ملک عدنان احمد
محفلین
بلند ہاتھ میں کاسہ ہے دستِ خالی کا
حرم کی سمت سفر ہے یہ مجھ سوالی کا
کبھی کبھی میری آنکھوں میں آ کے دیکھتی ہے
یہ اشتیاق عجب ہے لہو کی لالی کا
خیال بس میں نہیں لفظ دسترس میں نہیں
قصیدہ کیسے کہوں پیکرِ مثالی کا
مجال کیا کہ سمندر کو میں سمیٹ سکوں
کہ میرا ظرف ہے ٹوٹی ہوئی پیالی کا
ملالِ بے ہنری کی چھپاؤں آپ سے میں
کہ مجھ کو رنج ہے خود اپنی بے کمالی کا
میں اپنے کرب کو سب سے زیادہ جانتا ہوں
سو ترجمان ہوں اپنی ہی خستہ حالی کا
بتاؤں کیسےبرگ و ثمر ک ہوتے ہوئے
میری زمیں پہ موسم ہے خشک سالی کا
(سعود عثمانی)
حرم کی سمت سفر ہے یہ مجھ سوالی کا
کبھی کبھی میری آنکھوں میں آ کے دیکھتی ہے
یہ اشتیاق عجب ہے لہو کی لالی کا
خیال بس میں نہیں لفظ دسترس میں نہیں
قصیدہ کیسے کہوں پیکرِ مثالی کا
مجال کیا کہ سمندر کو میں سمیٹ سکوں
کہ میرا ظرف ہے ٹوٹی ہوئی پیالی کا
ملالِ بے ہنری کی چھپاؤں آپ سے میں
کہ مجھ کو رنج ہے خود اپنی بے کمالی کا
میں اپنے کرب کو سب سے زیادہ جانتا ہوں
سو ترجمان ہوں اپنی ہی خستہ حالی کا
بتاؤں کیسےبرگ و ثمر ک ہوتے ہوئے
میری زمیں پہ موسم ہے خشک سالی کا
(سعود عثمانی)