نفس زکیہ اور خلیفہ منصور

طالوت

محفلین
اہلبیت میں سے محمد بن عبداللہ جو نفس زکیہ کے لقب سے مشہور تھے اپنی خلافت کے لئے بہت کوشاں تھے ۔ بنی امیہ کے آخری خلیفہ مروان کے زمانے میں اکثر روساء بنی ہاشم نے ان کی امامت کی بیعت کی تھی اور ان کو مہدی تسلیم کیا تھا،۔ اس بیعت میں سفاح اور منصور بھی شامل تھے۔ اس وجہ سے جب عباسیوں نے خلافت قائم کی تو نفس زکیہ نے سفاح کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی اور چاہا کہ خود اپنی خلافت کا اعلان کر دیں لیکن سفاح اور ان کے والد اور چچا کے ساتھ سلوک کرتا تھا اسی لئے اس کے زمانے میں خاموش رہے۔ نفس زکیہ کے دوسرے بھائی ابراہیم بن عبداللہ تھے جن کو خراسان کی ایک جماعت امام مانتی تھی اور ان کی حمایت کے لئے تیار تھی۔
سفاح کے بعد جب منصور خلیفہ ہوا تو چونکہ اس کو ان دونوں بھائیوں کے ارادے معلوم تھے اس لئے ان کی طرف سے بھی بہت بدگمان تھا۔ نفس زکیہ کا مرکز مدینہ تھا اور وہ ارد گرد کے قبائل میں روپوش رہتے تھے۔ منصور وہاں کے عاملوں کو سخت سخت تاکید لکھتا کہ ان کا پتہ لگائیں مگر وہ قاصر رہے۔ آخر اس نے رباح کو وہاں کا عامل بنا کر بھیجا اس کو معلوم ہوا کہ وہ مدینہ میں چھپ کر اپنی جماعت میں آتے ہیں اس لئے اس نے بنی حسن میں سے تیرہ آدمیوں کر پکڑ کر منصور کے پاس بھیج دیا اس نے ان پر ایسی سختیاں کیں کہ ان میں سےا کثر ہلاک ہو گئے ۔ اب نفس زکیہ کو اپنے خاندان پر یہ مظالم دیکھ کر تاب نہ رہی۔ یکم رجب 145 ہجری کو مدینہ منورہ میں داخل ہوئے رباح کو گرفتار کر کے شہر پر قبضہ کر لیا۔ منصور کو جب اطلاع ہوئی تو اس نے پہلے کوفہ کو محصور کر دیا کہ شیعہ کا تعلق ان سے منقطع رہے پھر ان کو لکھا۔

"از جانب ابو جعفر عبداللہ بن محمد (منصور) امیر المومنین بنام محمد بن عبداللہ (نفس زکیہ):
قران میں اللہ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑیں اور دنیا میں فساد پھیلائیں ۔ ان کی سزا یہ ہے کہ مار ڈالے جائیں یا سولی چڑھا دئیے جائیں یا ان کے ہاتھ پاؤں برخلاف کاٹ دئیے جائیں یا ملک بدر کیے جائیں۔ اسلیے میں اللہ اور اس کے نبی محمد کے حق کا واسطہ دلا کر عہد و پیمان کرتا ہوں کہ اگر اس سے پہلے کہ میں تمھارے اوپر قابو پاؤں تم توبہ کر لو گے تو میں تمہاری اور تمھارے تمام بھائیوں اور ساتھیوں اور معتقدوں کی جو اس بغاوت میں شریک ہیں جان بخشی کر دوں گا نیز دس لاکھ درہم تم کو دوں گا کہ جہاں چاہو رہو۔ اور تمھاری جو ضروریات ہوں گی ان کو پورا کرتا رہوں گا ۔ تمہارے اہل بیت اور شیعہ میں سے جو لوگ میرے قید خانوں میں ہیں ان کو چھوڑ دوں گا اور کسی قسم کی تکلیف نہیں دوں گا ۔ اگر تم اس پر راضی ہو تو اپنے کسی متعمد کو بھیجو کہ آ کر مجھ سے عہد نامہ لکھوا لے"
اس کے جواب میں نفس زکیہ نے لکھا:
"از جانب محمد بن عبداللہ مہدی امیر المومنین بنام عبداللہ بن محمد :
میں بھی تمھارے لیے اسی قسم کی امان پیش کرتا ہوں جس قسم کی تم نے پیش کی ہے ۔ تم جانتے ہو کہ خلافت ہمارا حق ہے اور ہمارے ہی شیعوں کی بدولت تم نے اس کو حاصل کیا ہے۔ ہمارے باپ حضرت علی وصی اور امام تھے۔ ہم جو ان کے بیٹے ہیں ۔ زندہ ہیں۔ پھر ہمارے ہوتے ہوئے تم کیسے اس کے وارث بن گئے ؟ تمھیں یہ بھی خوب معلوم ہے کہ جاہلیت اور اسلام دونوں میں بنی ہاشم میں سے جو نسبی فضائل و مفاخر ہم کو حاصل ہیں وہ کسی کو حاصل نہیں ہو سکے۔ زمانہ جاہلیت میں رسول اللہ کی دادی فاطمہ بنت عمرو کے شکم سے ہم ہیں نہ کہ تم۔ خاص ہاشم کی اولاد میں اس نسب میں سب سے بہتر اور ماں باپ کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر ہوں۔ میری رگوں میں امہات اولاد کو غیر عربی خون مطلق نہیں ہے۔ میرے نسب کو اللہ نے ہمیشہ ممتاز رکھا ۔ دنیا میں سب سے افضل محمد رسول اللہ ہیں ۔ میں ان بیٹا ہوں۔ صحابہ میرے باپ حضرت علی اسلام میں سب سے اول علم میں سب سے فائق اور جہاد میں سب سے افضل تھے ، میری ماں حضرت خدیجہ ہیں جنھوں نے اس امت میں سب سے پہلے نماز پڑھی۔ پھر حضرت فاطمہ ہیں جو ان کی بیٹیوں میں سب سے بہتر اور جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔ زمانہ اسلام میں ہاشم کے بہترین فرزند حضرت حسن اور حسین ہیں جو بہشتی نوجوانوں کے سید ہیں۔ ان میں سے بڑے کا میں بیٹا ہوں۔ اب دیکھو حضرت علی والدین کی طرف سے ہاشم کے بیٹے ہیں امام حسن والدین کی طرف سے عبدالمطلب کے بیٹے ہیں اور میں والدین کی طرف سے رسول اللہ کا بیٹا ہوں۔ اللہ نے ہمارا امتیاز ہمیشہ قائم رکھا یہاں تک کہ جہنم میں بھی اس نے اس کا لحاظ کیا۔ یعنی میں اس شخص کا بیٹا ہوں جو جنت میں سب سے بڑادرجہ رکھتا ہے اور اس شخص کا بیٹا ہوں جو جہنم میں سب سے ہلکا عذاب پائے گا۔ اس طرح پر نیکیوں میں میں سب سے بہتر نیک اور گنہگاروں میں سب سے کمتر گنہگار کا فرزند ہوں۔ میں اللہ کو گواہ کر کے تم کو ہر چیز کی سوائے کسی شرعی حد یا کسی مسلم یا مصابد کے حق کے جو تمہارے ذمے ہو امان دیتا ہوں اور میں بہ نسبت تمہارے عہد کا زیادہ پابند ہوں۔ تم جو مجھ کو امان دی ہے وہ کون سی ہے ؟ ابن ہیرہ والی یا وہ جو تم نے اپنے چچا عبداللہ کو یا ابو مسلم خراسانی کو دی تھی ۔فقط
"

منصور نے جواب میں لکھا:
"از جانب ابو جعفر عبداللہ بن محمد (منصور) امیر المومنین بنام محمد بن عبداللہ (نفس زکیہ):
تمھارا خط مجھ کو ملا ۔ عوام کو برانگیختہ کرنے اور جہلا میں مقبول بننے کے لیے تم نے یہ نسب و مفاخر جوڑ رکھے ہیں۔ جن کی ساری بنیاد عورتوں پر ہے۔ حالانکہ عورتوں کا وہ درجہ نہیں جو چچا کا ہے۔ تم کو معلوم ہے جب اللہ نے رسول عربی کو معبوث فرمایا تو اس وقت ان کے چچاؤں میں چار شخص زندہ تھے (حمزہ،عباس، ابو طالب اور ابو لہب)۔ ان میں سے دو اسلام لائے جن میں سے ایک میرا باپ تھااور دو کافر رہے جن میں سے ایک تمھارا باپ تھا۔ تم نے عورتوں کا ذکر کر کے جو ان کی قرابت پر جو فخر کیا ہے۔ یہ نادانی ہے۔ اگر عورتوں کو نسبی فضیلت میں سے کوئی حصہ ملتا تو ساری فضلیت رسول اللہ کی والدہ کے لیے ہوتی۔ لیکن اللہ تو جس کو چاہتا ہے اپنے دین سے سربلند کرتا ہے۔ تعجب ہے کہ ابو طالب کی والدہ فاطمہ بنت عمرو پر بھی تم نے ناز کیا ہے۔ سوچو تو کہ ان کے بیٹوں میں سے اللہ نے کسی کو بھی اسلام کی ہدایت کی اور اگر کرتا تو اس کے زیادہ حقدار نبی کے والد ہو سکتے تھے۔ لیکن وہ تو جس کو چاہتا ہے اسی کو ہدایت دیتا ہے۔ تم نے اس پر بھی فخر کیا ہے کہ حضرت علی والدین کی طرف سے ہاشمی ہیں اور حسن والدین کی طرف سے عبدالمطلب کے بیٹے ہیں اور تمھارا نسب والدین کی طرف سے رسول اللہ تک جا پہنچتا ہے۔ اگر واقعی یہ کوئی فضیلت ہو تی تو نبی اس کے زیادہ مستحق ہوئے لیکن وہ تو صرف ایک ہی طرف سے ہاشمی ہیں۔ پھر تم اپنے آپ کو رسول اللہ کا بیٹا کہتے ہو ؟ حالانکہ قران نے اس سے بالکل انکار کیا ہے ماکان محمد ابا احد من رجالکم (محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ) ہاں تمھارا یہ کہنا درست ہے کہ تم ان کی بیٹی کی اولاد ہو اور یہ بے شک ایک قریبی رشتہ ہے لیکن اس کے ذریعے کسی قسم کی میراث نہیں مل سکتی اور نہ اس سے تم امامت کے حقدار ہو سکتے ہو۔ اسی قرابت کی بنیاد پر تمھارے باپ حضرت علی نے ہر طرح پر خلافت ھاصل کرنے کی کوشش کی۔ حضرت فاطمہ کو حضرت ابوبکر سے لڑا کر رنجیدہ کیا۔ اسی غصہ میں ان کی بیماری کی بھی کسی کو اطلاع نہیں کی اور جب انھوں نے انتقال فرمایا تو رات کو ہی لے جا کر ان کو دفن کر دیا۔ مگر کوئی ابوبکر کو چھوڑ کر ان کی خلافت پر راضی نہ ہوا۔ خود آنحضرت کی بیماری کے زمانے میں بھی وہ موجود تھے۔ لیکن نماز پڑھانے کا حکم آپ نے حضرت ابوبکر کو دیا۔ ان کے بعد حضرت عمر خلیفہ ہو گئے۔ پھر خلافت اصحاب شورٰی میں آئی اس میں بھی وہ انتخاب میں نہ آ سکے اور حضرت عثمان خلیفہ ہو گئے۔ ان کے بعد انھوں نے طلحہ و زبیر پر سختی کی۔ سعد بن ابی وقاص سے بیعت لینی چاہی۔ انھوں نے اپنا پھاٹک بند کر لیا۔ جب علی گزر گئے حسن ان کی جگہ پر آئے۔ معاویہ نے شام سے لشکر کشی کی نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ رقم ان سے لے کر اپنے شیعہ اور خلافت دونوں کو معاویہ کے سپرد کر دیا اور مدینہ چلے گئے۔ لہذا اگر تمھارا کچھ حق بھی تھا تو اس کو فروخت کر چکے۔ تمھارا یہ کہنا کہ اللہ نے جہنم میں بھی تمھارے امتیاز کا لحاظ رکھا۔ تمھارے باپ ابو طالب کو سب سے کمتر عذاب ملے گا۔ نہایت افسوس ناک ہے۔ اللہ کا عذاب خواہ کم ہو یا زیادہ مسلمان کے لیے فخر کی چیز نہیں۔ اور نہ اس میں کوئی فضیلت ہے۔
یہ جو تم نے لکھا ہے کہ تمھاری رگوں میں عجمی خون مطلق نہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم آنحضرت کے فرزند ابراہیم سے بھی بڑھ کر اپنے آپ کو سمجھتے ہو ۔ حالانکہ وہ ہر لحاظ سے تم سے افضل تھے۔ خود تمھارے خاندان میں زین العابدین تھے وہ تمھارے دادا حسن بن حسن سے بہتر تھے۔ پھر ان کے بیٹے محمد باقی تمھارے باپ سے بہتر اور ان کے بیٹے جعفر صادق تم سے بہتر ہیں۔ حالانکہ ان سب کی رگوں میں عجمی خون ہے۔ تم یہ بھی دعوٰی کرتے ہو کہ نسب اور ماں باپ کے لحاظ سے تم کل بنی ہاشم سے بہتر ہو ۔ بنی ہاشم میں رسول اللہ بھی ہیں تمھیں یہ تو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن اللہ کو منہ دکھانا ہے۔
 صفین کے معاملے میں تمھارے باپ حجرت علی نے پنچوں سے پیمان کیا تھا کہ ان کے فیصلے پر رضا مند ہو جائیں گے۔ تم نے یہ سنا ہو گا کہ پنچوں نے ان کو خلافت سے معزول کر دیا تھا۔ یزید کے عہد میں تمھارے عم حسین بن علی ابن زیادہ کے مقابلے کے لیے کوفہ آئے اور جو لوگ ان کے حامی تھے انھیں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ان کے بعد تمھارے خاندان کے کئی آدمی یکے بعد دیگرے خلافت کے لیے اٹھے۔ بنی امیہ نے ان کو قتل کیا اور سولی پر چڑھایا یہاں تک کہ ہم مستعد ہوئے اور ہم نے تمھارا اور اپنا سب کا انتقام ان سے لیا۔ وہ نماز کے بعد تمھارے اوپر جو لعنتیں بھیجا کرتے تھے اس کو بند کیا۔ تمھارے رتبے بڑھائے۔ اب انھی امور کو تم ہمارے سامنے بطور حجت پیش کرتے ہو ۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے حضرت علی کی فضیلت کا اظہار کیا تو ہم ان کو عباس و حمزہ سے بھی بڑھ کر تسلیم کرتے ہیں ؟ وہ سب لوگ محفوظ گزر گئے اور حجرت علی ان جنگوں میں پڑے جن میں مسلمانوں میں خونریزی ہوئی۔
تمھیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ زمانہ جاہلیت میں سقاتیہ حج اور زمزم کے متولی حضرت عباس تھے نہ کہ ابو طالب۔ حضرت عمر کی عدالت میں تمھارے باپ نے اس کا دعوٰی بھی پیش کیا مگر فیصلہ ہمارے حق میں ہوا۔ رسول اللہ نے جس وقت وفات پائی اس وقت ان کے عمام میں سے سوائے حضرت عباس کے اور کوئی زندہ نہ تھا۔ اس لیے کل اولاد عبدالمطلب میں سے آنحضرت کے وارث وہی ہیں۔ پھر بنی ہاشم میں سے بہت سے لوگ خلافت کے لیے اٹھے لیکن بنی عباس نے ہی اس کو حاصل کیا۔ لہذا قدیم استحقاق اور جدید کامیابی حضرت عباس اور ان کی اولاد کے ہی حصہ میں آئی۔ بدر کی لڑائی میں تمھارے چچا طالب اور عقیل کی وجہ سے مجبوراً حضرت عباس کو بھی آنا پڑا۔ ورنہ وہ بھوکوں مر جاتے یا عتبہ اور شیبہ کے پیالے چاٹتے۔ ہمارے ہی باپ کی بدولت اس ننگ عار سے بچے۔ نیز آغاز اسلام میں قحط کے زمانے میں حضرت عباس نے ہی ابو طالب کی مدد کی۔ پھر تمھارے چچا عقیل کا فدیہ بھی بدر میں انھوں نے ادا کیا۔ الغرض جاہلیت اور اسلام دونوں میں ہمارے احسانات تمھارے اوپر ہیں۔ ہمارے باپ نے تمھارے باپ پر احسان کیے اور ہم نے تمھارے اوپر۔ اور جن رتبوں پر تم خود اپنے آپ کو نہیں پہنچا سکتے تھے ان پر ہم نے تم کو پہنچایا اور جو انتقام تم نہیں لے سکتے تھے وہ ہم نے لے لیے ۔ والسلام"


ان خطوط کر پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت الٰہی کا تصور دماغوں سے کس قدر بعید ہو چکا تھا کہ ابو جعفر منصور جیسا اہل سنت کا عظیم الشان خلیفہ اور نفس زکیہ جیسا اہل بیت کا مہدی تسلیم کیا ہوا امام اس کو وراثتی تسلم کر رہے ہیں ۔ جھگڑا صرف یہ ہے کہ وراثت بیٹی کی اولاد کو پہنچتی ہے یا چچا کی اولاد کو۔ اسی قسم کی بحث خلیفہ مامون الرشید اور امام علی رضا کی عین الاخبار میں منقول ہے۔مامون نے امام موصوف سے پوچھا کہ تم کس بنیاد پر خلافت کا دعویٰ کرتے ہو بولے کہ رسول اللہ سے حضرت علی اور فاطمہ کی قرابت پر۔ مامون نے کہا اگر حضرت علی کی قرابت کی بنیاد پر یہ دعویٰ ہے تو آنحضرت نے ایسے ورثے چھوڑے جن میں سے بعض اس سے بھی زیادہ قریبی اور بعض انھی کے درجے کے تھے اور اگر فاطمہ کے رشتے کی بنیاد پر ہے تو ان کے بعد اس کے حقدار حسن اور حسین تھے۔ ان کی موجودگی میں حضرت علی نے خلافت پر قبضہ کر کے ان کا حق کیوں غضب کیا۔ امام علی رضا نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔
اس خط و کتابت کے بعد جس میں بحز فخر و مباہات اور خاندانی طعنے اور تشنے کے سوا کچھ نہ تھا ، منصور نے ولی عہد عیسٰی بن موسٰی کو فوج دے کر مدینہ کی طرف بھیجا نفس زکیہ نے مقابلہ کیا مارے گئے اور 14 رمضان 145 ہجری میں ان سر کاٹ کر بغداد بھیج دیا بھائی ابراہیم بصرہ میں تھے چند روز کے بعد انھوں نے بھی اپنی امامت کا جھنڈا بلند کیا اور بصرے سے اہواز تک قبضہ کر لیا۔ عیسٰی مدینہ سے فارغ ہو کر منصور کے حکم سے ان کی طرف آیا ۔ 25 ذیعقد 145 ہجری کو ان کا سربھی کاٹ منصور کے پاس بھیج دیا۔
تاریخ اسلام کا جائزہ
(قران کی روشنی میں)
علامہ حافظ اسلم جیراج پوری
-----------------------------------------------
علامہ موصوف تاریخ کے پروفیسر تھے مگر شاید قران کی ان آیات کو سمجھنے سے قاصر رہے جن میں اہل بیت ازواج مطہرات کو بلایا گیا ہے نہ کہ علویہ/اولاد سیدناعلی کو ۔
وسلام
 
عناوین میں نفس ذکیہ ذال سے بالکل دوسرا معنی رکھتا ہے۔ یہاں درست نفس زکیہ ہے زاء سے۔
شاھد قرآنی
[ARABIC] قالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُّكْرًا[/ARABIC]
سورہ الکھف ۔ آیت 14
 
Top