محمد تابش صدیقی
منتظم
بغیرِ رحمتِ یزداں نہ ممکن ہے، نہ آساں ہے
ثنا خوانِ محمدؐ ہوں تو میرے رب کا احساں ہے
کوئی سب لکھ دے اس کی حمد کیونکر اس کا امکاں ہے
کہ وہ ہے جس قدر ظاہر، اسی نسبت سے پنہاں ہے
وہ ہے پیغمبرِ آخر، مطاعِ نوعِ انساں ہے
وہ سرکارِ دو عالم ہے، بر آں محبوبِ یزداں ہے
شہنشہ ہیں گدائے در، وہ ایسا شاہِ شاہاں ہے
درِ اقدس پہ اس کے ازدحامِ میر و سلطاں ہے
وہ انسانوں کا ہادی ہے، بذاتِ خود بھی انساں ہے
مقام اونچا ہے لیکن متصل ہی بعدِ یزداں ہے
نظر آنا نہ آنا اس کا مثلِ مہرِ تاباں ہے
جو اک مطلع سے غائب، دوسرے مطلع پہ رخشاں ہے
ضیائے ماہ و انجم ہو نہ ہو کیا کام ہے مجھ کو
بہ یادِ شاہِ خوباں قلب میں میرے چراغاں ہے
شریعت نے کیے حل عقدہ ہائے زندگی سارے
ہمیں اب کچھ نہیں مشکل ہمیں ہر کام آساں ہے
شفاعت چاہیے ان کی، کرم کی اک نظرؔ شاہا
سرِ محشر وہی ہیں اور میرا کون پرساں ہے
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
ثنا خوانِ محمدؐ ہوں تو میرے رب کا احساں ہے
کوئی سب لکھ دے اس کی حمد کیونکر اس کا امکاں ہے
کہ وہ ہے جس قدر ظاہر، اسی نسبت سے پنہاں ہے
وہ ہے پیغمبرِ آخر، مطاعِ نوعِ انساں ہے
وہ سرکارِ دو عالم ہے، بر آں محبوبِ یزداں ہے
شہنشہ ہیں گدائے در، وہ ایسا شاہِ شاہاں ہے
درِ اقدس پہ اس کے ازدحامِ میر و سلطاں ہے
وہ انسانوں کا ہادی ہے، بذاتِ خود بھی انساں ہے
مقام اونچا ہے لیکن متصل ہی بعدِ یزداں ہے
نظر آنا نہ آنا اس کا مثلِ مہرِ تاباں ہے
جو اک مطلع سے غائب، دوسرے مطلع پہ رخشاں ہے
ضیائے ماہ و انجم ہو نہ ہو کیا کام ہے مجھ کو
بہ یادِ شاہِ خوباں قلب میں میرے چراغاں ہے
شریعت نے کیے حل عقدہ ہائے زندگی سارے
ہمیں اب کچھ نہیں مشکل ہمیں ہر کام آساں ہے
شفاعت چاہیے ان کی، کرم کی اک نظرؔ شاہا
سرِ محشر وہی ہیں اور میرا کون پرساں ہے
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی