محمد تابش صدیقی
منتظم
منال و مال، نہ سیم و زر و گہر کے لیے
ہے آرزو تو مدینہ کے بام و در کے لیے
درِ حضورؐ کی خاطر، خدا کے گھر کے لیے
میں انتظار میں کب سے ہوں اس سفر کے لیے
سر آسماں کا جھکا ہے ازل سے تعظیماً
بچھی ہے کاہکشاں ان کی رہ گزر کے لیے
کسے نہیں ہے تمنا وہاں کے ذروں کی
چلے صبا بھی تری خاکِ رہ گزر کے لیے
میں ان کے اوجِ مقدر پہ رشک کرتا ہوں
زمینِ طیبہ کے ٹکڑے جنھوں نے مر کے لیے
پہنچ سکوں تو وہیں پر لُٹا کے سب آؤں
میں ایک اشک بھی چھوڑوں نہ چشمِ تر کے لیے
جو کچھ ہوا ہے تمھارے لیے شبِ اسرا
وہ اہتمام ہوا کب کسی بشر کے لیے
انھیں کے پاؤں کے نیچے کی خاک لے آؤ
جو چاہو چارہ گرو! تم شفا نظرؔ کے لیے
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
ہے آرزو تو مدینہ کے بام و در کے لیے
درِ حضورؐ کی خاطر، خدا کے گھر کے لیے
میں انتظار میں کب سے ہوں اس سفر کے لیے
سر آسماں کا جھکا ہے ازل سے تعظیماً
بچھی ہے کاہکشاں ان کی رہ گزر کے لیے
کسے نہیں ہے تمنا وہاں کے ذروں کی
چلے صبا بھی تری خاکِ رہ گزر کے لیے
میں ان کے اوجِ مقدر پہ رشک کرتا ہوں
زمینِ طیبہ کے ٹکڑے جنھوں نے مر کے لیے
پہنچ سکوں تو وہیں پر لُٹا کے سب آؤں
میں ایک اشک بھی چھوڑوں نہ چشمِ تر کے لیے
جو کچھ ہوا ہے تمھارے لیے شبِ اسرا
وہ اہتمام ہوا کب کسی بشر کے لیے
انھیں کے پاؤں کے نیچے کی خاک لے آؤ
جو چاہو چارہ گرو! تم شفا نظرؔ کے لیے
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی