اعلی حضرتؒ کی نعت؛ تعلق مع الرسول کی اساس
غلام مصطفیٰ دائمؔ
مسلم تہذیبی روایت میں جامع العلوم افراد کی نمود کوئی روزانہ کا قصہ نہیں بلکہ صدیوں کی کروٹوں کے بعد ایسے خوب کار اشخاص سطحِ وجود پہ جلوہ پیرائی کرتے ہیں جس سے پوری تہذیبی معنویت میں ایک تجدد اور زندہ روح دوڑ جایا کرتی ہے۔ وہ افراد انفرادی سانچے میں رہتے ہوئے بھی پوری قوم کے نباض بن کر تحریک کا روپ دھار لیتے ہیں اور چند مراحل میں پورے نظامِ شعور میں انقلاب، ارتقا اور بلندی کا سرمایہ پیدا کر لیتے ہیں۔ برصغیر میں ایسی ہی چند شخصیات میں سے ایک امام الفقہ حضرت احمد رضا خان فاضلِ بریلی ہیں جن کی ذات کا ہر ہر تانا بانا تعلق مع الرسول کی اساس پر قائم ہے۔ جمیع علوم کے سمندروں میں شناوری کے ساتھ ساتھ شعر و ادب میں بھی عصری تقاضوں اور قلبی سوزِ عشقِ رسول ﷺ کے بمصداق امام صاحب نے جو خاص قدر حاصل کی، وہ ہر خاص و عام پر واضح ہے۔
حضرت الامام کی شخصیت کا ایک پہلو امام الانبیا ﷺ کے نعت گو کا ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری کے عمیق مطالعے سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان کے نزدیک نعت تعلق مع الرسول ﷺ کا ایک وجودی استدلال ہی نہیں اس معنی میں ذہنی اعتقاد بھی ہے کہ سید الانبیا ﷺ کی ذات کا ہر ذہنی و حسی حوالہ ادراک کی سطح سے بلند تر ہے اور ان کی شخصی و نبوّتی، دونوں جہتوں کا تعارف انسان اور ملائکہ سمیت کسی بھی مخلوق کے حیطۂ خیال کی گرفت میں نہ آ سکنے کے باوجود قلب و روح کے لیے باعثِ تسکین ہے۔ اس کے علاوہ حضور اکرم ﷺ کی ذات من حيث المجموع ہدایت کے اصول وضع کرنے میں بنیادی مآخذ کی حامل ہے اور اس کا اظہار حضرت الامامؒ نے اپنی شاعری میں جابجا کیا ہے۔
(قصیدہ معراجیہ پر تفصیلی مضمون سے ابتدائی چند سطریں)