مصطفیٰ زیدی نظم : کہانی

غزل قاضی

محفلین
" کہانی "​
بچو ، ہم پر ہنسنے والو ، آؤ تمھیں سمجھائیں​
جِس کے لئے اس حال کو پُہنچے ، اس کا نام بتائیں​
رُوپ نگر کی اک رانی تھی ، اس سے ہُوا لگاؤ​
بچو ، اس رانی کی کہانی سُن لو اور سو جاؤ​
اُس پر مرنا ، آہیں بھرنا ، رونا ، کُڑھنا ، جلنا​
آب و ہوا پر زندہ رہنا ، انگاروں پر چلنا​
ہم جنگل جنگل پھرتے تھے اس کے لئے دیوانے​
رِشی بنے ، مجنوں کہلائے ، لیکن ہار نہ مانے​
برسوں کیا کیا چنے چبائے ، کیا کیا پاپڑ بیلے​
لہروں کو ہمراز بنایا ، طُوفانوں سے کھیلے​
دفتر بُھولے ، بستر بُھولے ، پینے لگے شراب​
پل بھر آنکھ لگے ، تو آئیں اُلٹے سیدھے خواب​
نیندمیں کیا کیا دیکھیں ، تڑپیں ، روئیں ، اُٹھ اُٹھ جائیں​
سو جانے کی گولی کھائیں ، اِنجیکشن لگوائیں​
آخر وہ اک خواب میں آئی سُن کے ہمارا حال​
کویل جیسی بات تھی اس کی ، ہرنی جیسی چال​
کہنے لگی : کَوی جی ، تیرا حال نہ دیکھا جائے​
میں نے کہا کہ رانی اپنی پرجا کو بہلائے​
کہنے لگی کہ تو کیا لے گا : سونا ، چاندی ، ہار​
میں نے کہا کہ رانی ، تیرے مکھڑے کی تلوار​
پھر دِل کے آنگن میں اُترا اس کا سارا رُوپ​
اُس چہرے کی شیتل کرنیں ، اس مُکھڑے کی دھوپ​
دھوپ پڑی ، تو کُھل گئیں آنکھیں ، کُھل گیا سارا بھید​
غَش کھایا ، تو دوڑے آئے مُنشی ، پنڈت ، وید​
وُہ دِن ہے اور آج کا دِن ہے چُھٹ گیا کھانا پانی​
چُھٹ گیا کھانا پانی ، بچو، ہو گئی ختم کہانی​
میری کہانی میں لیکن اِک بھید ہے، اس کو پاؤ​
چاند کو دُور ہی دُور سے دیکھو ، چاند کے پاس نہ جاؤ​
" نہ اپنے گھر ہی اُس کو بُلاؤ "​
مصطفیٰ زیدی​
از کتاب : گریباں​
 

سید زبیر

محفلین
بہت عمدہ انتخاب
میری کہانی میں لیکن اِک بھید ہے، اس کو پاؤ
چاند کو دُور ہی دُور سے دیکھو ، چاند کے پاس نہ جاؤ
" نہ اپنے گھر ہی اُس کو بُلاؤ "
 
Top