محمد تابش صدیقی
منتظم
لاکھ آفتاب ڈوبے تو نکلا وہ ماہتاب
ضو پاشیوں سے جس کی ہے ہر ذرہ بہرہ یاب
خلّاقِ دو جہاں کا ہے وہ حسنِ انتخاب
آئے کہاں سے حسنِ محمدؐ کا پھر جواب
اس رخ پہ ہیں نثار جو صد ماہ و آفتاب
سیرت بعینہٖ ہے وہ تفسیرِ اَلکتاب
قرآں کہ آنحضورؐ سے ہو جس کا انتساب
’لارَیبَ فیہ‘ ہے صفتِ ’ذٰلکَ الکتاب‘
جو ہے خُمِ حجاز میں توحید کی شراب
ساقی کا اذن ہے کہ پِئیں رند بے حساب
بحرِ علومِ معرفتِ حق ہے ان کی ذات
تا حشر چنتے رہیے لٹائے وہ دُرِّ ناب
ہر چند بے نیاز ہے ذاتِ خدا مگر
ان کی زباں سے بندوں کو برسوں کیا خطاب
اسرا کی شب گواہ ہے میرا خدا گواہ
جلوہ فگن ہوئے ہیں سرِ عرش بھی جناب
در بارگاہِ ربِّ دو عالم ہوں ملتجی
اک دن کرے مجھے بھی ترے در پہ باریاب
جائے پنہ نظرؔ کی لِوائے محمدیؐ
اے روزِ حشر مجھ میں نہیں طاقتِ حساب
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
ضو پاشیوں سے جس کی ہے ہر ذرہ بہرہ یاب
خلّاقِ دو جہاں کا ہے وہ حسنِ انتخاب
آئے کہاں سے حسنِ محمدؐ کا پھر جواب
اس رخ پہ ہیں نثار جو صد ماہ و آفتاب
سیرت بعینہٖ ہے وہ تفسیرِ اَلکتاب
قرآں کہ آنحضورؐ سے ہو جس کا انتساب
’لارَیبَ فیہ‘ ہے صفتِ ’ذٰلکَ الکتاب‘
جو ہے خُمِ حجاز میں توحید کی شراب
ساقی کا اذن ہے کہ پِئیں رند بے حساب
بحرِ علومِ معرفتِ حق ہے ان کی ذات
تا حشر چنتے رہیے لٹائے وہ دُرِّ ناب
ہر چند بے نیاز ہے ذاتِ خدا مگر
ان کی زباں سے بندوں کو برسوں کیا خطاب
اسرا کی شب گواہ ہے میرا خدا گواہ
جلوہ فگن ہوئے ہیں سرِ عرش بھی جناب
در بارگاہِ ربِّ دو عالم ہوں ملتجی
اک دن کرے مجھے بھی ترے در پہ باریاب
جائے پنہ نظرؔ کی لِوائے محمدیؐ
اے روزِ حشر مجھ میں نہیں طاقتِ حساب
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی