فارقلیط رحمانی
لائبریرین
اِک میں ہی نہیں اُس پر قربان زمانہ ہے
جو رَبِّ دو عالم کا محبوب یگانہ ہے
جو رَبِّ دو عالم کا محبوب یگانہ ہے
کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے
زہرہ کا وہ بابا ہے سبطَین کا نانا ہے
زہرہ کا وہ بابا ہے سبطَین کا نانا ہے
اُس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں
جو حُسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے
جو حُسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے
عزت سے نہ مر جائیں کیوں نامِ محمد پر
ہم نے کسی دن یوں بھی دُنیا سے تو جانا ہے
ہم نے کسی دن یوں بھی دُنیا سے تو جانا ہے
آؤ در زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن
ہے نسل کریموں کی لجپال گھرانہ ہے
ہے نسل کریموں کی لجپال گھرانہ ہے
ہوں شاہ مدینہ کی میں پشت پناہی میں
کیا اس کی مجھے پرواہ دشمن جو زمانہ ہے
کیا اس کی مجھے پرواہ دشمن جو زمانہ ہے
یہ کہہ کے در حق سے لی موت میں کچھ مہلت
میلاد کی آمد ہے محفل کو سجانا ہے
میلاد کی آمد ہے محفل کو سجانا ہے
قربان اُس آقا پر کل حشر کے دِن جس نے
اِس اُمت عاصی کو کملی میں چھپانا ہے
اِس اُمت عاصی کو کملی میں چھپانا ہے
سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو حیرت کیا
بخشش کی روایت میں توبہ تو بہانہ ہے
بخشش کی روایت میں توبہ تو بہانہ ہے
ہر وقت وہ ہیں میری دُنیائے تصوُّر میں
اَے شوق !کہیں اَب تو آنا ہے نہ جانا ہے
اَے شوق !کہیں اَب تو آنا ہے نہ جانا ہے
پُر نور سی راہیں ہیں گنبد پہ نگاہیں ہیں
جلوے بھی اَنوکھے ہیں منظر بھی سُہانا ہے
جلوے بھی اَنوکھے ہیں منظر بھی سُہانا ہے
ہم کیوں نہ کہیں اُن سے رُو دادِ اَلم اپنی
جب اُن کا کہا خود بھی اَللہ نے مانا ہے
جب اُن کا کہا خود بھی اَللہ نے مانا ہے
محرومِ کرم اِس کو رکھیے نہ سرِ محشر
جیسا ہے نصیر آخر سائل تو پُرانا ہے
جیسا ہے نصیر آخر سائل تو پُرانا ہے