محمد منظور فرید
محفلین
الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے
یہ دل کا نگرہے کہ مدینے کی فضا ہے
سانسوں میں مہکتی ہیں مناجات کی کلیاں
کلیوں کے کٹوروں پہ ترا نام لکھا ہے
آیات کی جھرمٹ میں ترے نام کی مسند
لفظوں کی انگوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے
اب کو ن حدِ حسن طلب سوچ سکے گا
کونین کی وسعت تو تہہ دستِ دعا ہے
ہے تیری کسسک میں بھی دمک حشر کے دن کی
وہ یوں کہ مرا قریہ جاں گونج اُٹھا ہے
خورشید تری راہ میں بھٹکتا ہوا جگنو
مہتاب ترا ریزہ نقشِ کفِ پا ہے
واللیل ترے سایہ گیسو کا تراشا
والعصر تری نیم نگاہی کی ادا ہے
لمحوں میں سمٹ کر بھی ترا درد ہے تازہ
صدیوں میں بھی بکھر کر ترا عشق نیا ہے
یا تیرے خدوخال سے خیرہ مہ و انجم
یا دھوپ نے سایہ ترا خود اُوڑھ لیا ہے
یا رات نے پہنی ہے ملاحت تری تن پر
یا دن ترے اندازِ صباحت پہ گیا ہے
رگ رگ نے سمیٹی ہے ترے نام کی فریاد
جب جب بھی پریشان مجھے دنیا نے کیا ہے
خالق نے قسم کھائی ہے اُس شہر اماں کی
جس شہر کی گلیوں نے تجھے ورد کیا ہے
اِک بار ترا نقشِ قدم چوم لیا تھا
اب تک یہ فلک شکر کے سجدے میں جھکا ہے
دل میں ہو تری یاد تو طوفاں بھی کنارہ
حاصل ہو ترا لطف تو صرصر بھی صبا ہے
غیروں پہ بھی الطاف ترے سب سے الگ تھے
اپنوں پہ بھی نوازش کا انداز جدا ہے
ہر سمت ترے لطف و عنایت کی بارش
ہر سو ترا دامانِ کرم پھیل گیا ہے
ہے موجِ صبا یا ترے سانسوں کی بھکارن
ہے موسم گل یا تری خیراتِ قبا ہے
سورج کو اُبھرنے نہیں دیتا ترا حبشی
بے زر کو ابوذر تیری بخشش نے کیا ہے
ثقلین کی قسمت تری دہلیز کا صدقہ
عالم کا مقدر ترے ہاتھوں پہ لکھا ہے
اُترے کا کہاں تک کوئی آیات کی تہہ میں
قرآن تری خاطر ابھی مصروفِ ثنا ہے
اب اور بیاں کیا ہوکسی سے تیری مدحت
یہ کم تو نہیں ہے کہ تو محبوبِ خدا ہے
اے گنبدِ خضرا کے مکین میری مدد کر
یا پھر یہ بتا کون میرا تیرے سوا ہے
بخشش تری آنکھوں کی طرف دیکھ رہی ہے
محسن ترے دربار میں چپ چاپ کھڑا ہے
یہ دل کا نگرہے کہ مدینے کی فضا ہے
سانسوں میں مہکتی ہیں مناجات کی کلیاں
کلیوں کے کٹوروں پہ ترا نام لکھا ہے
آیات کی جھرمٹ میں ترے نام کی مسند
لفظوں کی انگوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے
اب کو ن حدِ حسن طلب سوچ سکے گا
کونین کی وسعت تو تہہ دستِ دعا ہے
ہے تیری کسسک میں بھی دمک حشر کے دن کی
وہ یوں کہ مرا قریہ جاں گونج اُٹھا ہے
خورشید تری راہ میں بھٹکتا ہوا جگنو
مہتاب ترا ریزہ نقشِ کفِ پا ہے
واللیل ترے سایہ گیسو کا تراشا
والعصر تری نیم نگاہی کی ادا ہے
لمحوں میں سمٹ کر بھی ترا درد ہے تازہ
صدیوں میں بھی بکھر کر ترا عشق نیا ہے
یا تیرے خدوخال سے خیرہ مہ و انجم
یا دھوپ نے سایہ ترا خود اُوڑھ لیا ہے
یا رات نے پہنی ہے ملاحت تری تن پر
یا دن ترے اندازِ صباحت پہ گیا ہے
رگ رگ نے سمیٹی ہے ترے نام کی فریاد
جب جب بھی پریشان مجھے دنیا نے کیا ہے
خالق نے قسم کھائی ہے اُس شہر اماں کی
جس شہر کی گلیوں نے تجھے ورد کیا ہے
اِک بار ترا نقشِ قدم چوم لیا تھا
اب تک یہ فلک شکر کے سجدے میں جھکا ہے
دل میں ہو تری یاد تو طوفاں بھی کنارہ
حاصل ہو ترا لطف تو صرصر بھی صبا ہے
غیروں پہ بھی الطاف ترے سب سے الگ تھے
اپنوں پہ بھی نوازش کا انداز جدا ہے
ہر سمت ترے لطف و عنایت کی بارش
ہر سو ترا دامانِ کرم پھیل گیا ہے
ہے موجِ صبا یا ترے سانسوں کی بھکارن
ہے موسم گل یا تری خیراتِ قبا ہے
سورج کو اُبھرنے نہیں دیتا ترا حبشی
بے زر کو ابوذر تیری بخشش نے کیا ہے
ثقلین کی قسمت تری دہلیز کا صدقہ
عالم کا مقدر ترے ہاتھوں پہ لکھا ہے
اُترے کا کہاں تک کوئی آیات کی تہہ میں
قرآن تری خاطر ابھی مصروفِ ثنا ہے
اب اور بیاں کیا ہوکسی سے تیری مدحت
یہ کم تو نہیں ہے کہ تو محبوبِ خدا ہے
اے گنبدِ خضرا کے مکین میری مدد کر
یا پھر یہ بتا کون میرا تیرے سوا ہے
بخشش تری آنکھوں کی طرف دیکھ رہی ہے
محسن ترے دربار میں چپ چاپ کھڑا ہے