نعت برائے اصلاح: نگاہِ شوق میں بھر لوں تجلی میں مدینے کی

جناب محترم الف عین صاحب، اور دیگراحباب سے اصلاح کی گذارش ہے۔

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
نگاہِ شوق میں بھر لوں تجلی میں مدینے کی
اگر تدبیر ہو جائے مرے دل کے سنبھلنے کی
زہے قسمت کہ میری حاضری ہے انؐ کے روضہ پر
خدایا دور کر دینا کدورت میرے سینے کی
دیارے عشق کا کر لو نظارہ پھر سے میں مولا
نہ جانے ساعتیں کتنی بچی ہیں میرے جینے کی
مرے اللہ تجھ کو واسطہ ہے تیری رحمت کا
مری تقدیر میں لکھ دے سکونت اب مدینے کی
ٹھہرجا میری چشمِ نم پہنچنے دے مجھے در پر
تجھے کیوں بن کے جامِ عشق جلدی ہے چھلکنے کی
ہمیں تو گنبدِ خضرا کی چھاؤں میں ہی رہنا ہے
یہیں جینے کی خواہش ہے یہیں خواہش ہے مرنے کی
نہ بدلیں ہیں نہ بدلیں گے خدا کے ضابطے سارے
ضرورت ہے گناہگاروں روش اپنی بدلنے کی
 
آخری تدوین:
محترم الف عین صاحب، جناب مزمل شیخ بسمل صاحب کے اس مضمون میں آخر میں جو بات لکھی ہے اس حساب سے تو یہ قوافی درست نہیں بنتے؟ یعنی
ہے عجب حال یہ زمانے کے
یاد بھی طور ہے بھلانے کے
یہاں حرف روی ن ہے، حالانکہ بھلانا میں نون زائد ہے۔ لیکن "زمانے" کے اصلی نون کے سہارے سے بھلانے کے نون کو حرف روی کرکے قافیہ میں کشادگی پیدا کی گئی ہے۔
کیا اسے طرح مدینے کے اصلی نون کے سہارے سے سنبھنلے کے "ن" کو سنبھنلے کا موقع نہیں مل سکتا؟ گستاخی کی معافی چاہتا ہوں، کم سمجھ ہوں۔ بس اصلاح کی نیت سے سوال کیا ہے۔
 

امان زرگر

محفلین
اتنی اچھی نعت اور اتنے برے قوافی!!! ذرا غور تو کرو۔

معافی چاہتا ہوں، پھر وہی غلطی دہرائی ہے۔ اپنے حساب سے قافیہ "ن" کو رکھا تھا جو میری غلطی فہمی تھی، دیکھتا ہوں دوبارہ اس کو۔

مچلنے، چلنے، نکلنے، پگھلنے، پھسلنے، اگلنے، بدلنے، جلنے، سنبھلنے

قرینے، مہینے، مدینے، نگینے، کمینے، گینے، پسینے، خزینے، دفینے، زینے، سفینے، سینے

مرنے، کرنے، گزرنے، اترنے، بکھرنے، بھرنے، دھرنے
 

الف عین

لائبریرین
بسمل کی مثال میں ‘انےُ مشترک ہے۔ تمہاری نعت میں محض ’نے‘ ۔ میں اصلی نقلی نون کی بات نہ سمجھتا ہوں اور نہ مانتا ہوں۔ مشترک حرف سے پہلے کی حرکت سے قافیہ کا تعین ہوتا ہے میرے حساب سے تو۔ اسی لیے میں ’روی‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کرتا ہوں۔ میں اتنا سخت عروضی نہیں نا!
زرگر نے درست قوافی کی مثالیں دی ہیں۔
 
بسمل کی مثال میں ‘انےُ مشترک ہے۔ تمہاری نعت میں محض ’نے‘ ۔ میں اصلی نقلی نون کی بات نہ سمجھتا ہوں اور نہ مانتا ہوں۔ مشترک حرف سے پہلے کی حرکت سے قافیہ کا تعین ہوتا ہے میرے حساب سے تو۔ اسی لیے میں ’روی‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کرتا ہوں۔ میں اتنا سخت عروضی نہیں نا!
زرگر نے درست قوافی کی مثالیں دی ہیں۔
جی بہتر ہے، میں تصحیح کی کوشش کرتا ہوں۔

مچلنے، چلنے، نکلنے، پگھلنے، پھسلنے، اگلنے، بدلنے، جلنے، سنبھلنے

قرینے، مہینے، مدینے، نگینے، کمینے، گینے، پسینے، خزینے، دفینے، زینے، سفینے، سینے

مرنے، کرنے، گزرنے، اترنے، بکھرنے، بھرنے، دھرنے
بہت شکریہ امان اللہ بھائی۔
 
جناب محترم الف عین صاحب، تصحیح کے بعد دیکھیے اب مناسب ہے؟

نگاہِ شوق میں بھر لوں تجلی میں مدینے کی
اگر قسمت بدل جائے مرے جیسے کمینے کی
زہے قسمت کہ میری حاضری ہے انؐ کے روضہ پر
خدایا دور کر دینا کدورت میرے سینے کی
دیارے عشق کا کر لو نظارہ پھر سے میں مولا
نہ جانے ساعتیں کتنی بچی ہیں میرے جینے کی
مرے اللہ تجھ کو واسطہ ہے تیری رحمت کا
مری تقدیر میں لکھ دے سکونت اب مدینے کی
ٹھہر جا میری چشمِ نم پہنچنے دے مجھے در پر
وہاں جا کر ہی چھلکانا تڑپ اس آبگینے کی / عجب عادت ہے عجلت کی ترے اس آبگینے کی
ہمیں تو گنبدِ خضرا کی چھاؤں میں ہی رہنا ہے
یہیں مرنے کی خواہش ہے یہیں خواہش ہے جینے کی
محبت انؐ کی سیرت سے یہ میری خوش نصیبی ہے
یہی ترکیب ہے آسان بخشش کے سفینے کی
 

نور وجدان

لائبریرین
نگاہِ شوق میں بھر لوں تجلی میں مدینے کی
اگر قسمت بدل جائے مرے جیسے کمینے کی

ٓ------------------------------------

پہلے مصرعے میں ''میں '' بھرتی کا ہے جس سے مصرعے کا حسن متاثر ہو رہا ہے ، دوسرے مصرعے میں مرے جیسے ---بھرتی کا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے بعد مجھے لگتا ہے ایک اچھی نعت میں کمینے کا لفظ نکال دیں
ٓ----------

زہے قسمت کہ میری حاضری ہے انؐ کے روضہ پر
خدایا دور کر دینا کدورت میرے سینے کی
-----------------

دوسرا مصرعہ اس سے اچھے خیال کا متقاضی ہے ، آپ ان کے در پر شوق سے گئے ہیں ، شوق والے کدورت نہیں رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں پر آپ جدائی کا ، وفور شوق سے حال میں آنے کا ذکر کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
--------------------------------------
دیارے عشق کا کر لو نظارہ پھر سے میں مولا
نہ جانے ساعتیں کتنی بچی ہیں میرے جینے کی
--------------------------------------

کرلوں ...
پھر سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر والے مصرعے میں تجلی کا ذکر ہے ، اسس سے پہلے اگر موقع ملا ہے تو تجلی پہلے کیوں نہ آنکھ میں جگہ نہ پاسکی ، وہ اس شعر میں یا پہلے شعر میں ذکر ہوتا تو شعر میں دم ہوتا
---------------- یہاں بھی میں ، میرے بھرتی کا ہے

مرے اللہ تجھ کو واسطہ ہے تیری رحمت کا
مری تقدیر میں لکھ دے سکونت اب مدینے کی
-----------------------------
ٹھہر جا میری چشمِ نم پہنچنے دے مجھے در پر
وہاں جا کر ہی چھلکانا تڑپ اس آبگینے کی / عجب عادت ہے عجلت کی ترے اس آبگینے کی

----------------------------
غزل میں اشعار میں ربط مقفود ہے ، ایک طرف آپ وہاں حاضر بیٹھے ہیں تو دوسری طرف سفر میں ، تیسری طرف ادھر آنے کی دعا ہو رہی ہے ۔۔۔۔ دوسرا مصرعہ بدل دیں ،

ہمیں تو گنبدِ خضرا کی چھاؤں میں ہی رہنا ہے
یہیں مرنے کی خواہش ہے یہیں خواہش ہے جینے کی
------------------------------------
یہاں پر یا تو حسرت یا خواہش کا ذکر کریں پہلے مصرعے میں کہ رہنا آپ کے اختیار مین نہین ، اس سے دوسرا مصرعہ جڑ جائے گا
محبت انؐ کی سیرت سے یہ میری خوش نصیبی ہے
یہی ترکیب ہے آسان بخشش کے سفینے کی[/QUOTE]

آسان بخشش کا سفینے سے کوئی جوڑ نہیں بن رہا

امید ہے میری رائے پر برا نہیں منائیں گے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مطلع اور آخری شعر کے بارے میں تو عزیزہ نور سے متفق ہوں۔
رہا سوال اس تسلسل کا کہ شاعر مدینہ جانا چاہتا ہے یا چلا گیا ہے یا سفر میں ہے، تو اس میں حرج نہیں سمجھتا۔ ہاں، کہیں تسلسل پیدا ہوتا نہ محسوس ہو ، اس لیے ان کے درمیان فاصلہ رکھ دیں۔
حاصل نعت تو مجھے یہ شعر لگا، واہ
ٹھہر جا میری چشمِ نم پہنچنے دے مجھے در پر
عجب عادت ہے عجلت کی ترے اس آبگینے کی
ضمنی طور پر اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ دونوں متبادلات میں سے میری ترجیح اس مصرع کو ہے
 
آخری تدوین:
مطلع اور آخری شعر کے بارے میں تو عزیزہ نور سے متفق ہوں۔
رہا سوال اس تسلسل کا کہ شاعر مدینہ جانا چاہتا ہے یا چلا گیا ہے یا سفر میں ہے، تو اس میں حرج نہیں سمجھتا۔ ہاں، کہیں تسلسل پیدا ہوتا نہ محسوس ہو ، اس لیے ان کے درمیان فاصلہ رکھ دیں۔
حاصل ن عت تو مجھے یہ شعرر لگا، واہ
ٹھہر جا میری چشمِ نم پہنچنے دے مجھے در پر
عجب عادت ہے عجلت کی ترے اس آبگینے کی
ضمنی طور پر اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ دونوں متبادلات میں سے میری ترجیح اس مصرع کو ہے
بہت شکریہ محترم الف عین صاحب آپ نے مشکل آسان کر دی۔ میں انشاءاللہ متبادل دیکھتا ہوں۔
 
جناب محترم الف عین صاحب ان اشعار کو دیکھیے گا مناسب رہیں گے
نگاہِ شوق کو بھر لوں تجلی سے مدینے کی
سکھا لوں ذوق کو تہذیب الفت کے قرینے کی / سجا لوں عشق پر رنگت عقیدت کے قرینے کی
زہے قسمت کہ میری حاضری ہے انؐ کے روضہ پر
ادب لازم مگر حالت ہے اب پر سوز سینے کی
مجھے تو گنبدِ خضرا کی چھاؤں سے محبت ہے
یہیں مرنے کی خواہش ہے یہیں خواہش ہے جینے کی
چراغِ عشق سے کر لوں اجالا دل میں اب مولا
نہ جانے ساعتیں کتنی بچی ہیں میرے جینے کی
محبت انؐ کی سیرت سے یہ میری خوش نصیبی ہے

یہی دولت/صورت ہے میرے پاس بخشش کے سفینے کی
 

الف عین

لائبریرین
مطلع اچھا ہو گیا ہے، متبادل نمبر 2 رکھ لو۔
اگلے دونوں اشعار بھی درست ہیں۔
چراغِ عشق سے کر لوں اجالا دل میں اب مولا
نہ جانے ساعتیں کتنی بچی ہیں میرے جینے کی
۔۔ مجھے ’مولا‘ بھی بھرتی کا محسوس ہوا۔عشقِ رسول یا نورِ ہدایت وغیرہ استعمال کر کے الفاظ بدل کر دیکھو۔

محبت انؐ کی سیرت سے یہ میری خوش نصیبی ہے

یہی دولت/صورت ہے میرے پاس بخشش کے سفینے کی
۔۔نہیں بھئی، سفینے کے بغیر ہی نعت اچھی رواں ہے۔
 
مطلع اچھا ہو گیا ہے، متبادل نمبر 2 رکھ لو۔
اگلے دونوں اشعار بھی درست ہیں۔
چراغِ عشق سے کر لوں اجالا دل میں اب مولا
نہ جانے ساعتیں کتنی بچی ہیں میرے جینے کی
۔۔ مجھے ’مولا‘ بھی بھرتی کا محسوس ہوا۔عشقِ رسول یا نورِ ہدایت وغیرہ استعمال کر کے الفاظ بدل کر دیکھو۔

محبت انؐ کی سیرت سے یہ میری خوش نصیبی ہے

یہی دولت/صورت ہے میرے پاس بخشش کے سفینے کی
۔۔نہیں بھئی، سفینے کے بغیر ہی نعت اچھی رواں ہے۔
بہت شکریہ جناب، میں ان دو اشعار کا متبادل سوچتا ہوں۔
 
جناب محترم الف عین صاحب، یہ متبادل درست ہیں؟
یہی خواہش ہے عشقِ مصطفیؐ سے دل منور ہو
نہ جانے ساعتیں کتنی بچی ہیں میرے جینے کی
انھیںؐ کے دم سے ہے رونق بہاروں کی جہانوں میں
مہک پھولوں سے بڑھ کر ہے محمدؐ کے پسینے کی
 

الف عین

لائبریرین
انھیںؐ کے دم سے ہے رونق بہاروں کی جہانوں میں
۔۔جہانوں میں ذرا بھرتی کا لگ رہا ہے۔ ہم کو دوسری دنیاؤں کا کیا معلوم؟ فضاؤں میں کیا جا سکتا ہے شاید۔
پہلا شعر ٹھیک ہے۔
 
انھیںؐ کے دم سے ہے رونق بہاروں کی جہانوں میں
۔۔جہانوں میں ذرا بھرتی کا لگ رہا ہے۔ ہم کو دوسری دنیاؤں کا کیا معلوم؟ فضاؤں میں کیا جا سکتا ہے شاید۔
پہلا شعر ٹھیک ہے۔
بہت شکریہ جناب، ان میں سے کوئی مصرع مناسب رہے گا
انھیں کی ذات سے خوشبو بہاروں نے چرائی ہے / انھیں کی ذات کا صدقہ بہاروں کی یہ رونق ہے
مہک پھولوں سے بڑھ کر ہے محمدؐ کے پسینے کی
 
Top