نیرنگ خیال
لائبریرین
میں تیرا ثنا خواں ہوں مجھے ذوق نظر دے
اک ذہنِ رسا قلبِ تپاں دیدہ تر دے
تو میرے دردوں کو پذیرائی عطا کر
تو میرے سلاموں کو کبھی رنگِ اثر دے
تو قطرہء نیساں کو بنا دیتا ہے موتی
آنکھیں میں جو آنسو ہیں انہیں آبِ گہر دے
ہم منزل حیات پہ کھڑے سوچ رہے ہیں
اس قافلہء شوق کو اب اذن سفر دے
کچھ شب کے اندھیرے میں سجھائی نہیں دیتا
اے مطلعء انوار مجھے نور سحر دے
اک عمر سے سیراب نہیں چشم تماشا
اے سید لولاک مری آنکھ کو بھر دے