نظم - مرے ساتھیوں پھر عَلم تم اُٹھالو - برائے اصلاح

شہزی مشک

محفلین
مرے ساتھیوں پھر عَلم تم اُٹھالو
بڑھو نوجوانوں وطن کو سنبھالو

نظر لگ گئی ہے وطن کو ہمارے
اُجڑ جو رہا ہے چمن وہ بچا لو

مرے جارہے ہیں پیارے وطن کے
اُنہیں اب خدارا! اُٹھو اور بچالو

قیادت ملے گر تمہیں معتبر تو
اُسے رہنما تم خوشی سے بنا لو

شہید کا لہو جو بہا ہے زمیں پر
قدر تو کرو اُس کی حرمت بچالو

مشک بس یہی التجا کررہا ہے
محبت ملے گر تمہیں دلوں میں بسا لو

شاعر: شہزاد مشک
بحر: فعولن فعولن فعولن فعولن
 

الف عین

لائبریرین
اوہو یہ کہاں چھپی تھی؟؟
مرے ساتھیوں پھر عَلم تم اُٹھالو​
بڑھو نوجوانوں وطن کو سنبھالو​
÷÷درست، لیکن ایک مشورہ، جب تخاطب ہوتا ہے تو جمع میں نون غنہ کا استعمال نہیں کیا جاتا، ’ساتھیو‘ اور ’جوابو‘ درست ہوتا ہے۔

نظر لگ گئی ہے وطن کو ہمارے​
اُجڑ جو رہا ہے چمن وہ بچا لو​
÷÷دوسرا مصرع روانی چاہتا ہے، جیسے
چمن جو اجڑنے لگا ہے، بچا لو

مرے جارہے ہیں پیارے وطن کے​
اُنہیں اب خدارا! اُٹھو اور بچالو​
÷÷پیارے‘ بر وزن فعولن نہیں، فعلن ہوتا ہے، یعنی ’ی‘ کا تلفظ تقطیع نہیں کیا جاتا۔ یہاں ’جو پیارے‘ سے درست ہو جاتا ہے، یا مزید روانی کی خاطر
جو پیارے وطن کے مرے جا رہے ہیں
خدارا! اٹھو اور ان کو بچا لو
اولیٰ میں ’پیارے‘ کا کوئی متبادل بھی مزید بہتر ہو گا۔

قیادت ملے گر تمہیں معتبر تو​
اُسے رہنما تم خوشی سے بنا لو​
÷÷درست

شہید کا لہو جو بہا ہے زمیں پر​
قدر تو کرو اُس کی حرمتبچالو​
÷÷یہاں دو اغلاط ہیں۔ شہید کا تلفظ بھی، اور قدر کا بھی۔ شہید کی ‘ی‘ گرا کر فعل کرنا غلط ہے، اور قدر میں دال پر جزم ہے اور فعو نہین یہ محض ’فعل‘ ہے (فَعِل نہیں جو فعو کا ہم وزن ہوتا ہے)۔اس کو یوں کیا جا سکتا ہے
جو خونِ شہیداں بہا ہے زمیں پر
کرو قدر اور اس کی حرمت بچا لو

مشک بس یہی التجا کررہا ہے​
محبت لے گر تمہیں دلوں میں بسا لو​
۔۔یہاں مشک کا تلفظ ہی غ؛ط باندھا گیا ہے۔ یہ بھی فعل ہے، فعو نہیں۔ دوسرا مصرع بالکل کارج از بحر ہو گیا ہے۔ اس کو اوزان میں لانے کے لئے یوں کیا جا سکتا ہے​
یہی مشک اک التجا کر رہا ہے​
ملے جب محبت، دلوں میں بسا لو​
دوسرا مصرع مزید بہتر بھی ہو سکتا ہے۔​
 

شہزی مشک

محفلین
اوہو یہ کہاں چھپی تھی؟؟

مرے جارہے ہیں پیارے وطن کے​
اُنہیں اب خدارا! اُٹھو اور بچالو​
÷÷پیارے‘ بر وزن فعولن نہیں، فعلن ہوتا ہے، یعنی ’ی‘ کا تلفظ تقطیع نہیں کیا جاتا۔ یہاں ’جو پیارے‘ سے درست ہو جاتا ہے، یا مزید روانی کی خاطر
جو پیارے وطن کے مرے جا رہے ہیں
خدارا! اٹھو اور ان کو بچا لو
اولیٰ میں ’پیارے‘ کا کوئی متبادل بھی مزید بہتر ہو گا۔

مشک بس یہی التجا کررہا ہے​
محبت لے گر تمہیں دلوں میں بسا لو​
۔۔یہاں مشک کا تلفظ ہی غ؛ط باندھا گیا ہے۔ یہ بھی فعل ہے، فعو نہیں۔ دوسرا مصرع بالکل کارج از بحر ہو گیا ہے۔ اس کو اوزان میں لانے کے لئے یوں کیا جا سکتا ہے​
یہی مشک اک التجا کر رہا ہے​
ملے جب محبت، دلوں میں بسا لو​
دوسرا مصرع مزید بہتر بھی ہو سکتا ہے۔​

استادِ گرامی ! میرے پاس اب وہ وقت نہیں رہا مگر کچھ بہتر کرنے کی کوشش کی ہے تو ذرا دیکھ لیں تو میں حتمی غزل بعد از اصلاح پیشِ خدمت کردوں۔

جوا ں جووطن کے مرے جارہے ہیں
خدارا! اٹھو اور ان کو بچالو
یہی مشک اک التجا کررہا ہے
جو چاہت ملے تو دلوں میں بسا لو
جواپنے لئے تم بھلا چاہتے ہو
وہ راہیں سبھی کیلئے ہی نکالو
غموں کے جو مارے ہوئے ہیں یہاں پر
ملیں تو گلے سے انہیں تم لگا لو

خیر اندیش و دعا گو
شہزاد مشک
 

شہزی مشک

محفلین
بعد از اصلاح
مرے ساتھیو پھر عَلم تم اُٹھالو​
بڑھو نوجوانو وطن کو سنبھالو​
نظر لگ گئی ہے وطن کو ہمارے​
چمن جو اجڑنے لگا ہے، بچا لو​
جوا ں جووطن کے مرے جارہے ہیں
خدارا! اٹھو اور ان کو بچالو​
قیادت ملے گر تمہیں معتبر تو​
اُسے رہنما تم خوشی سے بنا لو​
جو خونِ شہیداں بہا ہے زمیں پر
کرو قدر اور اس کی حرمت بچا لو​
جواپنے لئے تم بھلا چاہتے ہو
وہ راہیں سبھی کیلئے ہی نکالو​
غموں کے جو مارے ہوئے ہیں یہاں پر
ملیں تو گلے سے انہیں تم لگا لو​
یہی مشک اک التجا کررہا ہے
جو چاہت ملے تو دلوں میں بسا لو​
شہزاد مشک​
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
مرے ساتھیوں ساتھیو! پھر عَلم تم اُٹھالو
بڑھو نوجوانوں نوجوانو! وطن کو سنبھالو

نظر لگ گئی ہے وطن کو ہمارے
اُجڑ جو رہا ہے چمن وہ بچا لو

مرے جارہے ہیں پیارے وطن کے
اُنہیں اب خدارا! اُٹھو اور بچالو

قیادت ملے گر تمہیں معتبر تو
اُسے رہنما تم خوشی سے بنا لو

شہید کا لہو جو بہا ہے زمیں پر
قدر تو کرو اُس کی حرمت بچالو

مشک بس یہی التجا کررہا ہے
محبت ملے گر تمہیں دلوں میں بسا لو

شاعر: شہزاد مشک
بحر: فعولن فعولن فعولن فعولن
 
Top