نعتیات

دائم جی

محفلین
نعت سے متعلق اپنی نثری تحاریر اس لڑی میں شامل کیجیے۔ چاہے ان کا تعلق تحقیق و تنقید سے ہو یا تبصراتی نوعیت کی آراء ہوں۔ راقم الحروف بھی ان شاء اللہ اس لڑی میں اپنی تمام متعلقۂ عنوان تحاریر لگاتا رہے گا۔
 
آخری تدوین:

دائم جی

محفلین
اعلی حضرتؒ کی نعت؛ تعلق مع الرسول کی اساس
غلام مصطفیٰ دائمؔ

مسلم تہذیبی روایت میں جامع العلوم افراد کی نمود کوئی روزانہ کا قصہ نہیں بلکہ صدیوں کی کروٹوں کے بعد ایسے خوب کار اشخاص سطحِ وجود پہ جلوہ پیرائی کرتے ہیں جس سے پوری تہذیبی معنویت میں ایک تجدد اور زندہ روح دوڑ جایا کرتی ہے۔ وہ افراد انفرادی سانچے میں رہتے ہوئے بھی پوری قوم کے نباض بن کر تحریک کا روپ دھار لیتے ہیں اور چند مراحل میں پورے نظامِ شعور میں انقلاب، ارتقا اور بلندی کا سرمایہ پیدا کر لیتے ہیں۔ برصغیر میں ایسی ہی چند شخصیات میں سے ایک امام الفقہ حضرت احمد رضا خان فاضلِ بریلی ہیں جن کی ذات کا ہر ہر تانا بانا تعلق مع الرسول کی اساس پر قائم ہے۔ جمیع علوم کے سمندروں میں شناوری کے ساتھ ساتھ شعر و ادب میں بھی عصری تقاضوں اور قلبی سوزِ عشقِ رسول ﷺ کے بمصداق امام صاحب نے جو خاص قدر حاصل کی، وہ ہر خاص و عام پر واضح ہے۔
حضرت الامام کی شخصیت کا ایک پہلو امام الانبیا ﷺ کے نعت گو کا ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری کے عمیق مطالعے سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان کے نزدیک نعت تعلق مع الرسول ﷺ کا ایک وجودی استدلال ہی نہیں اس معنی میں ذہنی اعتقاد بھی ہے کہ سید الانبیا ﷺ کی ذات کا ہر ذہنی و حسی حوالہ ادراک کی سطح سے بلند تر ہے اور ان کی شخصی و نبوّتی، دونوں جہتوں کا تعارف انسان اور ملائکہ سمیت کسی بھی مخلوق کے حیطۂ خیال کی گرفت میں نہ آ سکنے کے باوجود قلب و روح کے لیے باعثِ تسکین ہے۔ اس کے علاوہ حضور اکرم ﷺ کی ذات من حيث المجموع ہدایت کے اصول وضع کرنے میں بنیادی مآخذ کی حامل ہے اور اس کا اظہار حضرت الامامؒ نے اپنی شاعری میں جابجا کیا ہے۔​
(قصیدہ معراجیہ پر تفصیلی مضمون سے ابتدائی چند سطریں)
 
آخری تدوین:

دائم جی

محفلین
نعت ایک تہذیبی عمل اور انسانی سطحِ شعور کا مابہ الامتياز لازمہ ہے
غلام مصطفیٰ دائمؔ

نعت کا بیانیہ سید الانبیا ﷺ کی حیات ہی سے تشکیل نہیں پاتا بلکہ ان کی ظاہری رخصت کے بعد بھی تعمیری ساخت میں ڈھلتا رہتا ہے۔ ایک آفاقی دین کے مبلغ اور بانی ہونے کی حیثیت سے ان کی ذات اور سیرت کی بہت سی جہتیں ایسی ہیں جو ان کی ظاہری حیات کے بعد متشکل ہوتی ہیں اور باقاعدہ ایک عملی پیمانے میں تُل میں میدانِ نمود میں آ نکلتی ہیں۔ مثلاً ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسان کے فکری احاطے میں نعت کی داخلیت کا عنصر تہذیبی حوالوں سے تشکیل پاتا ہے۔ مذہب ثانوی جہت کا ترجمان ہے کہ اس سے تقدیسِ فکر اور دائرہِ نعت کے جلی خطوط کے قطبین کا تعلق قرآن و حدیث سے جوڑے رکھنے میں مہمیز ملتی ہے۔ نعت ایک تہذیبی عمل اور انسانی سطحِ شعور کا مابہ الامتياز لازمہ بھی ہے۔ اس سلسلے میں آگے بڑھیں تو یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ ہر تقدیسی ڈسکورس کا ایک تصورِ ”اظہار“ ہوتا ہے جو متعلقہ تہذیبی حوالوں سے اکتسابِ شعور اور عملی کاوشوں کی اعلیٰ ترین سطحِ تخلیق کا عکاس ہوتا ہے۔ مثلاً حالیؔ، اقبالؔ، محسنؔ، امام بریلوی وغیرہ، سب کا تصورِ اظہار مختلف ہے۔ اس کی تشکیل کا عمل فکری بنیاد پر طَے ہوتا ہے۔ کیوں کہ شاعر کا مافیہ چاہے اپنی تہذیب میں کسی بڑے اصول کا واضع ہو یا نہ ہو، وہ اس تہذیب کی مسلمہ اقدار کا پاسبان ضرور ہوتا ہے۔ اور نعت جیسی پختہ اور اصولی روایت کی تعمیر و ترویج کا عمل کیوں کر غیر ضروری ہو سکتا تھا۔ اس لیے روایت کے تسلسل کا بدیہی پَن بعض دفعہ روایت کے مسلمات میں افرادی امتزاج کا محتاج نہیں بھی ہوتا۔ جبکہ اس کے لیے یہ شرط لازمی ہے۔ اس لیے ہم نعت کی روایتی ساخت کا سفر انسانی فکر کے پاکیزہ زائچوں کی ہمرکابی کے بغیر محض ہوائی جذبے کا اثاثہ سمجھتے ہیں۔ یہ قانونی تناظُر ذہن میں رکھنا چاہیے۔​
 
آخری تدوین:

دائم جی

محفلین
نعت گوئی ایک منصب ہی نہیں، ذمہ داری بھی ہے
غلام مصطفیٰ دائمؔ

نعت وہ مقدس منصب ہے جس میں مخلوقات سمیت خود خالق بھی شریک ہے اور ہمہ وقت نبی کریم ﷺ کے مقامِ رفیع میں مزید علوّ اور برگزیدگی میں کثیر عظمت کا پرچار کنندہ رہتا ہے۔
حسی اعتبارات میں نطقِ مطلق نے سب سے پہلے نعت ہی کا الوہی نغمہ الاپا ہے اور تہذیبی وجود کے ضمنی اطلاقات میں انسانوں نے نعتِ رسول مقبول ﷺ سے اپنے قلم و زبان کو اس عظیم سرگرمی سے شروعِ اسلام ہی سے بہرہ یاب کیے رہا ہے۔
تہذیبی سرگرمیاں مخصوص معنویت کی حامل ہونے کے علاوہ اپنے مظہریاتی نسبت میں بھی مجرد صنف یا تشکیلی عنصر کی حیثیت سے متعارف ہوتی ہیں۔ نعت بھی ایک جمالیاتی سرگرمی ہے لیکن اس میں فطرت، تہذیب اور مذہب تینوں کی یکجائی نے فردی اختصاصات کو Actualize کرنے کے تناظرات سے اپنے تشکیلی معتقدے ترتیب دیئے ہیں۔ اسی لیے اس کی قدر و قیمت دیگر اصنافِ جمال یا تہذیبی اعتبارات سے، جن کا تعلق انسانی حس کی کسی سرگرمی سے ہے، افضل و برتر ہے۔ اس کے فنی دائرے اور فکری آفاق بھی غلو اور مصنوعی اغراق سے پراگندہ ہوئے بغیر اپنی ضروری رسومیات (Basic Conventions) سے عہدہ برآ ہوتے ہیں۔ نعت ان حوالوں سے ایک منصب ہی نہیں، ذمہ داری بھی ہے اور متعلقہ افرادی نوع پر ایک فرض بھی!​
 
آخری تدوین:

دائم جی

محفلین
نعت کی جدید تعبیر؛ تخلیقی اور جمالیاتی مقتضیات کی میزان پر
غلام مصطفیٰ دائمؔ
نعت تخلیقی عمل کا ایک مقدس شعبہ ہے۔حرف و بیان کی ہمرکابی میں قلم جب تقدس مآب ہو کر ذاتِ احمد ﷺ میں حسن کی دریافت کے عمل کی تخلیقی و تخئیلی سطحوں کی نقابت کا فریضہ انجام دینے لگے تو نعت کی تمثیلی و توصیفی جہات رو بہ عمل ہو جاتی ہیں۔ تہذیبی علائم میں حسّی وفور کا درجہ اور تاریخی قرائن میں ذوقی پہلو کی تدریجی ساخت، دونوں جمالیاتی پیرائے کا خاصہ بن جاتے ہیں۔ نعت گو کے مافیے میں جدید ترین امکانات کی تلاش تخیلاتی فضا ہی میں زقند نہیں بھرتی بلکہ اسے تجربے کی بنیاد فراہم کرتی ہوئی نئے نئے فنی جواہر اور علامتی پیکر خَلق کرتی ہے جس سے نہ صرف معنیٰ کا تناؤ بلکہ اسلوب و ادا کی بلند آہنگی کا ادراک و اظہار بھی پورے جمالیاتی سانچے میں ڈھل کر سامنے آتا ہے۔ یہ نکتہ نہایت اہم ہے کہ تخلیق کا درجہ تہذیبی رویے کا قائل نہ ہو تو روایتی انحراف کی تازہ کارروائی جدید تخلیق کار کا ذہنی و فکری لازمہ بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعت کے باب میں بلکہ بڑی نعتیہ شاعری میں فنی درجے کے ادراک پر فکری معنویت کی چھاپ زیادہ مطلوب ہوتی ہے۔ نعتیہ ڈسکورس میں لفظ کے سبھی احوال و معانی کا تعلق مرکز سے منسلک رہے نہ رہے، تخلیقی مرتبے کی تفہیم میں مرکزی کردار کی بازیافت ضروری ہوتی ہے اور یہ اسی نظریے کا نتیجہ ہے کہ نعت کا ہر شعر اپنے سماجی پن سے منحرف ہو کر قلبی تحویل میں اترتا ہوا آفاقی قدریں اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ اسی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ غزل کی بہ نسبت نعت کا شعر زیادہ دیرپا ہوتا ہے۔ غزل کے شعر میں احساساتی کمتری کا اعلان تہذیبی رویہ خود پیدا کرتا ہے جبکہ نعت میں معنیٰ کی کثرت و قلت کے اعتبار کے بغیر شعری سانچہ اپنی تمام تر قدامت میں بھی جدید لب و لہجے کی رہنمائی میں فعال کردار ادا کرتا ہے۔​
 

دائم جی

محفلین
مطالعۂ نعت کا اسلوب کیا ہونا چاہیے؟
غلام مصطفیٰ دائمؔ
[محمد احمد زاہد کی کتاب ”گلزارِ خیال“ پر لکھے گئے مضمون بعنوان ”گلزارِ خیال ؛ عقیدت کی جمالیاتی تفسیر“ سے اقتباس]

نعتیہ ڈسکورس انسانی تہذیب کے فطری مظاہر کا ایک بیانیہ ہی نہیں، اعتقادیہ بھی ہے جو انسانی حیات کے اصول و لوازم سے جدلیاتی تعلق کی بجائے تناسب اور توازن کی Domain پہ قائم احساسِ تعلق سے نسبتِ عینی رکھتا ہے۔ اسے سمجھنا چاہیے!
عصرِ جدید نعت کی تنقیدی بصیرت کا عہد ہے۔ نعت صرف کہی ہی نہیں جا رہی بلکہ اس کے فنی جواز کے ضمنی مباحث مثلاً تخلیقی مرتبہ، قدرِ علامت، تہذیبی رشتگی، جذبۂ جمال کی دریافت اور عقیدے کی راستی وغیرہ کا مطالعہ بھی نعت کے تحت الشعور میں رہ کر کیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی افادیت جذبۂ جَمال کے عرفانی جوہر کو گرفت میں لینا ہے۔ بقیہ اہمیت اس کی وجودی حیثیت، تخلیقی جواز اور شخصیت کی فطری تربیت و تطہیر کے عمل کے حوالے سے ہے۔ بس انھی اصولوں کی روشنی میں کسی بھی نعتیہ فکر کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔​
 
آخری تدوین:

دائم جی

محفلین
تفہیمِ وجود کے لیے نعت کا کیا کردار ہو سکتا ہے؟
غلام مصطفیٰ دائمؔ
[سید عطاء المصطفیٰ بخاری کے نعتیہ مجموعے ”نواے عطا“ پر گفتگو سے اقتباس]

نعت قلب کی تحویل میں آنے والا فکر کا وہ جذبۂ تعلق ہے جو شعور اور وجود کی نقابت کا فریضہ سرانجام دیئے بغیر قلب کے لیے لائقِ انبساط نہیں رہتا۔ یہ جذبۂ ارتباط ذہنی بھی ہے اور حالی بھی، شعور کی تربیت بھی کرتا ہے اور وجود کا امین بننے کی بھرپور صلاحیت سے بھی بہرہ یاب ہے۔ نعت بس یہی ہے! ذہن کا یہ عمل فکری سطح پر تہذیبی ورثے کی جمالیاتی تفہیم میں ممد بنتا ہے اور باطنی احوال میں مسلسل ایک امنگ، تمنا، وفورِ تعلق، حواسِ فہمی کا شوقِ اظہار اور قلبی طمانیت میں غیر متزلزل استحکام کا وجود برپا کرتا ہے۔ سوچیے کہ نعت کا یہ کتنا اہم اور کلیدی کردار ہے جو تہذیبِ اخلاق اور تفہیمِ وجود کے لیے نہ صرف لازمی ہے بلکہ اس سے صرفِ نظر کرکے ہمارا انسان ہونا بھی ایک واہمے سے زیادہ کچھ نہیں رہتا۔ بایں معنیٰ نعت ایک تخلیقی اظہاریہ ہی نہیں، کیوں کہ یہ تو اس کا قالب ہے۔ نعت ایک مقام پر انسان کا انسان ہونا بھی Define کرتی ہے لیکن یہ کام نعت گو شعرا کی بساط میں ہنوز نہیں آیا۔​
 

دائم جی

محفلین
فلیپ - حرفِ نجات (نعتیہ مجموعہ) احمد ذوہیب
غلام مصطفیٰ دائم
نعت اندازی کے اس زریں عہد میں اعتقادی و عملی سطح پر نعتیہ فکر کا ما بہ الشعور لازمہ ہمارے مذہبی و غیر مذہبی دائرے میں خوش افزا اثرات کا سبب بن رہا ہے اور یہ نہایت مبارک فضا ہے۔ نعت کا جدید اور مقتضاے حال بیانیہ اپنی مرکزی تشکیل میں بالخصوص غزل کے شعرا کو اپنے دامنِ تبرک میں جگہ دے رہا ہے۔ احمد ذوہیب غزلیہ خوش بیانی کی ایک تازہ آواز ہیں، ان کی طرف سے نعت کی سمت برکت آمیز سفر نعت کے جدید رجحانات اور فکری سرچشموں کی بلند آہنگ پرواز کا اعلانیہ ثابت ہوتا ہے۔ ان کا تخیل نعت کی میزان پر نفس و روح کی تطہیر میں سید الابرار ﷺ کو مرکزی کردار کی حیثیت سے نہ صرف متعارف کرتا ہے بلکہ یہ تفکر اپنی تہ در تہ حساسیت اور گیان کا تجربی بنیادوں پر تزکیہ بھی کرتا ہے۔ نعتیہ منظر نامے پر یہ رویہ اگرچہ اچھوتا نہیں لیکن کمیاب ضرور ہے، جس کی طرف ”حرفِ نجات“ کے شاعر نے اپنی تخلیقی توانائیوں اور تخیلی گہرائیوں سے اپنے دھارے کو ترتیب دیا ہے۔ ان شاء اللہ عصرِ جدید میں نعت گوؤں کی خوش قسمت صف میں احمد ذوہیب کی شمولیت تخلیقی معرکے کی مہمیز کا کام کرے گی۔​
 
آخری تدوین:
Top