محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
آئی جب اُن کی یاد تو آتی چلی گئی
ہر نقشِ ما سوا کو مٹاتی چلی گئی
ہر منظرِ جمال دکھاتی چلی گئی
جیسے اُنہیں کو سامنے لاتی چلی گئی
ہر واقعہ قریب تر آتا چلا گیا
ہر شے حسین تر نظر آتی چلی گئی
ویرانۂ حیات کے ایک ایک گوشہ میں
جوگن کوئی ستار بجاتی چلی گئی
دل پھنک رہا تھا آتشِ ضبطِ فراق سے
دیپک کو میگھہار بناتی چلی گئی
بے حرف و بے حکایت و بے ساز و بے صدا
رگ رگ میں نغمہ بن کے سماتی چلی گئی
جتنا ہی کچھ سکون سا آتا چلا گیا
اتنا ہی بے قرار بناتی چلی گئی
کیفیتوں کو ہوش سا آتا چلا گیا
بے کیفیوں کو نیند سی آتی چلی گئی
کیا کیا نہ حُسنِ یار سے شکوے تھے عشق کو
کیا کیا نہ شرمسار بناتی چلی گئی
تفريقِ حسن و عشق کا جھگڑا نہیں رہا
تمئیزِ قرب و بُعد مٹاتی چلی گئی
میں تشنہ کامِ شوق تھا، پیتا چلا گیا
وہ مست انکھڑیوں سے پلاتی چلی گئی
اک حُسنِ بے جہت کی فضائے بسیط میں
اُڑتی گئی، مجھے بھی اُڑاتی چلی گئی
پھر میں ہوں اور عشق کی بے تابیاں جگر
اچھا ہوا، وہ نیند کی ماتی چلی گئی
ہر نقشِ ما سوا کو مٹاتی چلی گئی
ہر منظرِ جمال دکھاتی چلی گئی
جیسے اُنہیں کو سامنے لاتی چلی گئی
ہر واقعہ قریب تر آتا چلا گیا
ہر شے حسین تر نظر آتی چلی گئی
ویرانۂ حیات کے ایک ایک گوشہ میں
جوگن کوئی ستار بجاتی چلی گئی
دل پھنک رہا تھا آتشِ ضبطِ فراق سے
دیپک کو میگھہار بناتی چلی گئی
بے حرف و بے حکایت و بے ساز و بے صدا
رگ رگ میں نغمہ بن کے سماتی چلی گئی
جتنا ہی کچھ سکون سا آتا چلا گیا
اتنا ہی بے قرار بناتی چلی گئی
کیفیتوں کو ہوش سا آتا چلا گیا
بے کیفیوں کو نیند سی آتی چلی گئی
کیا کیا نہ حُسنِ یار سے شکوے تھے عشق کو
کیا کیا نہ شرمسار بناتی چلی گئی
تفريقِ حسن و عشق کا جھگڑا نہیں رہا
تمئیزِ قرب و بُعد مٹاتی چلی گئی
میں تشنہ کامِ شوق تھا، پیتا چلا گیا
وہ مست انکھڑیوں سے پلاتی چلی گئی
اک حُسنِ بے جہت کی فضائے بسیط میں
اُڑتی گئی، مجھے بھی اُڑاتی چلی گئی
پھر میں ہوں اور عشق کی بے تابیاں جگر
اچھا ہوا، وہ نیند کی ماتی چلی گئی