اگر یہ شاعر عبدالحمید عدم ہیں تو اس ربط پر جا کر ان کی کتابوں میں یہ نظم تلاش فرمائیں۔السلام علیکم احباب اگر کسی کے پاس مشہور شاعر عبدل الحمید کی نظم اک سارسوں کا قافلہ ہو تو پلیز للیز مجھے اس کا لنک یا وہ نظم ارسال کردیں مہر بانی ہوگی
بہت شکریہ جناب بہت بہت شکریہ لیکن اتنا کچھ تو مجھے بھی یاد ہے بہت پہلے ناں سے سنتی تھی سنیں بھی نہیں پوری یاد میرے خیال سے عبدل الحمید عدم کی ہی ہے کیوں کہ سرچ میں ان کا ہی نام آتا ہے لیکن ان کی بکس میں کہیں مل ہی نہیں رہیاک سارسوں کا قافلہ
شوق وطن دل میں لئے
آزاد سب افکار سے
اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے
واپس تھا گھر کو جا رہا
قسمت کا کرنا دیکھنا
کہ اک شکاری آ گیا
اس نے لیا گھوڑا چڑھا
اک گونج سی پیدا ہوئی
گویا کہیں بجلی گری
آواز تھی بندوق کی
سارس ہراساں ہو گئے
لیکن شکاری کے گلے
دو پر ہی قسمت سے لگے
سارس گئے پرواز کر
سردار نے ان سے کہا
اے سارسو یہ کیا ہوا
سب بچ گئے سب نے کہا
لیکن نہ دی اک نے صدا
وہ پر اسی کا تها گرا
سرتاج نے اس سے کہا
اے جان من آرام جاں
راحت کی دل عصمت کی جاں
کیا کر چلی بے خانماں
کچهہ تو بیان حال کر
فیسبک سے یہ ملی ہے۔ شاعر کا نام بھی معلوم نہیں اور مکمل بھی نہیں ہے۔
میں نے پہلی دفعہ ہی پڑھی اور دیکھی ہے۔ کوئی شاعری کا دیوانہ ہی بتا سکے گا کہ کس کتاب میں ہے یہ۔ انٹرنیٹ پہ صرف یہی میسر ہے جو پیش کر دی ہے۔بہت شکریہ جناب بہت بہت شکریہ لیکن اتنا کچھ تو مجھے بھی یاد ہے بہت پہلے ناں سے سنتی تھی سنیں بھی نہیں پوری یاد میرے خیال سے عبدل الحمید عدم کی ہی ہے کیوں کہ سرچ میں ان کا ہی نام آتا ہے لیکن ان کی بکس میں کہیں مل ہی نہیں رہی
یہ اسی نظم کا حصہ ہے؟قسمت پہ آری چل گئ
بازو مری ذخمی ہوئ
لینا مجھے ورنہ گری
Ji kafi badi nazam ja yeیہ اسی نظم کا حصہ ہے؟
ہمیں لگتا یہ کسی اور شاعر کی تخلیق ہے اور کسی اور نام سے منسوب ہوگی کیوں کہ ان کی کسی بھی کتاب میں یہ نظم نہیں ملیعدم اور نثری نظم؟
بہت خوب داستاں بلکہ ایک ہے لیکن نظم میں کافی فرق ہےکہتے ہیں وہ خزاں کے موسم کو نکلا کرتے تھے
بہار کی تلاش میں وہ دور تک نکلا کرتے تھے
کہتے ہیں سارسوں کا جوڑا جو آسماں کی وسعتوں میں نکلا
زمیں نے سر اٹھا کر ان کی محبت کو بڑھتے دیکھا
کسی گلشن میں اتر کے وہ بیٹھے جو ذرا سستانے کو
پاس ہی کہیں خاموش بیٹھے شکاری کو بھی آہٹ ہوئی
ہوا کے دوش اڑنے والے وہ لمبے خوبصورت پرندے
ذرا سے احساس سے پرواز کو ہوئے وہ تیار پرندے
تیر باز نے جو باندھ کے نشانہ چھوڑی کمان
سارسوں کے جھنڈ میں ہوئی ہلکی سی ہلچل
مادہ لڑکھڑا کے گری جو زخم سے چکرا کر
دیکھا ذراسے قصائی کی ہی دوکان ہی تھی گری وہ
نایاب سا حوبصورت سا پرندہ جو پایا اس نے
زحموں کو صاف کیا اسے پانی دیا اس نے
کہتے ہیں وہ جھنڈ سے دور زحموں سے چور
ادھر نر کا حال بھی عجب اداس بلبل کی مانند
کہتے ہیں حزاں گزار کے وہ جھنڈ لو لوٹ چکے تھے
انہیں میں وہ اکیلا منتظر تھا پھر سے پتوں کے جھڑنے کا
خزاں رسیدہ وہ بہار کی قیدی سارس
تو بہار میں وہ حزاں کا منتظر سارس
دن اسی میں گزرے شب یادوں کے بسیرے میں
سوکھے کے موسم نے گھیرا پھر سے جھنڈ کو
ہر سال کی طرح وہ جھنڈ پھر سے پرواز کو نکلا
پہرے پہ اس کے وہ سارس بھی کسی امید پہ نکلا
کہتے ہیں ادھر قصائی کی وہ روتی مادہ
آسماں کو دیکھتی ہو خاموش بیٹھی مادہ
ادھر قافلہ وادی وادی اڑتا بہار کے دامن میں جا اترا
ادھر قیدی نے بھی ہوا میں بدلاو سا پایا
من مائل دل مائل روح مائل وہ سبب سبھی یکجا ہوئے
قصائی نے جو دیکھا آسماں کی طرف خاموش کھڑا سارس
کہتے ہیں وہ خاموشی بھی ظاہر میں تھی
چلا کر مگر وہ آسماں کو ہلا رہی تھی
کہتے ہیں ادھر سارس نے بچوں کو پاس بلاکر کہا
سفر کو نکلنے لگا ہوں لوٹا تو ماں کو لیتا آؤں گا
کہتے ہیں اس نے پرواز کو جو اڑان بھری
الودا ع کرنے کو جھنڈ موجود تھا سارے کا سارا
ہوا میں بدلتی خوشبو نے بدلی تھی وہیں مادہ بھی
وہیں لذیذ پکوان نے للچا دیا تھا قصائی بھی
کہتے ہیں ایک دن سارس کی وہ مادہ آسمان کو پکار رہی تھی
کہ عرش گل نے اگل دیا وہ جنموں کا ساتھی اس کا
کہتے ہیں قصائی ورطہ حیرت تھا کہ سارس ہر چھوڑے آگرا
چند لمحوں کو وہ دنیا سے کٹ کر خود میں کھو کر رہ گئے
ہوش آیا تھا شکاری ایک اور دیکھا سر پہ کھڑا ہوا
دو تین قدموں کا سفر اور پھر سے دوری کا سفر
ایک پر سے معذور وہ مادہ لیکن سر پہ کھڑی موت
اڑنے کو بیتاب وہ سارس لیکن نشانے لیتی موت
کہتے ہیں پھر آسماں نے عجب نظارہ دیکھا
ایک پر سارس کے مادہ کے ساتھ ملا کر اڑان بھری
کہتے ہیں ایک پر اس کا تھا ایک پر اس کا تھا
حیران سا پریشان سا شکاری بھی دیکھتا رہ گیا
وہ ازل کے ساتھی وہ ابد کے ساتھی
آسماں کی وسعتوں کو نکلے وہ پرانے ساتھی ۔۔۔!
بہت تلاشا لیکن کچھ بھی پتا نہیں چلا اس نظم کامیں نے پہلی دفعہ ہی پڑھی اور دیکھی ہے۔ کوئی شاعری کا دیوانہ ہی بتا سکے گا کہ کس کتاب میں ہے یہ۔ انٹرنیٹ پہ صرف یہی میسر ہے جو پیش کر دی ہے۔
فرقام بھیا نے پیش کر تو دی ہے۔ یہ وہی نہیں ہے؟بہت تماشا لیکن کچھ بھی پتا نہیں چلا اس نظم کا
یہ نظم بہت اچھی ہے لیکن یہ وہ نے نہیں جس کی تلاش ہےہمیں بھی تصویری شکل میں مل گئی۔
نہیں دونوں میں کافی فرق ہےفرقام بھیا نے پیش کر تو دی ہے۔ یہ وہی نہیں ہے؟