ڈاکٹر مشاہد رضوی
لائبریرین
نظیر اکبرآبادی -عوامی مقبولیت کے پسندیدہ شاعر
٭ ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی مالیگاؤں
نظیر اکبرآبادی :مختصرحالاتِ زندگی
نظیرؔ اکبرآبادی کا پورا نام ولی محمد تھا۔ اکبرآباد کے ایک شریف گھرانے میں نظیر اکبرآبادی کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان کے والد سیّد محمد فاروق عظیم آباد کے نواب کے مصاحبین میں شمار کئے جاتے تھے۔ باضابطہ کوئی تعلیم حاصل نہیں کی۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، کوئی ملازمت نہیں کی۔ باپ دادا کی دولت موجود تھی۔ البتہ محلہ کے بچوں کو پڑھا کر زندگی گذارتے تھے۔ کچھ روز کے لئے متھرا گئے تو وہاں کے مرہٹہ قلعہ دار نے انھیں اپنا استاد مقرر کیا۔ دوبارہ آگرہ آئے تو محمد علی خاں کے لڑکوں کو درس دینے لگے۔ اسی دوران کھتری سے ملاقات ہوئی۔ رائے کھتری سے ملاقات ہوئی۔ رائے کھتری نے اپنے بچوں کی تربیت میاں نظیر کے سپرد کر دی۔ آخری عمر میں نظیرؔ کا تعلق کاشی کے سربراہ راجہ بلوان سنگھ کی سرکار سے ہوگیا تھا۔ اپنے خاندان اور ماحول کی وجہ سے نظیر نے سپہ گری کے فن میں کمال حاصل کیا تھا۔ فارسی اور عربی جانتے تھے۔ ہندی، پنجابی اور سنسکرت پر عبور حاصل تھا۔ عوام میں اٹھنا بیٹھنا تھا۔ زبان کے عوامی لہجے سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ ایک قلندر مزاج آزاد منش انسان تھے۔ اس کا اندازہ ان کی شاعری سے بھی ہوتا ہے۔ نظیر کے والد سنی تھے لیکن وہ امامیہ مذہب کے قائل تھے۔ عبادتوں کی ادائیگی معمولی طور پر کرتے تھے۔ البتہ تعزیہ داری کے اہتمام پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ ادھیڑ عمر میں ظہورالنساء بیگم بنت عبدالرحمٰن چغتائی سے شادی کی۔ آخری عمر میں گوشہ نشینی اختیار کی۔ نظیر کو اولادیں بھی ہوئیں۔ ۱۸۲۷ء میں فالج کے مرض میں مبتلا ہوئے ۹۸ سال کی عمر میں ۲۵؍ صفر ۱۲۴۶ھ بمطابق ۱۶؍ اگست ۱۸۳۰ء کو انتقال کیا۔ نماز جنازہ دو مرتبہ سنی اور امامیہ طریقے سے پڑھائی گئی۔ البتہ تجہیز و تکفین امامیہ طریقہ پر ہوئی۔ ان ہی کے مکان میں موجود نیم کے درخت کے نیچے دفن کئے گئے۔ نظیرؔ کے مزاج کی شوخی، بانکپن، کھیل کود اور میلے ٹھیلوں کے شوق اور تجربے کے اظہار کے لئے نظم ہی ان کو راس آئی۔ ان کا مشاہدہ دنیاوی معاملات کے ساتھ ساتھ زندگی کے پیچ و خم کے متعلق بھی بہت گہرا تھا۔ نظم کی آزادی ان کی آزاد روش سے بڑی مطابقت رکھتی تھی۔ اس لئے وہ نظم نگاری کی طرف مائل ہوئے اور ہر چھوٹے بڑے موضوع پر نظمیں لکھیں۔
نظیر اکبرآبادی :عوامی مقبولیت کے پسندیدہ شاعر
اردو کے قدیم شاعروں میں نظیرؔ اکبرآبادی کو جو انفرادی مقام حاصل ہے وہ شاید ہی ان کے دور کے کسی دوسرے شاعر کو ملا ہو ۔ نظیرؔ اردو کے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اپنے عہد کی عام شاعرانہ روش سے ہٹ کر اپنا جداگانہ راستہ منتخب کیا اور اس میں بے طرح کام یاب و کامران بھی رہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں عوامی رنگ اور سماج کے دبے کچلے اور نچلے طبقہ کے لوگوں کی زندگی کے مسائل کو تلاش کرکے پیش کیا ۔ انھوں نے اپنے کلام میں سماجی ، اخلاقی، اصلاحی اور تہذیبی مضامین و موضوعات کا احاطہ کیا ۔ انھوں نے اپنی شاعری کا خاص موضوع عوا م اور عوامی زندگی کو بنایا ۔ ان کی شاعری میں ہندی و ہندوستانی عناصر کی جھلکیاں حددرجہ نمایاں ہیں ۔ نظیرؔ کی شاعری میں ہندوستانیت کے اسی گہرے رچاو نے انھیں عوامی مقبولیت کا تاج پہنایا۔
بعض ناقدین کا خیا ل ہے کہ نظیرؔ جدید نظم کے بنیاد گزار ہیں۔ نظم نگاری میں نظیرؔ نے ممتاز مقام حاصل کیا ۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کے یہاں غزلیں بھی موجود ہیں لیکن یہ غزلیں بھی موضوعاتی ہیں۔ غزل کے تمام اشعار میں نظیرؔ نے ایک ہی مضمون کو بیان کیا ہے۔ ان کی غزلوں میں بھی نظم کا مزہ ملتا ہے۔ حالیؔ اور آزادؔ نے جس جدید نظم کی تحریک چلائی اس کی بنیادنظیرؔ نے بہت پہلے ہی رکھ دی تھی۔ اردو ادب کے اولین نقادوں نے نظیرؔ کی شاعری کو اہمیت نہیں دی۔ حتیٰ کہ شیفتہؔ جیسے صاحبِ نظر ادیب و شاعر نے نظیرؔ کی عوامی زبان اورلب و لہجے پر سوقیانہ پن کاا لزام لگاکر انھیں دنیاے شاعری سے شہر بدر کردیااور محمد حسین آزادؔ نے ان کا ذکر بھی نہیں کیا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کے ناقدین انھیں نظم نگاری کا امام تصور کرتے ہیں۔
نظیرؔ کے دور میں غزل گوئی کا رجحان غالب تھا۔ شاعری عشق و محبت، عشوہ و غمزہ، ناز و ادا، وفا و جفا، رخسار و قد، گل و بلبل، نالہ و فریاد، شراب و کباب جیسے موضوعات کے گرد گردش کررہی تھی۔ نظیرؔ ہی وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اس طرزِ شاعری سے ہٹ کر اپنی جداگانہ راہ ڈھونڈ نکالی اور نظم نگاری کی طرف اپنے اشہبِ قلم کو موڑا۔ اپنی شاعری کا موضوع عوامی زندگی کے مسائل اور ہندوستانی رسم و رواج اور ان کے جِلو میں فروغ پانے والے بے جا تصورات کو بنایا۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ہندوستانی سماج کی اصلاح کی کوشش کی ۔
نظیرؔ کی پیدایش دہلی میں ہوئی۔ ان کے والد کانام فاروق تھا۔ ان کی پرورش و پرداخت بڑے لاڈ پیار سے ہوئی۔ جب نظیرؔ نے آنکھ کھولی تو دہلی طرح طرح کے مصائب و آلام کا شکار تھی۔ دہلی ایک پُرآشوب دور سے گذررہی تھی۔ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے پے در پے حملوں کی وجہ سے دہلی بالکل تباہ و برباد ہوچکی تھی۔ یہاں کے باشندے دوسرے محفوظ علاقوں میں اپنی جان کی حفاظت کے لیے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ نظیرؔ اکبرآبادی کی والدہ بھی اس دورِ ابتلا و آزمایش سے تنگ آکر آگرہ کوچ کرگئیں ۔ جہاں نظیرؔ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔
آگرہ میں نظیرؔ نے اپنا بچپن ، لڑکپن اور جوانی بڑے ہی ناز و نعم سے بسر کی ۔ وہ دنیا کی ہر فکر سے بے نیاز اپنے زمانے کی جملہ تفریحات میں دل کھول کر حصہ لیتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بچپن کے کھیل تماشوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ پتنگ بازی ، کبوتر بازی، بٹیر بازی، کبڈی ،شطرنج ، وغیرہ کھیل تماشوں سے ان کی شاعری بھری پڑی ہے۔
نظیر کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ وہ بچپن ہی سے بے حد ذہین تھے۔ اردو اور فارسی میں انھیں دسترس تھی۔ ساتھ ہی انھوں نے عربی ، پوربی ، ہندی، پنجابی اور مارواڑی جیسی زبانوںمیں بھی ادیبانہ مہارت حاصل کرلی تھی۔ وہ بہترین خوش نویس تھے۔ درس و تدریس کے میدان کے بھی شہ سوار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کتابوں میں ان کے کئی نام ور شاگردوں کے نام ملتے ہیں ۔ بعض ناقدین انھیں غالبؔ کے اساتذہ میں شمار کرتے ہیں۔
نظیر ؔ کا مسلک تصوف تھا۔ وہ صوفی منش آدمی تھے۔ صوفیہ کے نظیریۂ وحدۃ الوجود کے قائل تھے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابۂ کرام ،اہل بیت اطہار، اولیاے کرام اور بزرگانِ دین سے عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری کونعتیہ کلام سے بھی آراستہ کیا ان کی نعتوں میں ایک خوش گوار کشش اور احترام و ادب ملتا ہے۔ چند اشعار بہ طورِ نمونہ ؎
تم شہِ دنیا و دیں ہو یا محمد مصطفیٰ
سر گروہ مرسلیں ہو یا محمد مصطفیٰ
حاکمِ دینِ متیں ہو یا محمد مصطفیٰ
قبلہِ اہلِ یقیں ہو یا محمد مصطفیٰ
رحمۃ للعالمیں ہو یا محمد مصطفیٰ
ہیں جو یہ دونوں جہاںکی آفرینش کے چمن
جس میں کیا کیا کچھ عیاں ہیں صنعِ خالق کے چمن
باعثِ خلق ان کے ہو تم یا حبیبِ ذوالمنن
اوراک مطلع پڑھوں میںیمن سے جسکے سخن
سو سعادت کے قریں ہو یا محمد مصطفیٰ
مخبرِ صادق ہو تم یا حضرتِ خیر الورا
سرورِ ہر دوسرا اور شافعِ روزِ جزا
ہے تمہاری ذاتِ والا منبعِ جود و سخا
کیا نظیرؔ اک ، اور بھی سب کی مدد کا آسرا
یاں بھی تم واں بھی تمہیں ہو یا محمد مصطفیٰ
نظیرؔ بڑے خوش اخلاق اور اچھی عادات و اطوار حامل شخص تھے۔ ان کے مزاج میں تکدر نہ تھا۔وہ دوراندیش ، خوددار اور استغنا جیسی صفات سے متصف تھے۔ زندگی بھر کسی کے دست نگر نہ رہے۔ محنت و مشقت کے عادی تھے۔
نظیرؔ اردو زبان کے وہ عظیم شاعر ہیں جن کانام اردو شاعری کی تاریخ میں جلی حرفوں سے لکھا جارہا ہے۔ نظیرؔ فطری شاعر تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعر ی میں فطری عناصر کی جلوہ ریزیاں ہیں ۔ روز مرہ مناظر قدرت ، عوامی زندگی ، سماج کے دبے کچلے لوگوں کے مسائل اور ان کا حل ، ہندوستانی موسم اور تہوار اور ہندوستانی معاشرے کے رسم و رواج کی گہری چھاپ ان کی شاعری میں رچی بسی ہوئی ہے۔ یہاں کے میلوں ، ٹھیلوں اور تہواروں کو اپنے مخصوص لب و لہجے اور طرزِ نگارش میں نظیرؔ نے جس خوش اسلوبی اور رنگارنگی سے پیش کیا ہے وہ انھیں کا حصہ ہے۔
دیوالی، ہولی، عید ، شبِ برات، بسنت ، راکھی، تیراکی، سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا عرس، وغیرہ تقریبات کا بیان بڑے پُرلطف اور دل چسپ انداز میں کیا ہے۔ برسات کا تذکرہ ، جاڑے کی بہاریں اور دوسرے موسموں کا ذکر بھی نظیرؔ نے دل کو موہ لینے والے پیرایے میں کیا ہے۔ ان کے یہاں تصویریت کے حُسن اور منظر کشی کے جمال کا رچاو بڑی گہرائی سے ملتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں مناظر قدرت کی جو امیجری ابھاری ہے اور پیکریت کا جو انداز اپنایا ہے وہ قابل دید ہے۔ شاعری سے انھوں نے مصوری کا جو کام لیا ہے عہد جدید کے شعرا اس کے پاسنگ برابر بھی نہیں ہوسکتے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری جدید شاعری کی خوبیوں سے ہم رشتہ ہوگئی ہے۔ نظیرؔ کی شاعری کا محور زندگی اور زندگی کے حادثات و واقعات ہیں۔ برسات کی بہاریں نظم میں انھوں نے اپنی قوتِ متخیلہ کو بروے کار لاتے ہوئے برسات میں ہونے والے ہر عمل اور منظر کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ گویا انھوں نے لفظوں سے برسات کے موسم کی ایک دل کش اور خوش نما تصویر اتاردی ہے۔ اس نظم میں انھوں نے کھیتوں میں سبزہ اور ہریالی، پھول پتے، کانٹے ، بدلیاں ، پھوار ، تیتر ، بٹیر ، فاختہ ، قمریاں ، پپیہے ، بگلے وغیرہ کا ذکر شاعرانہ فن کاری سے کیا ہے۔ اس نظم کو فن کے لحاظ سے ایک شاہ کار نظم کا درجہ دیا گیا ہے۔
نظیرؔ کی کئی نظموں میں ظرافت اور طنز و نشتریت کے کاٹ دار وار بھی ملتے ہیں ۔ حقائق و معارف ، مسائل تصوف ، وحدۃ الوجود ، اخلاقیات ، پند و نصائح وغیرہ موضوعات بھی ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں ۔کلیاتِ نظیرؔ میں غزلیں بھی ہیں ، بعض نظمیں بڑی طویل ہیں جن کے مطالعہ سے مثنوی کا گمان گذرتا ہے۔ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی کرامات، خیبر کی لڑائی، لیلیٰ مجنوں ، فاختہ وغیرہ نظمیں مثنوی کی خصوصیات سے ہم آہنگ طویل نظمیں ہیں۔ نظیرؔ نے اپنی نظموں کے حوالے سے اخلاقی موضوعات کا احاطہ بھی کیا، مذہب، دنیا ، مکافاتِ عمل ، خوابِ غفلت وغیرہ نظمیں اخلاقیات پر عمدہ اور نفیس نظمیں ہیں۔
’’بنجارہ نامہ‘‘ نظیرؔ کی مشہور ترین نظم ہے۔ اس نظم میں انھوں نے بنجارہ کو تمثیل بناکر دنیا کی بے ثباتی و ناپائداری کو نہایت سادگی ، سلاست و روانی سے پیش کیا ہے ۔ دنیا کی رنگینی ، مال و متاع، دولت و ثروت ، جاہ و حشم ، عزت و شوکت ، ٹھاٹ باٹ اور اپنے پراے سب کچھ فانی ہیں ، یہ سب چیزیں دنیا میں رہنے والی نہیں ہیں۔ ’’بنجارہ نامہ‘‘ بہ ظوہر ایک عام سی نظم ہے لیکن اس میں نظیرؔ کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ موجود ہے۔ تصوف و معرفت کی ریاضتوں کا اظہاریہ بھی اس نظم کی زیریں رَو میں پنہاں دکھائی دیتا ہے ۔ نظیرؔنے اپنی اس نظم میں دنیا کی بے ثباتی کے بیان کا جو طرز اپنایا ہے وہ بڑا ہی عمدہ ہے ؎
ٹک حرص و ہوس کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے د ن رات بجا کرنقارا
کیا بِدھیا بینسا بیل شتر کیا گوئیں پِلّا سر بھارا
کیا گیہوں چاول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں کیا انگارا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
دنیا کی شان و شوکت ، جاہ و منصب ، دولت و ثروت یہ سب اسی وقت تک ہیں جب تک کہ سانس چل رہی ہے ۔ جیسے ہی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی یہ سب ٹھاٹ باٹ ختم ہوگئے۔ یہ دنیا فانی ہے اور اس کی جملہ اشیا بھی فانی ؎
جب مرگ پھرا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا
کوئی تاج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سیے اور ٹانکے گا
ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خاک لحد کی بھانکے گا
اس جنگل میں پھر آہ نظیرؔ اک تنکا آن نہ جھانکے گا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
اسی طرح نظیرؔ کی نظموں میں ’’شہر آشوب‘‘ کا ایک بلند مقام ہے۔ یہ نظم آگرے کی تباہی و بربادی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ آگرہ ایسا تاراج ہوا ہے اور بے کاری اتنی بڑھ گئی ہے کہ کسی سے بات کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ کوئی بھی زندہ دلی کا مظاہرہ نہیں کرتا ، بات نہیں کرتا، آگرے کا روزگار بند ہوہونے کی وجہ سے زبان بھی بار بار بند ہوجاتی ہے۔
آگرہ میں ہر کوئی ہر طرح کی پریشانی کا شکار ہے۔ صرّاف ، بنیے ، جوہری ، سیٹھ ، ہنر مند، دست کار، سنار، دکان دار، کوتوال ، چوکیدار، ملاح ، سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔ جوکل تک لوگوں کو ادھار دیتے تھے وہ آج خود ادھار کھارہے ہیں۔ حُسن کے پجاری اور عاشق و معشوق بھی اپنی ادائیں بھول گئے ہیں ۔ غرض یہ کہ ’’شہر آشوب‘‘ میں نظیرؔ نے بڑی فن کا ری سے آگرے کی بربادی اور پریشاں حالی کا نقشہ کھینچا ہے اور ساتھ ہی ساتھ عبرت بھی دلائی ہے۔
علاوہ ازیں ’’روٹی نامہ ‘‘نظیرؔ کی ایک ایسی نظم ہے جس میں انھوں نے روٹی ملنے پر یعنی رزق کی فراوانی ہونے سے انسان کی عادات و اطوار میں جو فرق پیدا ہوجاتا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے طنز و نشتریت کے ہلکے ہلکے وار بھی کیے ہیں ۔ نظیرؔ کے مطابق مفلسی انسان کو ذلیل و رسوا بنا کررکھ دیتی ہے۔ اور جیسے ہی اس کو پیٹ بھر روٹی مل جاتی ہے تو وہ دیوانہ ہوجاتا ہے اور اپنی اوقات بھول جاتا ہے۔ اچھلتا کودتا ہے ، ہنستا کھیلتا اور قہقہے لگاتا ہے ۔ نظیرؔ کے مطابق ہر کوئی روٹی کمانے کی فکر میں لگا ہوا ہے۔
مختصر یہ کہ نظیرؔ نے موضوعاتی نظموں میں موضوع کا انتخاب کرکے اس پر سیر حاصل روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے عوامی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے انھوں نے اپنی شاعری کا موضوع عوام ہی کو بنایا اور عوام کا دل جیتنے میں انھیں کامیابی بھی ملی۔ انھوں نے صحیح معنوں میں عوامی شاعر کہلانے کا حق ادا کیا۔ ہندوستانی تہذیب و تمدن، یہاں کے رسم و رواج اور عناصر کا اس خوبی سے اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے جس کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ نظیرؔ کے کلام میں ہندوستانیت کا دل دھڑک رہا ہے ۔ زبان و بیان میں کہیں کہیں ابتذالی انداز اور سوقیانہ پن آگیا ہے ۔ویسے مجموعی اعتبار سے سادہ گوئی ، سلاست و روانی ، برجستگی و شگفتگی، شوخی و ظرافت اور طنز و نشتریت نے آپ کے کلام کو مقبولِ عام بنادیا اور آپ کو عوامی مقبولیت کا پسندیدہ شاعر۔
دنیا کی نیکی بدی
نظیر اکبرآبادی :مختصرحالاتِ زندگی
نظیرؔ اکبرآبادی کا پورا نام ولی محمد تھا۔ اکبرآباد کے ایک شریف گھرانے میں نظیر اکبرآبادی کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان کے والد سیّد محمد فاروق عظیم آباد کے نواب کے مصاحبین میں شمار کئے جاتے تھے۔ باضابطہ کوئی تعلیم حاصل نہیں کی۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، کوئی ملازمت نہیں کی۔ باپ دادا کی دولت موجود تھی۔ البتہ محلہ کے بچوں کو پڑھا کر زندگی گذارتے تھے۔ کچھ روز کے لئے متھرا گئے تو وہاں کے مرہٹہ قلعہ دار نے انھیں اپنا استاد مقرر کیا۔ دوبارہ آگرہ آئے تو محمد علی خاں کے لڑکوں کو درس دینے لگے۔ اسی دوران کھتری سے ملاقات ہوئی۔ رائے کھتری سے ملاقات ہوئی۔ رائے کھتری نے اپنے بچوں کی تربیت میاں نظیر کے سپرد کر دی۔ آخری عمر میں نظیرؔ کا تعلق کاشی کے سربراہ راجہ بلوان سنگھ کی سرکار سے ہوگیا تھا۔ اپنے خاندان اور ماحول کی وجہ سے نظیر نے سپہ گری کے فن میں کمال حاصل کیا تھا۔ فارسی اور عربی جانتے تھے۔ ہندی، پنجابی اور سنسکرت پر عبور حاصل تھا۔ عوام میں اٹھنا بیٹھنا تھا۔ زبان کے عوامی لہجے سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ ایک قلندر مزاج آزاد منش انسان تھے۔ اس کا اندازہ ان کی شاعری سے بھی ہوتا ہے۔ نظیر کے والد سنی تھے لیکن وہ امامیہ مذہب کے قائل تھے۔ عبادتوں کی ادائیگی معمولی طور پر کرتے تھے۔ البتہ تعزیہ داری کے اہتمام پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ ادھیڑ عمر میں ظہورالنساء بیگم بنت عبدالرحمٰن چغتائی سے شادی کی۔ آخری عمر میں گوشہ نشینی اختیار کی۔ نظیر کو اولادیں بھی ہوئیں۔ ۱۸۲۷ء میں فالج کے مرض میں مبتلا ہوئے ۹۸ سال کی عمر میں ۲۵؍ صفر ۱۲۴۶ھ بمطابق ۱۶؍ اگست ۱۸۳۰ء کو انتقال کیا۔ نماز جنازہ دو مرتبہ سنی اور امامیہ طریقے سے پڑھائی گئی۔ البتہ تجہیز و تکفین امامیہ طریقہ پر ہوئی۔ ان ہی کے مکان میں موجود نیم کے درخت کے نیچے دفن کئے گئے۔ نظیرؔ کے مزاج کی شوخی، بانکپن، کھیل کود اور میلے ٹھیلوں کے شوق اور تجربے کے اظہار کے لئے نظم ہی ان کو راس آئی۔ ان کا مشاہدہ دنیاوی معاملات کے ساتھ ساتھ زندگی کے پیچ و خم کے متعلق بھی بہت گہرا تھا۔ نظم کی آزادی ان کی آزاد روش سے بڑی مطابقت رکھتی تھی۔ اس لئے وہ نظم نگاری کی طرف مائل ہوئے اور ہر چھوٹے بڑے موضوع پر نظمیں لکھیں۔
نظیر اکبرآبادی :عوامی مقبولیت کے پسندیدہ شاعر
اردو کے قدیم شاعروں میں نظیرؔ اکبرآبادی کو جو انفرادی مقام حاصل ہے وہ شاید ہی ان کے دور کے کسی دوسرے شاعر کو ملا ہو ۔ نظیرؔ اردو کے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اپنے عہد کی عام شاعرانہ روش سے ہٹ کر اپنا جداگانہ راستہ منتخب کیا اور اس میں بے طرح کام یاب و کامران بھی رہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں عوامی رنگ اور سماج کے دبے کچلے اور نچلے طبقہ کے لوگوں کی زندگی کے مسائل کو تلاش کرکے پیش کیا ۔ انھوں نے اپنے کلام میں سماجی ، اخلاقی، اصلاحی اور تہذیبی مضامین و موضوعات کا احاطہ کیا ۔ انھوں نے اپنی شاعری کا خاص موضوع عوا م اور عوامی زندگی کو بنایا ۔ ان کی شاعری میں ہندی و ہندوستانی عناصر کی جھلکیاں حددرجہ نمایاں ہیں ۔ نظیرؔ کی شاعری میں ہندوستانیت کے اسی گہرے رچاو نے انھیں عوامی مقبولیت کا تاج پہنایا۔
بعض ناقدین کا خیا ل ہے کہ نظیرؔ جدید نظم کے بنیاد گزار ہیں۔ نظم نگاری میں نظیرؔ نے ممتاز مقام حاصل کیا ۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کے یہاں غزلیں بھی موجود ہیں لیکن یہ غزلیں بھی موضوعاتی ہیں۔ غزل کے تمام اشعار میں نظیرؔ نے ایک ہی مضمون کو بیان کیا ہے۔ ان کی غزلوں میں بھی نظم کا مزہ ملتا ہے۔ حالیؔ اور آزادؔ نے جس جدید نظم کی تحریک چلائی اس کی بنیادنظیرؔ نے بہت پہلے ہی رکھ دی تھی۔ اردو ادب کے اولین نقادوں نے نظیرؔ کی شاعری کو اہمیت نہیں دی۔ حتیٰ کہ شیفتہؔ جیسے صاحبِ نظر ادیب و شاعر نے نظیرؔ کی عوامی زبان اورلب و لہجے پر سوقیانہ پن کاا لزام لگاکر انھیں دنیاے شاعری سے شہر بدر کردیااور محمد حسین آزادؔ نے ان کا ذکر بھی نہیں کیا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کے ناقدین انھیں نظم نگاری کا امام تصور کرتے ہیں۔
نظیرؔ کے دور میں غزل گوئی کا رجحان غالب تھا۔ شاعری عشق و محبت، عشوہ و غمزہ، ناز و ادا، وفا و جفا، رخسار و قد، گل و بلبل، نالہ و فریاد، شراب و کباب جیسے موضوعات کے گرد گردش کررہی تھی۔ نظیرؔ ہی وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اس طرزِ شاعری سے ہٹ کر اپنی جداگانہ راہ ڈھونڈ نکالی اور نظم نگاری کی طرف اپنے اشہبِ قلم کو موڑا۔ اپنی شاعری کا موضوع عوامی زندگی کے مسائل اور ہندوستانی رسم و رواج اور ان کے جِلو میں فروغ پانے والے بے جا تصورات کو بنایا۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ہندوستانی سماج کی اصلاح کی کوشش کی ۔
نظیرؔ کی پیدایش دہلی میں ہوئی۔ ان کے والد کانام فاروق تھا۔ ان کی پرورش و پرداخت بڑے لاڈ پیار سے ہوئی۔ جب نظیرؔ نے آنکھ کھولی تو دہلی طرح طرح کے مصائب و آلام کا شکار تھی۔ دہلی ایک پُرآشوب دور سے گذررہی تھی۔ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے پے در پے حملوں کی وجہ سے دہلی بالکل تباہ و برباد ہوچکی تھی۔ یہاں کے باشندے دوسرے محفوظ علاقوں میں اپنی جان کی حفاظت کے لیے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ نظیرؔ اکبرآبادی کی والدہ بھی اس دورِ ابتلا و آزمایش سے تنگ آکر آگرہ کوچ کرگئیں ۔ جہاں نظیرؔ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔
آگرہ میں نظیرؔ نے اپنا بچپن ، لڑکپن اور جوانی بڑے ہی ناز و نعم سے بسر کی ۔ وہ دنیا کی ہر فکر سے بے نیاز اپنے زمانے کی جملہ تفریحات میں دل کھول کر حصہ لیتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بچپن کے کھیل تماشوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ پتنگ بازی ، کبوتر بازی، بٹیر بازی، کبڈی ،شطرنج ، وغیرہ کھیل تماشوں سے ان کی شاعری بھری پڑی ہے۔
نظیر کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ وہ بچپن ہی سے بے حد ذہین تھے۔ اردو اور فارسی میں انھیں دسترس تھی۔ ساتھ ہی انھوں نے عربی ، پوربی ، ہندی، پنجابی اور مارواڑی جیسی زبانوںمیں بھی ادیبانہ مہارت حاصل کرلی تھی۔ وہ بہترین خوش نویس تھے۔ درس و تدریس کے میدان کے بھی شہ سوار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کتابوں میں ان کے کئی نام ور شاگردوں کے نام ملتے ہیں ۔ بعض ناقدین انھیں غالبؔ کے اساتذہ میں شمار کرتے ہیں۔
نظیر ؔ کا مسلک تصوف تھا۔ وہ صوفی منش آدمی تھے۔ صوفیہ کے نظیریۂ وحدۃ الوجود کے قائل تھے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابۂ کرام ،اہل بیت اطہار، اولیاے کرام اور بزرگانِ دین سے عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری کونعتیہ کلام سے بھی آراستہ کیا ان کی نعتوں میں ایک خوش گوار کشش اور احترام و ادب ملتا ہے۔ چند اشعار بہ طورِ نمونہ ؎
تم شہِ دنیا و دیں ہو یا محمد مصطفیٰ
سر گروہ مرسلیں ہو یا محمد مصطفیٰ
حاکمِ دینِ متیں ہو یا محمد مصطفیٰ
قبلہِ اہلِ یقیں ہو یا محمد مصطفیٰ
رحمۃ للعالمیں ہو یا محمد مصطفیٰ
ہیں جو یہ دونوں جہاںکی آفرینش کے چمن
جس میں کیا کیا کچھ عیاں ہیں صنعِ خالق کے چمن
باعثِ خلق ان کے ہو تم یا حبیبِ ذوالمنن
اوراک مطلع پڑھوں میںیمن سے جسکے سخن
سو سعادت کے قریں ہو یا محمد مصطفیٰ
مخبرِ صادق ہو تم یا حضرتِ خیر الورا
سرورِ ہر دوسرا اور شافعِ روزِ جزا
ہے تمہاری ذاتِ والا منبعِ جود و سخا
کیا نظیرؔ اک ، اور بھی سب کی مدد کا آسرا
یاں بھی تم واں بھی تمہیں ہو یا محمد مصطفیٰ
نظیرؔ بڑے خوش اخلاق اور اچھی عادات و اطوار حامل شخص تھے۔ ان کے مزاج میں تکدر نہ تھا۔وہ دوراندیش ، خوددار اور استغنا جیسی صفات سے متصف تھے۔ زندگی بھر کسی کے دست نگر نہ رہے۔ محنت و مشقت کے عادی تھے۔
نظیرؔ اردو زبان کے وہ عظیم شاعر ہیں جن کانام اردو شاعری کی تاریخ میں جلی حرفوں سے لکھا جارہا ہے۔ نظیرؔ فطری شاعر تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعر ی میں فطری عناصر کی جلوہ ریزیاں ہیں ۔ روز مرہ مناظر قدرت ، عوامی زندگی ، سماج کے دبے کچلے لوگوں کے مسائل اور ان کا حل ، ہندوستانی موسم اور تہوار اور ہندوستانی معاشرے کے رسم و رواج کی گہری چھاپ ان کی شاعری میں رچی بسی ہوئی ہے۔ یہاں کے میلوں ، ٹھیلوں اور تہواروں کو اپنے مخصوص لب و لہجے اور طرزِ نگارش میں نظیرؔ نے جس خوش اسلوبی اور رنگارنگی سے پیش کیا ہے وہ انھیں کا حصہ ہے۔
دیوالی، ہولی، عید ، شبِ برات، بسنت ، راکھی، تیراکی، سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا عرس، وغیرہ تقریبات کا بیان بڑے پُرلطف اور دل چسپ انداز میں کیا ہے۔ برسات کا تذکرہ ، جاڑے کی بہاریں اور دوسرے موسموں کا ذکر بھی نظیرؔ نے دل کو موہ لینے والے پیرایے میں کیا ہے۔ ان کے یہاں تصویریت کے حُسن اور منظر کشی کے جمال کا رچاو بڑی گہرائی سے ملتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں مناظر قدرت کی جو امیجری ابھاری ہے اور پیکریت کا جو انداز اپنایا ہے وہ قابل دید ہے۔ شاعری سے انھوں نے مصوری کا جو کام لیا ہے عہد جدید کے شعرا اس کے پاسنگ برابر بھی نہیں ہوسکتے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری جدید شاعری کی خوبیوں سے ہم رشتہ ہوگئی ہے۔ نظیرؔ کی شاعری کا محور زندگی اور زندگی کے حادثات و واقعات ہیں۔ برسات کی بہاریں نظم میں انھوں نے اپنی قوتِ متخیلہ کو بروے کار لاتے ہوئے برسات میں ہونے والے ہر عمل اور منظر کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ گویا انھوں نے لفظوں سے برسات کے موسم کی ایک دل کش اور خوش نما تصویر اتاردی ہے۔ اس نظم میں انھوں نے کھیتوں میں سبزہ اور ہریالی، پھول پتے، کانٹے ، بدلیاں ، پھوار ، تیتر ، بٹیر ، فاختہ ، قمریاں ، پپیہے ، بگلے وغیرہ کا ذکر شاعرانہ فن کاری سے کیا ہے۔ اس نظم کو فن کے لحاظ سے ایک شاہ کار نظم کا درجہ دیا گیا ہے۔
نظیرؔ کی کئی نظموں میں ظرافت اور طنز و نشتریت کے کاٹ دار وار بھی ملتے ہیں ۔ حقائق و معارف ، مسائل تصوف ، وحدۃ الوجود ، اخلاقیات ، پند و نصائح وغیرہ موضوعات بھی ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں ۔کلیاتِ نظیرؔ میں غزلیں بھی ہیں ، بعض نظمیں بڑی طویل ہیں جن کے مطالعہ سے مثنوی کا گمان گذرتا ہے۔ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی کرامات، خیبر کی لڑائی، لیلیٰ مجنوں ، فاختہ وغیرہ نظمیں مثنوی کی خصوصیات سے ہم آہنگ طویل نظمیں ہیں۔ نظیرؔ نے اپنی نظموں کے حوالے سے اخلاقی موضوعات کا احاطہ بھی کیا، مذہب، دنیا ، مکافاتِ عمل ، خوابِ غفلت وغیرہ نظمیں اخلاقیات پر عمدہ اور نفیس نظمیں ہیں۔
’’بنجارہ نامہ‘‘ نظیرؔ کی مشہور ترین نظم ہے۔ اس نظم میں انھوں نے بنجارہ کو تمثیل بناکر دنیا کی بے ثباتی و ناپائداری کو نہایت سادگی ، سلاست و روانی سے پیش کیا ہے ۔ دنیا کی رنگینی ، مال و متاع، دولت و ثروت ، جاہ و حشم ، عزت و شوکت ، ٹھاٹ باٹ اور اپنے پراے سب کچھ فانی ہیں ، یہ سب چیزیں دنیا میں رہنے والی نہیں ہیں۔ ’’بنجارہ نامہ‘‘ بہ ظوہر ایک عام سی نظم ہے لیکن اس میں نظیرؔ کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ موجود ہے۔ تصوف و معرفت کی ریاضتوں کا اظہاریہ بھی اس نظم کی زیریں رَو میں پنہاں دکھائی دیتا ہے ۔ نظیرؔنے اپنی اس نظم میں دنیا کی بے ثباتی کے بیان کا جو طرز اپنایا ہے وہ بڑا ہی عمدہ ہے ؎
ٹک حرص و ہوس کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے د ن رات بجا کرنقارا
کیا بِدھیا بینسا بیل شتر کیا گوئیں پِلّا سر بھارا
کیا گیہوں چاول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں کیا انگارا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
دنیا کی شان و شوکت ، جاہ و منصب ، دولت و ثروت یہ سب اسی وقت تک ہیں جب تک کہ سانس چل رہی ہے ۔ جیسے ہی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی یہ سب ٹھاٹ باٹ ختم ہوگئے۔ یہ دنیا فانی ہے اور اس کی جملہ اشیا بھی فانی ؎
جب مرگ پھرا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا
کوئی تاج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سیے اور ٹانکے گا
ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خاک لحد کی بھانکے گا
اس جنگل میں پھر آہ نظیرؔ اک تنکا آن نہ جھانکے گا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
اسی طرح نظیرؔ کی نظموں میں ’’شہر آشوب‘‘ کا ایک بلند مقام ہے۔ یہ نظم آگرے کی تباہی و بربادی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ آگرہ ایسا تاراج ہوا ہے اور بے کاری اتنی بڑھ گئی ہے کہ کسی سے بات کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ کوئی بھی زندہ دلی کا مظاہرہ نہیں کرتا ، بات نہیں کرتا، آگرے کا روزگار بند ہوہونے کی وجہ سے زبان بھی بار بار بند ہوجاتی ہے۔
آگرہ میں ہر کوئی ہر طرح کی پریشانی کا شکار ہے۔ صرّاف ، بنیے ، جوہری ، سیٹھ ، ہنر مند، دست کار، سنار، دکان دار، کوتوال ، چوکیدار، ملاح ، سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔ جوکل تک لوگوں کو ادھار دیتے تھے وہ آج خود ادھار کھارہے ہیں۔ حُسن کے پجاری اور عاشق و معشوق بھی اپنی ادائیں بھول گئے ہیں ۔ غرض یہ کہ ’’شہر آشوب‘‘ میں نظیرؔ نے بڑی فن کا ری سے آگرے کی بربادی اور پریشاں حالی کا نقشہ کھینچا ہے اور ساتھ ہی ساتھ عبرت بھی دلائی ہے۔
علاوہ ازیں ’’روٹی نامہ ‘‘نظیرؔ کی ایک ایسی نظم ہے جس میں انھوں نے روٹی ملنے پر یعنی رزق کی فراوانی ہونے سے انسان کی عادات و اطوار میں جو فرق پیدا ہوجاتا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے طنز و نشتریت کے ہلکے ہلکے وار بھی کیے ہیں ۔ نظیرؔ کے مطابق مفلسی انسان کو ذلیل و رسوا بنا کررکھ دیتی ہے۔ اور جیسے ہی اس کو پیٹ بھر روٹی مل جاتی ہے تو وہ دیوانہ ہوجاتا ہے اور اپنی اوقات بھول جاتا ہے۔ اچھلتا کودتا ہے ، ہنستا کھیلتا اور قہقہے لگاتا ہے ۔ نظیرؔ کے مطابق ہر کوئی روٹی کمانے کی فکر میں لگا ہوا ہے۔
مختصر یہ کہ نظیرؔ نے موضوعاتی نظموں میں موضوع کا انتخاب کرکے اس پر سیر حاصل روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے عوامی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے انھوں نے اپنی شاعری کا موضوع عوام ہی کو بنایا اور عوام کا دل جیتنے میں انھیں کامیابی بھی ملی۔ انھوں نے صحیح معنوں میں عوامی شاعر کہلانے کا حق ادا کیا۔ ہندوستانی تہذیب و تمدن، یہاں کے رسم و رواج اور عناصر کا اس خوبی سے اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے جس کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ نظیرؔ کے کلام میں ہندوستانیت کا دل دھڑک رہا ہے ۔ زبان و بیان میں کہیں کہیں ابتذالی انداز اور سوقیانہ پن آگیا ہے ۔ویسے مجموعی اعتبار سے سادہ گوئی ، سلاست و روانی ، برجستگی و شگفتگی، شوخی و ظرافت اور طنز و نشتریت نے آپ کے کلام کو مقبولِ عام بنادیا اور آپ کو عوامی مقبولیت کا پسندیدہ شاعر۔
دنیا کی نیکی بدی
ولی محمد نظیرؔ اکبرآبادی (۱۷۳۵ء - ۱۸۳۰ء) عوامی شاعر تھے۔ ان کی نظموں میں ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی روح اپنی تمام رنگینیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ جس کا لب و لہجہ اور مزاج عوامی ہے۔ نظیرؔ کے یہاں مختلف موضوعات پر نظمیں ملتی ہیں۔ بعض میں ہندوئوں اور مسلمانوں کا ذکر ہے تو بعض میں ہندوستانی موسموں اور ان کی کیفیات کا اور بعض میںاخلاق و تصوف کا۔ وہ نظمیں جو ناصحانہ انداز میں ہیں اور جن میں دنیا اور دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ کھینچا گیا ہے بڑی دلآویز اور اثرانگیز ہیں۔ نظیرؔ اپنے گرد و پیش کے واقعات اور مناظر کو نہایت سادگی اور خلوص کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے یہاں شاعرانہ واقعیت اور بیان کی صداقت پائی جاتی ہے۔ ذیل کی نظم اس خوبی کی آئینہ دار ہے
اس نظم میں شاعر نے انسانی اعمال کے جزا و سزا کے تصور جو مثالوں کے ذریعے واضح کرتے ہوئےبتایا ہے کہ اس دنیا میں بھی انسان کو اس کے عمل کے مطابق جزا یا سزا ملتی ہے۔
ہے دنیا جس کا نانْو یاں یہ اور طرح کی بستی ہے
جو مہنگوں کو تو مہنگی ہے اورسستوں کو سستی ہے
یاں ہر دم جھگڑے اٹھتے ہیں، ہر آن عدالت بستی ہے
گر مست کرے تو مستی ہے اور پست کرے تو پستی ہے
کچھ دیر نہیں، اندھیر نہیں، انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو، اس ہاتھ ملے، یاں سودا دست بدستی ہے
جو اور کسی کا مان رکھے تو اس کو بھی ارمان ملے
جو پان کھلاوے پان ملے، جو روٹی دے تو نان ملے
نقصان کرے نقصان ملے، احسان کرے احسان ملے
جو جیسا جس کے ساتھ کرے پھر ویسا اس کو آن ملے
کچھ دیر نہیں، اندھیر نہیں، انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو، اس ہاتھ ملے، یاں سودا دست بدستی ہے
جو پار اتار دے اوروں کو اس کی بھی نائو اترتی ہے
جو غرق کرے، پھر اس کی بھی یاں، ڈبکوں ڈبکوں کرتی ہے
شمشیر ،تبر، بندوق سناں اور نشتر تیر نہرتی ہے
یاں جیسی جیسی کرتی ہے پھر ویسی ویسی بھرتی ہے
کچھ دیر نہیں، اندھیر نہیں، انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو، اس ہاتھ ملے، یاں سودا دست بدستی ہے
نظیر اکبرآبادی کی نظم نگاری
جس دور میں نظیرؔ اکبرآبادی حیات تھے وہ شاعری کا ایک ایسا دور تھا جس میں علم عروض، قافیہ اور ردیف کی پابندی لازمی تھی۔ سارے معاشرے میں شاعری کے لئے مدون کئے ہوئے اصولوں کی پابندی کی جاتی تھی۔ نظیرؔ اکبرآبادی بھی اسی پابند ماحول کے پروردہ تھے۔ اسی لئے ان کی شاعری فنی اصولوں کی پابند رہی۔ ان کی نظموں میں مثلث، مربع، مخمس اور مسدس کے سانچے استعمال ہوئے ہیں۔ جن میں وزن، بحر، قافیہ اور ردیف کی پابندی بھی دکھائی دیتی ہے۔
جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو
یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو
جدا جو ہم کو کرے اس صنم کے کوچہ سے
الٰہی! راہ میں ایسا کوئی رقیب نہ ہو
علاج کیا کریں حکماء تپ جدائی کا
سوائے وصل کے اس کا کوئی طبیب نہ ہو
نظیرؔ اپنا تو معشوق خوب صورت ہے
جو حسن اس میں ہے ایسا کوئی عجیب نہ ہو
نظیر اکبرآبادی کی انسان دوستی
نظیرؔ کی نظموں میں انسان دوستی کا جذبہ نمایاں ہے۔ وہ پورے احساس کے ساتھ انسان کی قدر اور اس زندگی کی حفاظت کے خیالات کو اپنی شاعری میں پیش کرتے ہیں۔ وہ صرف نادار و مفلس انسان سے ہی محبت نہیں کرتے بلکہ ان کی شاعری میں ہر انسان سے محبت کا جذبہ نمایاں ہوتا ہے۔ ان کی مشہور نظم ’’آدمی نامہ‘‘ اس بات کی دلیل ہےکہ ان کے یہاں انسانیت کا درد ہے۔ روٹی انسان کی زندگی کا اہم مسئلہ ہے۔ ہر ایک روٹی کے لئے در در کی خاک چھانتا ہے۔ بھوکا ہو تو چاند سورج بھی اسے روٹی ہی نظر آتے ہیں۔
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کس لئے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھے نہ سورج ہی جانتے
بابا ہمیں تو سب نظر آتی ہیں روٹیاں
اپنی مشہور نظم ’’مفلسی‘‘ اور ’’آٹے دال‘‘ میں انسان کی بے بسی کو ظاہر کیا ہے۔ نظم ’’مفلسی‘‘ میں لکھتے ہیں۔
مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر
دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر
ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر
جس طرح کتے پڑتے ہیں ایک استخوان پر
ویسا ہی مفلسوں کو لڑاتی ہے مفلسی
نظیرؔ نے مفلسی کے علاوہ آٹے دال، کوڑی نامہ، پیسہ جیسی نظمیں لکھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ سب زندگی کے حقائق ہیں اس کے بغیر دنیا میں انسان کی کوئی اہمیت نہیں ان کی نظم ’’آٹے دال‘‘ کا یہ بند ملاحظہ ہو
گر نہ آٹے دال کا ہوتا قدم یاں درمیاں
منشی و میر و وزیر و بخشی و نواب و خاں
جاگتے دربار میں کیوں آدھی آدھی رات یاں
کیا عجب نقشہ پڑا ہے آن کر کہئے میاں
سب کے دل کو فکر ہے دن رات آٹے دال کی
نظیرؔ اکبرآبادی ایک ایسے حقیقت پسند شاعر ہیں جن کی نظموں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت کی بقاء کے لئے انسان کو جینے کے یکساں وسائل ملنے چاہئیں۔ نظیرؔ نے بعض نظمیں بچوں کے لئے بھی لکھی ہیں۔ جیسے ریچھ کا بچہ، بلی کا بچہ وغیرہ۔ نظیرؔ کے بعض موضوعات تو اتنے دلچسپ اور انوکھے ہیں کہ ان پر آج تک کسی شاعر نے قلم نہیں اٹھایا۔ مثلاً کورا برتن، لکڑی، تل کے لڈو وغیرہ