محمد تابش صدیقی
منتظم
نذرانۂ عقیدت، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ
(یہ نظم اس وقت لکھی گئی جب مولانا مودودیؒ حیات تھے)
(یہ نظم اس وقت لکھی گئی جب مولانا مودودیؒ حیات تھے)
آلِ سید اے ابو الاعلیٰ جواں قسمت ہے تو
حاملِ اخلاقِ اعلیٰ اور نکو سیرت ہے تو
شاہکارِ لم یزل، نقشِ یدِ قدرت ہے تو
کیا حسیں صورت، حسیں سیرت، حسیں فطرت ہے تو
فکر کی قندیلِ روشن، علم کی دولت ہے تو
فہم کی سرعت ہے تو، ادراک کی قوت ہے تو
پیکرِ عزم و عمل ہے، صبر کی طاقت ہے تو
تو جری پیشہ ہے، با جرأت ہے، پُر ہمت ہے تو
آئینہ اسلام کا ہے دین کی نصرت ہے تو
ہے ستونِ استقامت، لائقِ مدحت ہے تو
شوکتِ اسلام ہے، اسلام کی غیرت ہے تو
دین کی حشمت ہے تو، سطوت ہے تو، صولت ہے تو
عالمِ دیں، پیروِ حق، تابعِ سنت ہے تو
ترجمانِ الَقرآں، گنجینۂ حکمت ہے تو
خادمِ دینِ ھدیٰ ہے سیدِ ملت ہے تو
تو مفکر ہے، محقق ہے، ابو الحکمت ہے تو
گل ہے تو، گلزار تو، گلزار کی نزہت ہے تو
روح جس سے وجد میں آ جائے وہ نکہت ہے تو
مال و زر رکھتا نہیں کب صاحبِ ثروت ہے تو
دیدہ ور کہتے ہیں پَر سرمایۂ ملت ہے تو
حق شناس و حق رس و حق بین و حق آگاہ ہے
دینِ قیم کے لئے برہان ہے، حجت ہے تو
اک منارِ روشنی گم کردۂ منزل کو ہے
خفتہ بختوں کے لئے بیداری قسمت ہے تو
نوجوانی، چند ساتھی اور وہ ترکِ وطن
اے مہاجر آشنائے لذتِ ہجرت ہے تو
جادۂ حق میں اکیلا ہی قدم زن ہو گیا
رہ گزارِ عشق میں بیگانۂ راحت ہے تو
تو علمدارِ نظامِ حق بہ استدلال ہے
پرچمِ اسلام کی عظمت ہے تو، رفعت ہے تو
جانبِ منزل چلا بن کر امیرِ کارواں
امتِ مسلم کو مثلِ خوبی قسمت ہے تو
تو صداقت کی نوا اس دورِ شر انگیز میں
ہر نظامِ کفر و باطل کے لئے ہیبت ہے تو
تیری تحریریں کہ تقریریں سبھی ہیں دل پذیر
مایۂ خلوت ہے تو، سرمایۂ جلوت ہے تو
ظلم و طغیاں کے مقابل تو رہا سینہ سپر
لشکرِ شر کے لئے کوہِ گراں عظمت ہے تو
ہر عمل محکم ترا، ہر قول ہے قولِ سدید
عاملِ قرآں ہے تو اور حاملِ سنت ہے تو
قصۂ دار و رسن سے زندگی رنگیں تری
موت خائف تجھ سے وہ پُر رعب و پُر ہیبت ہے تو
ہو نظامِ حق وہ برپا تو ہے جس کا منتظر
ہوش جب سے تجھ کو ہے آزردۂ فرقت ہے تو
گو تجھے حاصل نہیں صحبت زمانہ سے مگر
غلبۂ دیں کے لئے جاں دادۂ محنت ہے تو
اے ابو الاعلیٰ خدا بخشے تجھے عمرِ طویل
رہبرِ امت ہے تو اللہ کی نعمت ہے تو
بارک اللہ و جزاک اللہ کہتا ہے نظرؔ
ملک و ملت کے لئے سب سے بڑی حاجت ہے تو
٭٭٭
محمد عبدالحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
حاملِ اخلاقِ اعلیٰ اور نکو سیرت ہے تو
شاہکارِ لم یزل، نقشِ یدِ قدرت ہے تو
کیا حسیں صورت، حسیں سیرت، حسیں فطرت ہے تو
فکر کی قندیلِ روشن، علم کی دولت ہے تو
فہم کی سرعت ہے تو، ادراک کی قوت ہے تو
پیکرِ عزم و عمل ہے، صبر کی طاقت ہے تو
تو جری پیشہ ہے، با جرأت ہے، پُر ہمت ہے تو
آئینہ اسلام کا ہے دین کی نصرت ہے تو
ہے ستونِ استقامت، لائقِ مدحت ہے تو
شوکتِ اسلام ہے، اسلام کی غیرت ہے تو
دین کی حشمت ہے تو، سطوت ہے تو، صولت ہے تو
عالمِ دیں، پیروِ حق، تابعِ سنت ہے تو
ترجمانِ الَقرآں، گنجینۂ حکمت ہے تو
خادمِ دینِ ھدیٰ ہے سیدِ ملت ہے تو
تو مفکر ہے، محقق ہے، ابو الحکمت ہے تو
گل ہے تو، گلزار تو، گلزار کی نزہت ہے تو
روح جس سے وجد میں آ جائے وہ نکہت ہے تو
مال و زر رکھتا نہیں کب صاحبِ ثروت ہے تو
دیدہ ور کہتے ہیں پَر سرمایۂ ملت ہے تو
حق شناس و حق رس و حق بین و حق آگاہ ہے
دینِ قیم کے لئے برہان ہے، حجت ہے تو
اک منارِ روشنی گم کردۂ منزل کو ہے
خفتہ بختوں کے لئے بیداری قسمت ہے تو
نوجوانی، چند ساتھی اور وہ ترکِ وطن
اے مہاجر آشنائے لذتِ ہجرت ہے تو
جادۂ حق میں اکیلا ہی قدم زن ہو گیا
رہ گزارِ عشق میں بیگانۂ راحت ہے تو
تو علمدارِ نظامِ حق بہ استدلال ہے
پرچمِ اسلام کی عظمت ہے تو، رفعت ہے تو
جانبِ منزل چلا بن کر امیرِ کارواں
امتِ مسلم کو مثلِ خوبی قسمت ہے تو
تو صداقت کی نوا اس دورِ شر انگیز میں
ہر نظامِ کفر و باطل کے لئے ہیبت ہے تو
تیری تحریریں کہ تقریریں سبھی ہیں دل پذیر
مایۂ خلوت ہے تو، سرمایۂ جلوت ہے تو
ظلم و طغیاں کے مقابل تو رہا سینہ سپر
لشکرِ شر کے لئے کوہِ گراں عظمت ہے تو
ہر عمل محکم ترا، ہر قول ہے قولِ سدید
عاملِ قرآں ہے تو اور حاملِ سنت ہے تو
قصۂ دار و رسن سے زندگی رنگیں تری
موت خائف تجھ سے وہ پُر رعب و پُر ہیبت ہے تو
ہو نظامِ حق وہ برپا تو ہے جس کا منتظر
ہوش جب سے تجھ کو ہے آزردۂ فرقت ہے تو
گو تجھے حاصل نہیں صحبت زمانہ سے مگر
غلبۂ دیں کے لئے جاں دادۂ محنت ہے تو
اے ابو الاعلیٰ خدا بخشے تجھے عمرِ طویل
رہبرِ امت ہے تو اللہ کی نعمت ہے تو
بارک اللہ و جزاک اللہ کہتا ہے نظرؔ
ملک و ملت کے لئے سب سے بڑی حاجت ہے تو
٭٭٭
محمد عبدالحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی