You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
نظم کی کھوج مدد کرین احباب
نہیں دونوں میں کافی فرق ہے
اک سارسوں کا قافلہ اڑتا ہوا افلاک میں
یہ والی چاہےءتھی
یہ تو میرے خیال سے انٹرنیٹ سے مشکل ہی مل سکے۔ ہاں اگر کسی دوست کو درست کتاب کا علم ہو تو ہی ممکن ہے۔
یہ تو میرے خیال سے انٹرنیٹ سے مشکل ہی مل سکے۔ ہاں اگر کسی دوست کو درست کتاب کا علم ہو تو ہی ممکن ہے۔
تمام تر کوششیں ناکام ہوگئیں
السلام علیکم احباب اگر کسی کے پاس مشہور شاعر عبدل الحمید کی نظم اک سارسوں کا قافلہ ہو تو پلیز للیز مجھے اس کا لنک یا وہ نظم ارسال کردیں مہر بانی ہوگی
اک سارسوں کا قافلہ
شوق وطن دل میں لیے۔
آزاد سب افکار سے
اٹھکیلیاں کرتا ہوا
واپس تھا گھر کو جا رہا
قسمت کا لکھا دیکھئے
کوئی شکاری آگیا
اس نے دیا گھوڑا دبا
اک گونج سی پیدا ہوئی
آواز تھی بندق کی
گویا کہیں بجلی گری
سارس حراساں ہو گئے
تھے اس شکاری کے مگر
دو پر ہی قسمت میں لکھے
سارس گئے پرواز کر
سردار نے ان سے کہا
اے سارسو یہ کیا ہوا
سب بچ گئے سب نے کہا
پر ایک بولی اف مری
دو پر اسی کے تھے گرے
دیکھاجو ایسا ماجرا
سرتاج نے اس سے کہا
اے جان من آرام جان
راحت دل عصمت جاں
کیوں کر چکی بے خانماں
کچھ تو بیاں تو حال کر
اک آہ لی اور یوں کہا۔
بازو میرا زخمی ہوا
جانم فدا قرباں گئی
قسمت کی آری چل گئی
حالت میری ابتر ہوئی
لینا مجھے ورنہ گری
اچھا نہ میرا غم کرو
مجھ کو خدا پر چھوڑ دو
بچوں کی ہاں لینا خبر
آہ سارس نے کہا۔
تجھ سے الگ جیتا رہوں
کی عمر تو باہم بسر
کیا اب اکیلا چھوڑ دوں
آتش فرقت میں جلوں
صدمے جدائی کے سہوں
مجھ سے تو یہ ہوتا نہیں
بے دل بھی جیتا ہے کہیں
بچے سنبھالے گا خدا
مجھ سے نہ یوں دامن چھڑا
بہرے خدا ہاں مان جا
جاوں کہاں تو ہی بتا
تجھ کو اکیلا چھوڑ کر
بولی یہ نہ ہوگا کبھی۔
ہونی تھی جو وہ ہوچکی
تیرے کہے پے کب ٹلی
پھر مفت میں کیوں جان دو
قربان جاوں مان لو
تم کو میرے سر کی قسم
آپس میں الفت کی قسم
ہاں پیارے بچوں کی قسم
تم کو تمہاری ہی قسم
تم جاو گھر کو لوٹ کر
لازم ہے بچوں کی خبر
اتنا کہا اور گر پڑی
بے پر کے جیسے تیتری
کملئی سی یا اک کلی
یا یوں کہو کوئی پری
راندھی ہو دربار کی
پر نوچ کرپھینکی گئی
یا شب کو جیسے چاندنی
چپ کے زمیں پر آگرے
طاقت نہ اٹھنے کی رہے
جیسے وہیں کی ہو رہے
ایسے ہی وہ سارس کی جاں
آخر وہیں کی ہو رہی
خاموش بے آہ و فغاں
کوئی نہ تھا اس کا وہاں
اتری نہ جانے تھی کہاں
گو وہ تھا اک جوگی کا گھر
جوگی جوہر جپنے لگا
دیکھا جو کچھ گرتے ہوئے
پھر دل بڑھا آگے بڑھا
آئی نظر وہ نیم جاں
بولا وہ اف۔ شان خدا
چھوٹا ہے اس سے کارواں
یا گم گیا ہے آشیاں
لیکن میری ہے میہماں
پھر پیار سے لیا اٹھا
سینے لگا کر یوں کہا
سب کو خدا کا آسرا
دل کو ہے دل سے واسطا
لیکن یہ رشتہ چاہ کا
انسان ہو یا جانور
رکھتا ہے جادو کا اثر
دونوں میں الفت ہو گئی
جوگی کے گھر رہنے لگی
کی لاکھ جوگی نے دوا
لیکن نہ ٹوٹا پر بنا
آخر سہارا صبر کا
اس کے سوا چارہ تھا کیا
اڑنے سے وہ مایوس تھی۔
لیکن تھی اک تسکیں ابھی
شاید پرانا قافلہ
موسم میں آئے لوٹ کر
گو عیش تھا آرام تھا
کھانے کو سب کچھ عام تھا
صیاد کا کچھ ڈر نہ تھا
پر کونج کے دل کی کلی
مرجھا گئی کملا گئی
آنکھوں سے اشکوں کی جھڑی
اس کے صدا جاری رہی
ظاہر میں وہ خاموش تھی
دل میں مگر کہتی رہی
اے خالق ہر دو جہاں
اے مالک کون مکاں
ہوگی بسر کیسے یہاں
آقا میرے مولا میرے
دے پنکھ اور دلبر میرا
وہ دن میرے پھر پھیر دے
وہ شادیان وہ مشغلے
جاوں میں گھر کو لوٹ کر
ایسے ہی مدت ہوگئی
رت بھی بدلنے کو ہوئی
لیکن کڑی وہ جان کی
کمبخت وہ جیتی رہی
شاید ابھی تک آس تھی
جب بھی پہاڑی جانور
اسکو کوئی آتا نظر
کہتی وہ فورا چیخ کر
اے اونچے اڑتے طائرو
تم خوش بسو جیتے رہو
اے جانے والے سارسو
نامے خدا مجھ سے کہو
کچھ دو میرے گھر کی خبر
اک روز پھر اک قافلہ
دیکھا کہیں جاتا ہوا
چلا کہ اس نے دی صدا
ایسے کے ہل جائے زمیں
اے طائران خوش مکیں
تم میں تو میرا دل نہیں
یا تم نے دیکھا ہو کہیں
دیتا نہیں کوئی خبر
کہنا کہیں پاو اگر
وہ خستہ تن وہ نیم جاں
جسکے ہو دل میں تم نہاں
پامال ہے مثل خزاں
روتی ہے از شب تا سحر
مدت سے ہے وہ منتظر
یہ سنتے ہی وہ قافلہ
چکر وہیں لینے لگا
ان میں سے اک سارس ہٹا
پہلے رہا کچھ سوچتا
پھر جانے آئی دل میں کیا
اڑتا ہوا گرتا ہوا
قدموں میں اس کے جا پڑا
بولا میری قسمت پھری
مجھ سے میری دلبر ملی
یہ کہہ کے آپس میں گلے
ایسے ملے ایسے ملے
گویا کہ دونوں ایک تھے
چینی کے جیسے بت ہوئے
پتھر کے یا کوئی کہے
گھنٹوں یہی حالت رہی
حرکت نہ تھی جنبش نہ تھی
جوگی کھڑا حیران تھا
انکو الگ کرنے لگا
دیکھا تو ہیں اک مشت پر