فرحان محمد خان
محفلین
مامتا
وہ جذبہ جو نسائی جذبوں کی مُنتہا ہے
دُنیا میں نام اس کا اک ماں کی مامتا ہے
آغوشِ ناز گنجِ اقبال سے بھرا ہے
یا خوابِ رُوح مستِ تعبیر ہو رہا ہے
رہ رہ کے مامتا کا اظہار کر رہی ہے
بے تاب ہو رہی ہے اور پیار کر رہی ہے
جذبات مادری کا اعجاز کہئے اس کو
روحانیت سے لبریز اک ساز کہئے اس کو
حوّا کے سوزِ جاں کی پرواز کہئے اس کو
فطرت کے دردِ دل کی آواز کہئے اس کو
الفت کی انتہائیں چہرے پہ چھا گئی ہیں
دل کی اُمیدیں کھنچ کر چہرے پہ آ گئی ہیں
جو نونہال زیبِ آغوشِ مدعا ہے !
اک پاک راز بن کر سینے میں رہ چکا ہے !
اب بھی مگر یہ عالم اک ماں کے پیار کا ہے !
گویا وہ راز اس کے دل میں ہی سو رہا ہے !
دیوانہ وار اس کے گالوں کو چومتی ہے!
آنکھوں کو چومتی ہے ، بالوں کو چومتی ہے !
دنیا یہی ہے اور اس کی دین بھی یہی ہے
پہلوئے سادگی کی تزئین بھی یہی ہے
غم ہائے زندگی میں تسکین بھی یہی ہے
ہاں ماں کی مامتا کا آئین بھی یہی ہے
بچے سے خوش پر اُن کے خوابوں میں کھو رہی ہے
اک آںکھ ہنس رہی ہے اک آنکھ رو رہی ہے
وہ جذبہ جو نسائی جذبوں کی مُنتہا ہے
دُنیا میں نام اس کا اک ماں کی مامتا ہے
آغوشِ ناز گنجِ اقبال سے بھرا ہے
یا خوابِ رُوح مستِ تعبیر ہو رہا ہے
رہ رہ کے مامتا کا اظہار کر رہی ہے
بے تاب ہو رہی ہے اور پیار کر رہی ہے
جذبات مادری کا اعجاز کہئے اس کو
روحانیت سے لبریز اک ساز کہئے اس کو
حوّا کے سوزِ جاں کی پرواز کہئے اس کو
فطرت کے دردِ دل کی آواز کہئے اس کو
الفت کی انتہائیں چہرے پہ چھا گئی ہیں
دل کی اُمیدیں کھنچ کر چہرے پہ آ گئی ہیں
جو نونہال زیبِ آغوشِ مدعا ہے !
اک پاک راز بن کر سینے میں رہ چکا ہے !
اب بھی مگر یہ عالم اک ماں کے پیار کا ہے !
گویا وہ راز اس کے دل میں ہی سو رہا ہے !
دیوانہ وار اس کے گالوں کو چومتی ہے!
آنکھوں کو چومتی ہے ، بالوں کو چومتی ہے !
دنیا یہی ہے اور اس کی دین بھی یہی ہے
پہلوئے سادگی کی تزئین بھی یہی ہے
غم ہائے زندگی میں تسکین بھی یہی ہے
ہاں ماں کی مامتا کا آئین بھی یہی ہے
بچے سے خوش پر اُن کے خوابوں میں کھو رہی ہے
اک آںکھ ہنس رہی ہے اک آنکھ رو رہی ہے
اختر شیرانی