تعجب خیز اور خوش گوار ردِعمل۔ شکریہ،
فاتح بھائی!
چھوٹا غالبؔ بہت اچھے انسان ہیں۔ ان سے کچھ ایسا اختلاف نہیں ہمیں۔ بس وہ غالبؔ کی پرستش میں حد سے گزر جانے کے قائل ہیں جبکہ ہم جیسے آزادوں سے تو خدا کی پرستش بھی کماحقہ نہیں ہوتی!
بے شک!
میرا خیال ہے مجھے کھل کر بات کر لینی چاہیے۔ ورنہ ابہام رہے گا۔
یہ خیال کہ ادب کی معنویت زمان و مکان سے آزاد نہیں، میرے ہاں ایک حادثے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا جو رفتہ رفتہ مشاہدات و مطالعات کی روشنی میں ترقی پاتا گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ دو تین سال ادھر ایک صاحب سے آشنائی ہوئی۔ موصوف بلا کے ذہین، پڑھے لکھے اور لائق شخص تھے۔ وہ ہندوپاک کے چوٹی کے علمائے دین کے شاگرد رہے تھے اور عربی اور فارسی پر غیرمعمولی دستگاہ کے حامل تھے۔ کسی ذہنی و قلبی انقلاب کے نتیجے میں دہریے ہو گئے اور غالباً تاحال سنبھل نہیں پائے۔
صاحبِ مذکور نے ایک دن مجھ سے کہا کہ تم لوگ قرآن کی فصاحت و بلاغت کو معجزہ خیال کرتے ہو۔ قرآن بھی کہتا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت لکھ لاؤ۔ لو، میں سورت لکھ لایا ہوں۔ نظرِ انصاف سے اس کا جائزہ لو اور بتاؤ کہ قرآن بہتر ہے یا میرا کلام؟
پھر وہ تادیر قرآن اور اپنے کلام کا موازنہ و محاکمہ کرتے رہے، اپنی سورت کے محاسن اور قرآن کے معائب گنوایا کیے اور میں چپکا بیٹھا سنا کیا۔
جب خاموش ہوئے تو میں نے کہا کہ بھائی، کچھ عقل کو ہاتھ مارو۔ کچھ ہوش کے ناخن لو۔تم تمام عمر زبان و ادب کے طالبِ علم رہے۔ تمھیں یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ادب کے موازنے کے پیمانے کیا ہوتے ہیں؟ قرآن جس زمانے میں نازل ہوا وہ ادبیاتِ عرب کا زریں ترین دور تھا۔ ابوجہل جیسے لوگ گھوڑے کو کعبے کے گرد دوڑاتے ہوئے عکاظ کے ادبا کے شہپاروں پر فقط ایک نظر ڈال کر فیصلہ کر دیتے تھے کہ امسال کون فاتح رہا۔ اسی ابوجہل جیسے لوگ گو قرآن کے پیغام کے منکر تھے مگر زبان کے چٹخارے کے لیے اسے چھپ چھپ کر سننے پر مجبور ہو گئے اور یہاں تک عاجز آئے کہ ہمارے نبیﷺ کو جادوگر پکارنے لگے۔ گویا زبان کے ساحروں نے ایک امی کو ساحر قرار دے دیا۔ ایک ایسے شخص کو معجز بیان کہنے کے سوا ان کے پاس چارہ نہ رہا جو بعض روایات کے مطابق اشعار کو صحیح وزن میں پڑھنے پر قادر نہ تھا۔
ہر قوم کا ایک فن ایسا ہوتا ہے جو اسے دیگر اقوامِ عالم سے ممتاز کرتا ہے۔ عربوں کا طرۂِ امتیاز ان کے زبان و ادب تھے۔ پھر اس زبان و ادب کے اکابر زیادہ تر وہ بلغا تھے جو ظہورِ اسلام کے وقت موجود تھے۔ گویا اسلام نے عربوں کو انھی کے فن میں اس کے عروج کے زمانے میں عاجز کیا۔ اب اگر تم کوئی سورت لکھ لائے ہو تو یاد رکھو کہ نہ لسانِ عرب اب ویسی خالص اور فصیح رہی ہے اور نہ وہ اس کے وہ مقتدر بلغا رہ گئے ہیں جو تمھارے کلام کا موازنہ ازروئے انصاف قرآن سے کر سکیں۔ کیا میرے لیے یہ کافی نہیں کہ جب یہ دونوں عوامل موجود تھے تو قرآن ان پر غالب آ گیا تھا؟
تم کیسی بات کر رہے ہو؟ میں عربی کا عالم نہیں۔ معاصر علمائے عرب کو ابوالحکم معروف بہ ابوجہل کی ہمسری کا دعوی نہیں۔ موجودہ عربی عالمگیریت اور تہذیبی نفوذ کے عوامل کے باعث عربِ عاربہ کی زبان کی گرد کو بھی نہیں پا سکتی۔ اور تم آج چلے ہو قرآن کا مقابلہ کرنے؟ باز آ جاؤ۔ اگر بالفرضِ محال تم نے واقعی بہتر کلام کہا بھی ہے تو پھر بھی قرآن معجزہ ہی رہے گا کیونکہ اس نے اپنی فتح ان لوگوں سے منوائی جو خود فاتحِ بلاغت تھے اور ایسے وقت میں منوائی جب اس فن کا طوطی بولتا تھا اور تمھارا کلام جنگل میں ناچنے والے مور سے زیادہ قدر نہ پائے گا کہ تم نے اپنے زمانے اور حالات کے اقتضا کے بالکل خلاف کام کیا۔
---
اسی خیال سے بعد میں میں نے ادبیات کے مطالعے میں عموماً کام لینا شروع کیا۔ مجھے امید ہے اس نظریے کے نشیب و فراز اور مضمرات اب آپ لوگوں پر پوری طرح کھل گئے ہوں گے۔