زنیرہ عقیل
محفلین
تخیل کو بہلاتی ہے
یاد جب ان کی آتی ہے
بلک بلک کے روتی ہوں
اور کبھی نہ سوتی ہوں
جانے کب پتھرائی آنکھیں
ہو جاتی ہیں ویراں سی
انجانے میں دوڑی تھی
سارے بندھن توڑے تھے
قسمت کے آگے دو زانوں
ہو کر ہاتھ بھی جوڑے تھے
اک سراب کے پیچھے میں
پاگل ہو کر دوڑی تھی
راہ ِمحبت میں جب بھی
کوئی بندہ کھوتا ہے
اکثر ایسا ہوتا ہے
تنہائی کا درد بھی اسکو
اکثر سہنا پڑتا ہے
قسمت سے وہ لڑتا ہے
یادوں کو اشکوں سے دھو کر
اک تالاب کنارے "گل"
کاغذ کی کشتی بنا کر
پانی میں ڈبوتی ہوں
اپنی اس تقدیر کا خاکہ
یوں بنا کر روتی ہوں
آنسوؤں کے موتی اکثر
پلکوں میں پروتی ہوں
"زنیرہ گل"
یاد جب ان کی آتی ہے
بلک بلک کے روتی ہوں
اور کبھی نہ سوتی ہوں
جانے کب پتھرائی آنکھیں
ہو جاتی ہیں ویراں سی
انجانے میں دوڑی تھی
سارے بندھن توڑے تھے
قسمت کے آگے دو زانوں
ہو کر ہاتھ بھی جوڑے تھے
اک سراب کے پیچھے میں
پاگل ہو کر دوڑی تھی
راہ ِمحبت میں جب بھی
کوئی بندہ کھوتا ہے
اکثر ایسا ہوتا ہے
تنہائی کا درد بھی اسکو
اکثر سہنا پڑتا ہے
قسمت سے وہ لڑتا ہے
یادوں کو اشکوں سے دھو کر
اک تالاب کنارے "گل"
کاغذ کی کشتی بنا کر
پانی میں ڈبوتی ہوں
اپنی اس تقدیر کا خاکہ
یوں بنا کر روتی ہوں
آنسوؤں کے موتی اکثر
پلکوں میں پروتی ہوں
"زنیرہ گل"