بہت بہت شکریہ وارث بھائی۔ اللہ آپ کو خوش رکھے اور جزائے خیر عطا فرمائے۔
دوسری سطر میں رواشگ ٹن میں ر کے متحرک ہوجانے کی بات سمجھ نہیں آئی۔ یہ کس اصول کے تحت ہے؟
حجازی صاحب میں اس کی عروضی وجہ لکھتا ہوں۔ دراصل یہ عیب ہے علمِ عروض کا جب وہ عربی سے فارسی اور اردو میں منتقل ہوا۔ عربی میں کسی بھی لفظ کا آخری حرف متحرک ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے، مثلاً اسی لفظ 'سردار' کو لیجیئے ، لفظ تو یہ فارسی کا ہے، لیکن فرض کر لیتے ہیں کہ کسی عربی شاعر نے عربی نظم میں اس کو باندھا ہے، تو ہو سکتا ہے وہ اس کو آخری رے کے اوپر زبر، یا نیچے زیر یا تنوین استعمال کرتا، سردارَ یا سردارِ یا سردارّوغیرہ وغیرہ، جو کہ عربی میں ہوتا ہے تو اسطرح رے متحرک ہوتا اور مفاعیلن کی پہلی متحرک میم کے مقابل ہوتا۔
لیکن فارسی اور اردو میں لفظ کا آخری حرف متحرک نہیں بلکہ ساکن ہوتا ہے تو پھر؟ اسطرح تو عربی عروض استعمال کر کے فارسی اور اردو کے شاعر ایک مصرع بھی نہ کہہ سکتے۔
یہ نقص علمِ عروض کے ماہرین کے سامنے آیا تو انہوں نے اسکا ایک سوچا، اور وہ یہ کہ متحرک اور ساکن کی تعریف پر دوبارہ غور کیا جائے، سو انہوں نے متحرک اور ساکن کی تعریف ہی بدل دی، اب علمِ عروض میں عروضیوں کے نزدیک
۔ ساکن حرف وہ ہے جو کسی متحرک حرف کے ساتھ جڑا ہو اور اس پر حرکت نہ ہو (اور یہ عام تعریف ہے) جیسے سردار میں پہلی رے ساکن ہے کہ سین متحرک کے ساتھ جڑی ہے اور اس پر کوئی حرکت نہیں۔ اسی طرح الف ساکن ہے۔
۔ متحرک حرف وہ حرف ہے جس پر کوئی حرکت ہو یا وہ کسی ساکن کے ساتھ جڑا ہو چاہے اس پر حرکت ہو یا نہ ہو (اور یہاں عروضیوں نے عام تعریف میں تبدیلی کر دی)، مثلاً سردار میں سین متحرک ہے کہ اس پر زبر کی حرکت ہے، دال متحرک ہے کہ اس پر بھی زبر کی حرکت ہے، رہا مسئلہ آخری رے کا تو اس تعریف کے مطابق وہ بھی متحرک ہے کہ ساکن الف کے ساتھ جڑا ہے۔
سو ساری دنیا کو 'سردار' میں آخری رے ساکن نظر آئے گی لیکن عروضیوں اور شاعروں کیلیے یہ متحرک ہے، اور بیچارے کریں بھی کیا، اس کو بھی ساکن مان لیں تو شاعری اور تقطیع کیسے کریں۔
سو اس نقص کو قبول کیا گیا اور یہی عیب ہے متحرک اور ساکن کے نظام کا جو ایک دوسری زبان (عربی) کا نظام بعینہ ہی قبول کرنے سے دو زبانوں (فارسی اور اردو) میں آیا۔
اس کا حل مستشریقین نے سوچا
اور ساکن اور متحرک کی جگہ علامتوں کے قانون بنائے جس میں یہ جھنجھٹ ہی ختم ہو گیا۔
آپ ہجائے کوتاہ یعنی وہ حرف جو اکیلا ہو چاہے متحرک ہو یا ساکن کو مثلاً 1 سمجھیں اور ہجائے بلند یعنی دو حرفوں کو جو کسی حرکت سے آپس میں جڑے ہوں کو 2 سمجھیں اور اس نظام پر تقطیع کریں تو ساکن و متحرک کا مسئلہ ختم ہو جائے گا مثلاً
مفاعیلن کو علامتوں میں (اور یہ کوئی بھی ہو سکتی ہیں مجھے 1 اور 2 پسند ہیں) لکھیں تو یہ اصل میں مَ فا عی لُن ہے یعنی 1 2 2 2 اب اس کے مطابق تقطیع کریں اور یہ پہلے لکھا کہ ہجائے کوتاہ 1 کیلیے ضروری نہیں کہ وہ ساکن ہو یا متحرک بس ایک اکیلا حرف ہو۔
بڑے سردار واشنگٹن نے اپنی راج دھانی سے مجھے سندیس بھیجا ہے
بَ ڑے سر دا - 1 2 2 2 - مفاعیلن
ر وا شگ ٹن - 1 2 2 2 - مفاعیلن (نون غنہ محسوب نہیں ہوگا)
نِ اپ نی را - 1 2 2 2 - مفاعیلن (نے کی یے گرائی گئی)
ج دا نی سے - 1 2 2 2 - مفاعیلن (دو چشمی ھ محسوب نہیں ہوتی)
مُ جے سن دے - 1 2 2 2 - مفاعیلن
س بے جا ہے - 1 2 2 2 - مفاعیلن
سو اس نظام نے متحرک اور ساکن کا مسئلہ پاک کر دیا، یہ آسان بھی ہے اور مشینی تقطیع کی اساس بھی۔
والسلام