ن م راشد نظم - مکافات -ن م راشد

مکافات

رہی ہے حضرتِ یزداں سے دوستی میری
رہا ہے زہد سے یارانہ استوار مرا
گزر گئی ہے تقدس میں زندگی میری
دل اہرمن سے رہا ستیزہ کار مرا
کسی پہ روح نمایاں نہ ہو سکی میری
رہا ہے اپنی امنگوں پہ اختیار مرا

دبائے رکھا ہے سینے میں اپنی آہوں کو
وہیں دیا ہے شب و روز پیچ وتاب انہیں
زبانِ شوق بنایا نہیں نگاہوں کو
کیا نہیں کبھی وحشت میں بے نقاب انہیں
خیال میں ہی پرورش کیا گناہوں کو
کبھی کیا نہ جوانی سے بہرہ یاب انہیں
یہ مل رہی ہے مرے ضبط کی سزا مجھ کو
کہ اک زہر سے لبریز ہے شباب مرا
اذیتوں سے بھری ہے ہر ایک بیداری
مہیب و روح ستاں ہے ہر ایک خواب مرا
الجھ رہی ہیںنوائیں مرے سرودوں کی
فشارِ ضبط سے بے تاب ہے رباب مرا
مگر یہ ضبط مرے قہقہوں کا دشمن تھا
پیامِ مرگِ جوانی تھا اجتناب مرا

لو آ گئی ہیں وہ بن کر مہیب تصویریں
وہ آرزوئیں کہ جن کا کیا تھا خوں میں نے
لو آ گئے ہیں وہی پیروانِ اہریمن
کیا تھا جن کو سیاست سے سر نگوں میں
کبھی نہ جان پہ دیکھا تھا یہ عذابِ الیم
کبھی نہ اے مرے بختِ واژگوں میں نے
مگر یہ جتنی اذیت بھی دیں مجھے کم ہے
کیا ہے روح کو اپنی بہت زبوں میں
اسے نہ ہونے دیا میں نے ہم نوائےشباب
نہ اس پہ چلنے دیا شوق کا فسوں میں
اے کاش چھپ کے کہیں اک گناہ کر لیتا
حلاوتوں سے جوانی کو اپنی بھر لیتا
گناہ ایک بھی اب تک کیا نہ کیوں میں نے؟

ن م راشد
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ، کیا خوبصورت نظم ہے، پہلے مصرعے ہی سے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے!

شکریہ جناب شیئر کرنے کیلیے!
 
Top