ماہِ مدینہ وہ شاہِ والا
ہے جس کے دم سے جگ میں اجالا
سب کا معلم ایسا اک امی
استاد جس کا خود حق تعالی
امت میں جس کی ٹھہرا برابر
ادنی سے ادنی ، اعلا سے اعلا
ضربت سے توحید کی جس نے توڑا
شرکِ جلی کا مضبوط تالا
روتے ہوں کو جس نے ہنسایا
گرتے ہوں کو جس نے سنبھالا
جس کو عمر نے بس دے دیا دل
جانچا نہ پرکھا دیکھا نہ بھالا
پیوستہ باہم محرابِ ابرو
وہ گردِ عارض زلفوں کا ہالا
ہر لمحہ جس کا اُولی سے اولا
ہر آن میں جو بالا سے بالا
دیکھا نہ اب تک چشمِ فلک نے
ایسا انوکھا ایسا نرالا
ایمان و تقوی معیارِ عزت
وجہ فضیلت گورا نہ کالا
کنجِ لحد ہو ، پل ہو کہ میزاں
ہر جا چلے گا تیرا حوالہ
جس کو ڈبویا موجِ الم نے
ٹھوکر سے تو نے اس کو اچھالا
تیرا بلایا مقبولِ داور
مردودِ یزداں تیرا نکالا
پانی کے ہوتے پانی کو ترسا
دل بندِ زہرا ، نازوں کا پالا
درباں جو الجھا بابِ نبی پر
اُس نے کہا تم ، میں کہا ہالا
تجھ کو نصیر اب کیا خوفِ دوزخ
پل پر کھڑا ہے خود کملی والا