گے
بتایئں گے کہ ہم محراب ابرو میں ستارے ٹانکنے والے
درلب بوسہء اظہار کی دستک سے اکثر کھولنے والے
کبھی بکھری ہوئی زلفوں میںہم
مہتاب کے گجرے بنا کر باندھنے والے
چراغ اور آیئنے کے درمیاں کب سے سر ساحل
کھڑے موجوںکو تکتے ہیں
اسے کہنا
اسے ہم یاد کرتے ہیں
اسے کہنا ہم آکر خود اسے ملتے مگر مستقل بدلتے
موسموں کے خون میں رنگین ہیں ہم
ایسے بہت سے موسموںکے درمیاں تنہا کھڑے ہیں
جانے کب بلاوا ہو! ہم میں آج بھی اک عمر کی
ورافتگی اور وحشتوں کا رقص جاری ہے ،وہ بازی جو
بساط دل پہ کھیلی تھی ابھی ہم نے جیتی ہے
نہ ہاری ہے
اسے کہنا
کبھی ملنے چلا آئے
اسے ہم یاد کرتے ہیں
رستے میں پیڑ تھے
پیڑوں پر جتنی طائروں کی ٹولیاں ہم سے ملا کرتی تھیں
اب وہ اڑٹے اڑتے تھک گئی ہیں
وہ گھنی شاخیں جو ہم پے سایہ کرتی تھیں
وہ سب مرجھا گئی ہیں
اسے کہنا
لبوں پر لفظ ہیں
لفظوں پر کوئی دستاں قصہ کہانی جو اسے اکثر سناتے تھے
کسے جا کر سنایئں گے
بتایئں گے کہ ہم محراب ابرو میں ستارے ٹانکنے والے
درلب بوسہء اظہار کی دستک سے اکثر کھولنے والے
کبھی بکھری ہوئی زلفوں میںہم
مہتاب کے گجرے بنا کر باندھنے والے
چراغ اور آیئنے کے درمیاں کب سے سر ساحل
کھڑے موجوںکو تکتے ہیں
اسے کہنا
اسے ہم یاد کرتے ہیں
اسے کہنا ہم آکر خود اسے ملتے مگر مستقل بدلتے
موسموں کے خون میں رنگین ہیں ہم
ایسے بہت سے موسموںکے درمیاں تنہا کھڑے ہیں
جانے کب بلاوا ہو! ہم میں آج بھی اک عمر کی
ورافتگی اور وحشتوں کا رقص جاری ہے ،وہ بازی جو
بساط دل پہ کھیلی تھی ابھی ہم نے جیتی ہے
نہ ہاری ہے
اسے کہنا
کبھی ملنے چلا آئے
اسے ہم یاد کرتے ہیں