ابھی چوتھا درویش اپنی کہانی سنا ہی رہا تھا کہ یک لخت ہی پانچویں کھونٹ سے ایک جوگی برآمد ہوا اور الاؤ کے نزدیک جا، آلتی پالتی مار کر بیٹھ کے اور گلا صاف کرکے یہ کہنے لگا:
چھوڑو رہنے بھی دو اپنے بھوتوں کے پریوں کے جنوں کے فرسودہ قصے، بھلا ان میں رکھا ہی کیا ہے؟ زمانہ کہاں سے کہاں تک چلا آیا ہے، اور اس دور میں ان کے چکر میں دو سال کا کوئی بچہ ہی آئے تو آئے۔
سنو داستاں میری، کانوں سے کم اور دلوں سے زیادہ کہ اس میں تمہاری کتھاؤں کا وہ سبزطوطا ہے اب جس کے خوش رنگ دھندلا گئے ہیں
سنو، یہ کہانی ہے اک پیڑ کی جو صحارا کے سینے پہ صدیوں سے یوں ایستادہ تھا، جیسے اماوس کی تاریک شب میں بشارت کی کرنیں۔
اک اعزاز حاصل تھا اس کوکہ یہ ساری دنیا کا سب سے اکیلا شجر تھا۔ یہ یکتا، یہ تنہا شجر، جس کے چاروں طرف چار سو کوس کے دائرے میں کہیں گھاس کی خشک پتی، کسی ناگ پھن کا نشاں تک نہیں تھا۔
یہ یکتا، یہ تنہا شجر سال ہا سال سے اس بیاباں کی بخشی ہوئی ہر صعوبت کو ہنس ہنس کے سہتا تھا، دھرتی کے سینے کے اندر گزوں تک جڑیں اپنی پھیلا کے پانی کی ہر آخری بوند تک سینچ لاتا تھا اور اس کو ممتا کے آنچل سی مشفق، گھنی چھاؤں میں ڈھال کر راہیوں کے سروں پر سجاتا تھا۔
جب بھی کبھی “آغادِیز“ اور “بِلما“ قبیلوں کے سوداگروں کے لدے کارواں اس علاقے میں آتے تو ان کے شکستہ مسافر گھڑی دو گھڑی اس کی چھاؤں میں سستاتے، اپنا پسینہ سکھاتے تھے۔
یا پھر کبھی رات کو بھولا بھٹکا کوئی قافلہ اس طرف آ نکلتا، تو اس کے نمک اور ریشم کے تاجر شجر کے تنے سے کمر ٹیک کر اپنے قہوے کے فِنجانوں سے چسکیاں لےکے تاروں کی منڈلی کو حیرت سے تکتے تھے۔ صحرا کی پہنائی میں پھیلے اسرار کی داستانیں سناتے سناتے تھکے راہیوں کے نِنداسی پپوٹوں پہ خوابوں کی شبنم اترتی تھی۔
مگر رفتہ رفتہ زمانہ بدلنے لگا اور صحارا ترقی کے فیضان سے بہرہ ور ہو گیا، اور اب اس کی وسعت میں اونٹوں کی مسحور کن گھنٹیوں کی جگہ گھرگھراتے ہوئے انجنوں کی صداؤں نے لے لی۔
اور اک دن کوئی بے مہار اور بدمست چھکڑا ہمارے اکیلے شجرکے ستم آشنا جسم کو بے دھیانی میں ٹھوکر لگا کر کہییں چل دیا۔
اور اگلے سویرے وہاں سے “طراقی“ قبیلے کا اک شخص گزرا تو اس کو یقین ہی نہیں آیا آنکھوں پہ اپنی۔۔۔ وہ ممتا کا چھتنار آنچل، وہ صحرا کا قطبی ستارہ، زمیں پر کسی بے کفن اور گمنام لاشے کی مانند پڑا تھا۔
یہ کہہ کر وہ جوگی بنا کچھ کہے اور سنے دھند میں کھو گیا اور درویشوں نے ہڑبڑا کر جو چاروں طرف اک نظر کی تو دیکھا کہ اب چارسو کوس کا دائرہ پھیلتے پھیلتے سب کُرہ اپنےگھیرے میں لپٹا چکا ہے، یہاں سے وہاں چار سو لق و دق دشت پھیلا ہوا ہے، جہاں پر کہیں گھاس کی خشک پتی، کسی ناگ پھن کا نشاں تک نہیں ہے!
چھوڑو رہنے بھی دو اپنے بھوتوں کے پریوں کے جنوں کے فرسودہ قصے، بھلا ان میں رکھا ہی کیا ہے؟ زمانہ کہاں سے کہاں تک چلا آیا ہے، اور اس دور میں ان کے چکر میں دو سال کا کوئی بچہ ہی آئے تو آئے۔
سنو داستاں میری، کانوں سے کم اور دلوں سے زیادہ کہ اس میں تمہاری کتھاؤں کا وہ سبزطوطا ہے اب جس کے خوش رنگ دھندلا گئے ہیں
سنو، یہ کہانی ہے اک پیڑ کی جو صحارا کے سینے پہ صدیوں سے یوں ایستادہ تھا، جیسے اماوس کی تاریک شب میں بشارت کی کرنیں۔
اک اعزاز حاصل تھا اس کوکہ یہ ساری دنیا کا سب سے اکیلا شجر تھا۔ یہ یکتا، یہ تنہا شجر، جس کے چاروں طرف چار سو کوس کے دائرے میں کہیں گھاس کی خشک پتی، کسی ناگ پھن کا نشاں تک نہیں تھا۔
یہ یکتا، یہ تنہا شجر سال ہا سال سے اس بیاباں کی بخشی ہوئی ہر صعوبت کو ہنس ہنس کے سہتا تھا، دھرتی کے سینے کے اندر گزوں تک جڑیں اپنی پھیلا کے پانی کی ہر آخری بوند تک سینچ لاتا تھا اور اس کو ممتا کے آنچل سی مشفق، گھنی چھاؤں میں ڈھال کر راہیوں کے سروں پر سجاتا تھا۔
جب بھی کبھی “آغادِیز“ اور “بِلما“ قبیلوں کے سوداگروں کے لدے کارواں اس علاقے میں آتے تو ان کے شکستہ مسافر گھڑی دو گھڑی اس کی چھاؤں میں سستاتے، اپنا پسینہ سکھاتے تھے۔
یا پھر کبھی رات کو بھولا بھٹکا کوئی قافلہ اس طرف آ نکلتا، تو اس کے نمک اور ریشم کے تاجر شجر کے تنے سے کمر ٹیک کر اپنے قہوے کے فِنجانوں سے چسکیاں لےکے تاروں کی منڈلی کو حیرت سے تکتے تھے۔ صحرا کی پہنائی میں پھیلے اسرار کی داستانیں سناتے سناتے تھکے راہیوں کے نِنداسی پپوٹوں پہ خوابوں کی شبنم اترتی تھی۔
مگر رفتہ رفتہ زمانہ بدلنے لگا اور صحارا ترقی کے فیضان سے بہرہ ور ہو گیا، اور اب اس کی وسعت میں اونٹوں کی مسحور کن گھنٹیوں کی جگہ گھرگھراتے ہوئے انجنوں کی صداؤں نے لے لی۔
اور اک دن کوئی بے مہار اور بدمست چھکڑا ہمارے اکیلے شجرکے ستم آشنا جسم کو بے دھیانی میں ٹھوکر لگا کر کہییں چل دیا۔
اور اگلے سویرے وہاں سے “طراقی“ قبیلے کا اک شخص گزرا تو اس کو یقین ہی نہیں آیا آنکھوں پہ اپنی۔۔۔ وہ ممتا کا چھتنار آنچل، وہ صحرا کا قطبی ستارہ، زمیں پر کسی بے کفن اور گمنام لاشے کی مانند پڑا تھا۔
یہ کہہ کر وہ جوگی بنا کچھ کہے اور سنے دھند میں کھو گیا اور درویشوں نے ہڑبڑا کر جو چاروں طرف اک نظر کی تو دیکھا کہ اب چارسو کوس کا دائرہ پھیلتے پھیلتے سب کُرہ اپنےگھیرے میں لپٹا چکا ہے، یہاں سے وہاں چار سو لق و دق دشت پھیلا ہوا ہے، جہاں پر کہیں گھاس کی خشک پتی، کسی ناگ پھن کا نشاں تک نہیں ہے!