امجد اسلام امجد نظم:شام سے پہلے

عندلیب

محفلین
گھروں کی چھتوں سے دھوپ اتری
کسی مزار کے گنبد پہ، صحن مسجد میں
تکھے تکھے سے کبوتر کہیں سے جمع ہوئے
گھروں کو لوٹتے قدموں سے پھر گلی گونجی
دمک اٹھی کئی آنکھوں میں انتظار کی لو
بدن میں سرد ہوا چھو کے تازگی آئی
کچھ اور سبز ہوئی پاس کے چمن کی گھاس!

بھرے ہیں ایسے صداؤں سے شہر کے بازار
کہ جیسے ڈھیر ہوں کوڑے کے،جن میں وقت کے ساتھ
کسی بھی شئے کی کوئی شکل ہی نہیں رہتی
سکوت شام میں بہتی ندی کو جب دیکھیں
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے وہ نہیں بہتی!

فضا میں پھیل سا جاتا ہے چمنیوں کا دھواں
گھروں میں جس گھڑی چولہے سلگنے لگتے ہیں
فلک پہ اس طرح تارے نکلنے لگتے ہیں
کہ جیسے چھٹی کے ہنگام ان گنت بچے
بہت ہی شور مچاتے سکول سے نکلیں
کسی دلیر سے منصف کے حکم پر جیسے
بلا وجہ ہی بہت التوا میں رکھے گئے
ہزاروں فیصلے ردو قبول سے نکلیں!

کسی کو یاد تو جی بھر کے کر لے اے مرے دل
کسی خیال سے دامن تو بھر لے اے مرے دل
اور اس سے پہلے کہ یہ شام بھی بکھر جائے
سمے کے ساتھ ترا نام بھی بکھر جائے !
 
Top