غزل قاضی
محفلین
" کہانی "
بچو ، ہم پر ہنسنے والو ، آؤ تمھیں سمجھائیں
جِس کے لئے اس حال کو پُہنچے ، اس کا نام بتائیں
رُوپ نگر کی اک رانی تھی ، اس سے ہُوا لگاؤ
بچو ، اس رانی کی کہانی سُن لو اور سو جاؤ
اُس پر مرنا ، آہیں بھرنا ، رونا ، کُڑھنا ، جلنا
آب و ہوا پر زندہ رہنا ، انگاروں پر چلنا
ہم جنگل جنگل پھرتے تھے اس کے لئے دیوانے
رِشی بنے ، مجنوں کہلائے ، لیکن ہار نہ مانے
برسوں کیا کیا چنے چبائے ، کیا کیا پاپڑ بیلے
لہروں کو ہمراز بنایا ، طُوفانوں سے کھیلے
دفتر بُھولے ، بستر بُھولے ، پینے لگے شراب
پل بھر آنکھ لگے ، تو آئیں اُلٹے سیدھے خواب
نیندمیں کیا کیا دیکھیں ، تڑپیں ، روئیں ، اُٹھ اُٹھ جائیں
سو جانے کی گولی کھائیں ، اِنجیکشن لگوائیں
آخر وہ اک خواب میں آئی سُن کے ہمارا حال
کویل جیسی بات تھی اس کی ، ہرنی جیسی چال
کہنے لگی : کَوی جی ، تیرا حال نہ دیکھا جائے
میں نے کہا کہ رانی اپنی پرجا کو بہلائے
کہنے لگی کہ تو کیا لے گا : سونا ، چاندی ، ہار
میں نے کہا کہ رانی ، تیرے مکھڑے کی تلوار
پھر دِل کے آنگن میں اُترا اس کا سارا رُوپ
اُس چہرے کی شیتل کرنیں ، اس مُکھڑے کی دھوپ
دھوپ پڑی ، تو کُھل گئیں آنکھیں ، کُھل گیا سارا بھید
غَش کھایا ، تو دوڑے آئے مُنشی ، پنڈت ، وید
وُہ دِن ہے اور آج کا دِن ہے چُھٹ گیا کھانا پانی
چُھٹ گیا کھانا پانی ، بچو، ہو گئی ختم کہانی
میری کہانی میں لیکن اِک بھید ہے، اس کو پاؤ
چاند کو دُور ہی دُور سے دیکھو ، چاند کے پاس نہ جاؤ
" نہ اپنے گھر ہی اُس کو بُلاؤ "
مصطفیٰ زیدی
از کتاب : گریباں