نقد و نظر ۔ 3 ۔ سید فصیح احمد کا افسانہ "کابوس" ۔

گزشتہ سے پیوستہ
" صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے"
کابوس (افسانہ)
از سید فصیح احمد



ایم بی اے کرنے کے بعد ثاقب اب تک شہر کی تمام سڑکوں سے واقف ہو چکا تھا۔ مگر وہ جائزے جن کی وجہ سے اسے شہر کا تمام نقشہ ازبر ہوا، کاروباری دورے نہ تھے بلکہ مقدر ہوئے گھن چکر انٹرویو تھے۔ اکثر کی طرح آج بھی وہ ایک انٹرویو کی پیشی پر موجود اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ گو کہ ثاقب بہت چست اور تنومد شخصیت کا مالک تھا مگر آج اس کے ماتھے پر جھریاں ہی جھریاں تھیں۔ کاندھے بھی ڈھلکے ہوئے تھے، کب سے ایک ہاتھ کے ناخن چبا رہا تھا اورنظر بدستور کلائی پر بندھی گھڑی پر مرکوزتھی!
" جب سلیکشن پہلے سے ہو چکی ہوتی ہے تو ہمیں کیوں خوار کیا جاتا ہے؟ "
ثاقب اپنے دھیان میں ہی گم تھا کہ اچانک ایک غیر مانوس آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ دھیان کرنے پر معلوم پڑا کہ ایک نوجوان جو عمر میں اس سے قدرے کم تھا، ایک فائل بازوؤں اور سینے کے بیچ یوں زور سے دبائے بیٹھا تھا کہ ذرا بھی گرفت ڈھیلی ہوئی تو کوئی اس سے وہ خزانہ جھپٹ لے گا۔
" نام کیا ہے آپ کا؟ "
ثاقب نے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کر ڈالا،
" نوید! "
نوجوان کے چہرے پر رسمی مسکراہٹ بھی نہ تھی۔
"میرا نام ثاقب ہے"
نوجون نے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔،

" جوہؔر وہ صبر آپ ہی دے گا اگر ہمیں
ہے امتیاز وعدہ صبر آزمائے دوست "

ثاقب نے شعر پڑھا ۔۔۔،

" آپ بھی تو پریشان ہیں ۔۔ "
نوجوان بولا ۔۔۔ ،
اس سے پہلے کہ گفتگو کوئی رخ اختیار کرتی چپڑاسی کی آواز گونجی ،،
" نوید صاحب تشریف لائیں ۔۔۔۔۔ نوید صاحب!"
وہ نوجوان یوں کوندا جیسے کرسی نہیں بلکہ سپرِنگ پر بیٹھا تھا اور ایک زمانے سے اُسے اسی پکار کا انتظار تھا ۔۔۔ !!
ثاقب پھر سے دستی گھڑی پر نظریں گاڑے کہیں کھو گیا۔ وقت کا پتہ نہیں چلا ، نہ جانے وہ نوجوان اپنی باری نپٹا کر کب کا جا چکا تھا۔ اچانک کسی نے اسے کاندھے سے پکڑ کر جھنجوڑا ،
" آپ کا نام ثاقب ہے ؟ "
ثاقب نے سر اٹھا کر دیکھا تو چپڑاسی اس کے سامنے ایک تختی پر کچھ ورق لیئے کھڑا تھا ،،
"جی!"
" صاحب! کتنی بار نام پکارا مگر آپ متوجہ نہیں ہوئے "
ثاقب نے غور کیا تو سامنے کی انتظاری نشستوں پر صرف ایک خاتون بیٹھی تھیں، سب اپنی اپنی حاضری لگوا کر جا چکے تھے ، ثاقب بھی اٹھ کر چپڑاسی کے ساتھ ہو لیا۔انٹرویو میں کوئی قابل ذکر سوال و جواب نہ ہوئے، بس رسمی ورق گردانی اور صبر آزمائی تھی جس سے ثاقب اب کافی مانوس ہو چکا تھا۔ اس جرح سازی کے بعد ثاقب نے استقبالیہ سے وزٹنگ کارڈ حاصل کیا اور باہر نکل گیا، سڑک پر آ کر اس نے آٹو والے کو ہاتھ دیا،

" بھائی کچی بستی جانا ہے "
" پھاٹک والی ؟ "
" جی وہی! ۔۔۔ کتنا کرایہ؟"
" چالیس روپے! "

آٹو والے نے تمباکو کا پانی سڑک پر پچکارتے ہوئے بتایا۔ گو کہ کرایہ صرف بیس روپے بنتا تھا مگر ثاقب کو جلدی تھی اور شائد آٹو والے نے اس کے ماتھے پر لکھی تحریر پڑھ لی تھی۔ آٹو کوئی دس منٹ کے سفر کے بعد جسم کے سب پرزے ہلا دینے والی کچی بستی کی نا ہموار سڑک پر گام زن تھا، پھاٹک سےتھوڑا پہلے ہی ثاقب نے اسے رکنے کا بولا۔آٹو والے کو کرایہ دے کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ایک گلی میں داخل ہو گیا جو کہ کیچ سے تقریباً بھری ہوئی تھی، برسات نہیں بلکہ وجہ میونسپلٹی کی لا پروائی تھی۔ گلی کے عین وسط میں ایک جانب اکھڑی ہوئی اینٹوں کا اکلوتا کمرہ قریب پانچ فُٹ کی چار دیواری کےحصار میں بمشکل قائم تھا، ثاقب نے ٹین چادر سے مرمت شدہ دروازہ جلدی سے کھولا اور سامنے پلنگ پر نگاہ پڑتے ہی اس کے ماتھے سے سب سلوٹیں غائب ہو گئیں۔ بخار کے باوجود بے جی ابھی تک گہری نیند سو رہی تھیں۔ ثاقب کو اپنی ماں کا چہرہ یاد نہ تھا، جب وہ دو سال کا تھا تو ایک ٹریفک حادثے میں ماں چل بسی۔ اس دن کے بعد سے بے جی ہی اس کی ماں، اس کی کل کائنات تھیں۔ ثاقب جا کر ان کے سرہانے بیٹھ گیا۔ اس نے بے جی کے ماتھے پر بوسہ دیا اور ان کے چاندی بھرے بالوں میں ہاتھ سے کنگھی کرنے لگا۔

" کیا بنا موئے انٹرویو کا؟ "
بے جی نے آنکھیں کھولے بنا ہی پوچھا۔
"خیر ہو گی!"
ثاقب پھر سے اپنی مخصوص پرسکون شخصیت اختیار کر چکا تھا۔
" کیسے ہو گی خیر؟ ۔۔ تجھے کتنی بار بولا تیری پھوپھی سے کہہ کر تجھے امریکہ بھجوا دیتی ہوں مگر تو میری سنتا ہی کب ہے!"
" آپ کیوں نہیں جاتیں امریکہ؟ "
" میں پاکستان نہیں چھوڑ سکتی "
" پھر میں کیوں چھوڑ دوں پاکستان؟ "
بے جی نے جواب نہ دیا۔ ثاقب وہیں کچھ دیر بیٹھا بے جی کے بال سدھارتا رہا۔ عصر کی اذان کان پڑی تو وہ اُٹھ کر وضو کی تیاری میں لگ گیا۔
مسجد سے واپسی پر کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ثاقب اندر داخل ہوا تو دیکھا محلے کے بچے ٹیوشن پڑھنے جمع ہو چکے تھے۔ مغرب تک وہ ان سے فارغ ہو گیا۔ بے جی نے شام کا کھانا تیار کر دیا تھا۔ ثاقب نے اپنی بیاض میں آج کی روداد درج کی اور ایک نگاہ گزشتہ کار گزاری پر ڈالی۔ اتنی دیر میں عشا کی اذان ہو گئی، نماز سے فارغ ہو کر وہ تنور سے روٹیاں پکڑ لایا۔ جب کھانے کے لیئے بیٹھا تو بے جی نے ایک لقمہ توڑ کر بسم اللہ پڑھی اور ثاقب کو کھلایا۔ بچپن سے ہی کھانے کا پہلا لقمہ وہ ہمیشہ بے جی کے ہاتھوں سے لیتا تھا۔ کھانے سے فارغ ہو کر وہ کمرے کے کونے میں دھری کتابوں کی طرف ہوا، ایک نگاہ کیلنڈر پر ڈالی جس پر پانچ تاریخ کا بڑا ہندسہ اونگھ رہا تھا۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد ثاقب پر بھی غنودگی چھانے لگی۔ لیکن وہ زبردستی بیٹھا رہا، بار بار دستی گھڑی کی جانب نگاہ جاتی، جب گھڑی نے رات کا ایک بجایا اس نے کتابیں اٹھا کر ایک طرف رکھیں اور وہیں دری پر دراز ہو گیا۔ مگر اب بھی آنکھیں بند نہ کی تھیں، ٹھیک دو بجے اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے کمرے کی خستہ دیواریں لرز رہی ہیں ۔۔۔۔ کچھ ہی ساعت میں ریل گاڑی یوں کوکتی ہوئی گزری جیسے کسی بھی پل کمرے میں گھس آئے گی! جونہی ہر شے وجد سے حالت سکون کو پہنچی ثاقب نے اٹھ کر بتی گل کی اور پھر دری پر آ لیٹا۔ جلد ہی وہ ہر شے سے بے خبر ہو چکا تھا۔

" ثاقب صاحب ۔۔۔۔۔۔ ثاقب صاحب! "
صبح سویرے کوئی دروازہ پیٹے جا رہا تھا، ثاقب نے لیٹے لیٹے جو گھڑی پر نگاہ دوڑائی تو اسے یقین نہ آیا، سات بج رہے تھے۔
" یا اللہ! ۔۔ نماز بھی قضا ہو گئی "
ثاقب اٹھا ، دروازہ کھولا تو سامنے ڈاکیہ کھڑا تھا۔
" ثاقب صاحب یہ رہی آپ کے نام کی ڈاک ۔۔۔ یہاں دستخط کر دیجیے۔ "
ثاقب نے دستخط کر کے ڈاک وصول کر لی۔ ڈاک ایک ہلکے وزن کا لفافہ تھا۔ ثاقب نے دری کے پاس پڑے طلائی چولہے پر کیتلی میں چائے بننے کو رکھی اور لفافہ اٹھا کر اس کا ایک سرا چاک کیا ، دوہرا تہ کیا ہوا ایک ورق جھول میں آ گرا۔ اسی اثنا میں چائے کو جوش آ چکا تھا، ثاقب نے ایک پیالی میں چائے انڈیلی اور ساتھ ساتھ ورق سیدھا کر کے پڑھنے لگا۔ ثاقب جوں جوں تحریر کو پڑھتا جاتا اس کی آنکھیں حیرت سے کھلتی جاتیں۔ اس نے پیالی کو جھٹ سے نیچے دھرا اور غور سے عبارت پڑھنے لگا۔ جب تک خط کا تمام متن اس نے پڑھا اس کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو چکا تھا۔ فوراً بے جی کو اٹھا کر ساری کہانی سنا ڈالی کہ چند ماہ قبل اس نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینیجر کے عہدے کے لیئے کوائف جمع کرائے تھے۔ انٹرویو بھی ہوا تھا مگر کوئی قابل ذکر جواب نہ ملا۔ آج جب کہ ثاقب اس بات کو بھول چکا تھا اچانک اس کمپنی کی طرف سے اپائنٹ منٹ لیٹر موصول ہوا۔ دس روز بعد دفتر میں حاضر ہونے کا لکھا تھا۔ بے جی غور سے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں، پھر بولیں،

" اگر تیری خوشی اسی میں ہے تو تیری بے جی بھی خوش ہیں "

ثاقب کے سر پر ہاتھ پھیر کر بہت دیر دعائیں دیتی رہیں۔ ثاقب ایک قابل آدمی تھا۔باقی ماندہ دن وہ اسی تیاری میں رہا کہ کیا کرنا ہے ، کیسے کرنا ہے ، کب کرنا ہے ۔۔۔، اور جلد ہی وہ دن بھی آ گیا جب اس نے ایک اونچی اڑان کے واسطے پر تولتے ہوئے پہلا قدم اٹھانا تھا، نوکری کا پہلا دن! ۔۔۔ وہ دفتر پہنچا تو کچھ رسمی جھنجھٹوں کے بعد ایک میٹنگ بلائی گئی، اس میں سب سے تعارف ہوا اور یوں کام کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ سارا دن کام کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کی طرح اس کی نظر مسلسل دستی گھڑی پر تھی۔ عصر تک اسے فرصت ہوئی تو وہ جلدی سے گھر کو روانہ ہوا، گھر پہنچا تو دیکھا کہ بے جی خلاف معمول آج کھانا بنانے میں مشغول تھیں،
" بے جی ڈاکٹر نے آپ کو جگر کے عارضے کے باعث زیادہ گرمی سے پرہیز کا بولا ہے نا !! ۔۔ اور آپ شام کا کھانا بھی زبردستی بناتی ہیں!!"
" ہاں پُتر جانتی ہوں، بس آج ہی بناؤں گی دن کا کھانا، کیوں کہ آج تیرا دفتر میں پہلا روز تھا ۔۔۔ کیسے ہیں دفتر والے؟ "
" بہت اچھے! "
اس کے بعد ثاقب نے تمام روداد بے جی کے گوش گزار دی۔ اس نے بے جی کو یہ خوش خبری بھی دی کہ اب وہ ایک ہفتہ تک نئے مکان میں منتقل ہو جائیں گے۔ بے جی کو نئے گھر کی خبر سے کچھ خاص خوشی نہ ہوئی۔

دن یونہی گزرتے گئے اور اپنی قابلیت ثابت کرنے کے لیئے ثاقب دن اور رات کا فرق بھول چکا تھا۔ ایک ہفتہ گزرا تو کمپنی کی طرف سے شہر کے متمول علاقے میں ایک اعلیٰ رہائش بھی مل گئی۔ بے جی کو بھی ثاقب نئے گھر لے آیا، مگر بے جی دو دن ٹھیک سے سو بھی نہ سکیں (سبب شائد نئی جگہ پر اجنبیت کا احساس تھا!)۔ اب ثاقب کو اپنا نام بنانے کے لیئے کئی بار رات کو بھی رکنا پڑ جاتا، ایسے میں ثاقب نے پرانے محلہ سے ایک ادھیڑ عمر خاتون کو بے جی کے خیال کے لیئے رکھ لیا، سب انہیں بوا کہہ کر بلاتے تھے، اُجرت کچھ نہ طے ہوئی کہ ان کا بھی دنیا میں کوئی نہ تھا بس سر ڈھانپنے کی جگہ اور روٹی کپڑا درکار تھا۔ اسی دوران کمپنی نے ثاقب کو کمپنی کی ترجمانی کے لیئے بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا، پندرہ دن کا دورہ تھا۔ جب بے جی کو پتہ چلا تو ثاقب کو انہیں بھی ساتھ لے جانے کا بولا، کہ اس سے دور کبھی نہیں رہیں، پندرہ دن کی دوری اور وہ بھی پرائے دیس میں! سہ نہیں پائیں گی۔

" بے جی وہاں کیسے آپ کی دیکھ بھال کروں گا، یہاں بوا جو ہیں آپ کے پاس۔ بس کچھ دن کی تو بات ہے!"
" کمپنی کا پتہ دے رہا ہوں آپ کو، کوئی بھی بات ہو مجھ تک پلک جھپکنے میں پہنچ جائے گی "
بے جی کچھ نہ بولیں اور ثاقب سمندر پار پہنچ گیا۔

وہاں تو دنیا ہی اور تھی اس نے سوائے ست رنگی دھنک کے اتنے رنگ ایک جگہ کبھی نہ دیکھے تھے۔ پہلی رات وہ اکیلا ہی دیر تک جانے کہاں کہاں گھومتا رہا۔ بہت دیر سے لوٹا اور آتے ہی سو گیا۔ پھر اگلے چھے دن دفتری مصروفیت رہی۔ ساتویں دن کوئی کاروباری کام نہ تھا، تو وہ دیر سے اُٹھا۔ باورچی نے ناشتہ لگا دیا تھا۔ ثاقب جب نہا دھو کر ناشتے کی میز پر پہنچا تو دیکھا کہ ناشتے کے ساتھ ہی ایک خاکی لفافہ دھرا تھا۔ شائدتار تھا کسی کا۔ اس نے رس بھرا کانچ کا گلاس اٹھایا اور چسکیاں بھرنے لگا۔ ساتھ ساتھ اس نے تار پڑھنا شروع کیا۔ عبارت کی پہلی سطر کچھ یوں تھی ،

" السلام علیکم ثاقب بیٹا! بہت افسوس کے ساتھ لکھ رہی ہوں ، تیری بے جی اب اس دنیا میں نہیں رہیں! ۔۔ تو جلدی سے ۔۔۔"

اس سطر کے بعد باقی عبارت تک نگاہ پہنچ نہیں سکی، اچانک کمرے میں گھپ اندھیرا ہو گیا، اس کے دماغ میں آیا کہ شائد بجلی چلی گئی ہے۔ اس نے نوکر کوآواز دی،
"ارے بھئی یہ لائٹ کیوں بند کر دی؟ "
" نہیں صاحب کہاں بند کی ، جل تو رہی ہے!! "
اس کے اعصاب سن ہو چکے تھے۔ کچھ ہی لحظہ میں جو روشنی لوٹی تو ثاقب نے فوراً اپنے کاغذات سنبھالے اور کسی کو بتائے بغیر واپس وطن روانہ ہو گیا، چند ہی گھنٹوں میں وہ گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا ۔۔۔ تمام سفر اس نے سوائے چند الفاظ کے کسی سے کچھ بات نہ کی۔ بوا نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی اس کی نگاہ صحن میں رکھے پلنگ پر پڑ گئی ۔۔ اس کے اعصاب ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ وہ بڑی مشکل سے پلنگ تک پہنچا ۔۔۔ بے جی سفید لبادہ اوڑھے آرام کر رہی تھیں۔ وہ ان کے سرہانے بیٹھ گیا۔ ثاقب کی آنکھیں خشک تھیں۔ جیسے کسی نخلستان سے چشمہ کوچ کر گیا ہو اور باقی ریت ہی ریت رہ جائے! ۔۔ ثاقب بے جی کے چاندی بھرے بالوں میں ہاتھ سے کنگھی کرنے لگا۔ مسلسل کان لگائے منتظر رہنے کے بعد بھی جب کوئی پکار نہیں آئی تو دو آنسو اس کی آنکھوں سے نکلے، اور پھر تو جیسے ندی سی رواں ہو گئی ۔۔۔ ثاقب زباں سے کچھ نہ کہہ رہا تھا! ۔۔۔ روتے روتے اس کی ہچکی بندھ چکی تھی۔ وہ بس ایک ٹک بے جی کی طرف دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔ شائد اس انتظار میں کہ ابھی بے جی اسے آواز دیں گی، مگر افسوس!! بے جی کے سرہانے آنسوؤں سے نڈھال اس سے نقاہت کے باعث آنکھیں بھی نہیں کھولی جا رہی تھیں! ۔۔ اچانک اسے ایسا لگا جیسے کوئی اس کے سینے پر بیٹھ گیا ہو! ۔۔۔ جب دم گھٹنے لگا تو اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں ۔۔ کیا دیکھتا ہے کہ کیلنڈر پر پانچ تاریخ کا بڑا ہندسہ ابھی تک کسمسا رہا ہے ۔۔ !! اس کا سارا لباس بھیگا ہوا تھا ۔ فوراً سے بے جی کے پلنگ کی طرف دیکھا تو انہیں گہری نیند میں گُم پایا۔ ان کے پلنگ کے پاس پہنچا اور بہت دیر تک خاموشی سے ان کا چہرا دیکھتا رہا۔
" شکر ہے مالک ، یہ سب محض خواب تھا! "
بے جی کے ماتھے پر بوسہ دے کر وہ واپس اپنی دری پر سونے کے لیئے دراز ہو گیا۔

ٹیگ: ایوب ناطق ، سید فصیح احمد محمد یعقوب آسی
 
افسانے کا عنوان بہت پرکشش ہے۔ "کابوس" (ڈراؤنا خواب)

ایم بی اے کرنے کے بعد ثاقب اب تک شہر کی تمام سڑکوں سے واقف ہو چکا تھا۔ مگر وہ جائزے جن کی وجہ سے اسے شہر کا تمام نقشہ ازبر ہوا، کاروباری دورے نہ تھے بلکہ مقدر ہوئے گھن چکر انٹرویو تھے۔ اکثر کی طرح آج بھی وہ ایک انٹرویو کی پیشی پر موجود اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ گو کہ ثاقب بہت چست اور تنومد شخصیت کا مالک تھا مگر آج اس کے ماتھے پر جھریاں ہی جھریاں تھیں۔ کاندھے بھی ڈھلکے ہوئے تھے، کب سے ایک ہاتھ کے ناخن چبا رہا تھا اورنظر بدستور کلائی پر بندھی گھڑی پر مرکوزتھی!

پہلا ہی جملہ (ایم بی اے کرنے کے بعد ثاقب اب تک شہر کی تمام سڑکوں سے واقف ہو چکا تھا۔) قاری کی توجہ کو گرفت میں لے لیتا ہے، اور اسے توقع دلاتا ہے کہ ایک بہت اچھی تحریر پڑھنے کو ملے گی، تاہم ایسا ہو نہیں پاتا۔ اس نہ ہو پانے کی بڑی وجہ فاضل افسانہ نگار کے ہاں الفاظ کا غیرضروری استعمال ہے۔ (مگر وہ جائزے جن کی وجہ سے اسے شہر کا تمام نقشہ ازبر ہوا، کاروباری دورے نہ تھے بلکہ ۔۔) یہی بات تین چار الفاظ میں اور کہیں زیادہ چستی سے بیان ہو سکتی تھی۔ (انٹرویو کی پیشی پر موجود) بھائی! سیدھا کہئے "انٹرویو کے لئے" اس سے پہلے (اکثر کی طرح) مجھے تو زائد محسوس ہوا۔ اگر کچھ یوں ہوتا: "آج بھی وہ ایک انٹرویو کے لئے اپنی باری کا منتظر تھا"

اسم صفت "تنومند" کا اطلاق شخصیت پر نہیں جسم پر ہوتا ہے۔ "ماتھے پر جھریاں" یا بل؟ یا پریشانی ظاہر کرنے والی کوئی اور ترکیب؟ جھریاں یا تو عمر کا حاصل ہوتی ہیں یا طویل عرصہء آلام کا اور وہ چہرے پر، ہاتھوں پر نمایاں ہوتی ہیں۔ ماتھے پر بل یا شکنیں ہوا کرتی ہیں، اسی طرح کی صورت کاندھے ڈھلکنے کی ہے۔ یہ دونوں جملے "چست اور تنومند" سے ٹکرا رہے ہیں۔ کاندھے ڈھلکتے میں ایک عمر صرف ہوا کرتی ہے۔ اسی پیراگراف کے آخر میں لفظ "بدستور" بلاجواز ہے، فاضل افسانہ نگار شاید "متواتر" کہنا چاہ رہے ہیں۔
 
" جب سلیکشن پہلے سے ہو چکی ہوتی ہے تو ہمیں کیوں خوار کیا جاتا ہے؟ "
ثاقب اپنے دھیان میں ہی گم تھا کہ اچانک ایک غیر مانوس آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ دھیان کرنے پر معلوم پڑا کہ ایک نوجوان جو عمر میں اس سے قدرے کم تھا، ایک فائل بازوؤں اور سینے کے بیچ یوں زور سے دبائے بیٹھا تھا کہ ذرا بھی گرفت ڈھیلی ہوئی تو کوئی اس سے وہ خزانہ جھپٹ لے گا۔

" جب سلیکشن پہلے سے ہو چکی ہوتی ہے تو ہمیں کیوں خوار کیا جاتا ہے؟" ایک غیر مانوس آواز نے اسے چونکا دیا۔
"دھیان کرنے پر معلوم پڑا کہ" ۔۔ وہی زائد الفاظ؛ ایک مکرر درخواست کے ساتھ کہ "معلوم پڑنا" زبان نہیں ہے۔ معلوم ہونا، پتہ چلنا درست ہے۔
 
اس سے پہلے کہ گفتگو کوئی رخ اختیار کرتی چپڑاسی کی آواز گونجی ،،
" نوید صاحب تشریف لائیں ۔۔۔۔۔ نوید صاحب!"
وہ نوجوان یوں کوندا جیسے کرسی نہیں بلکہ سپرِنگ پر بیٹھا تھا اور ایک زمانے سے اُسے اسی پکار کا انتظار تھا ۔۔۔ !!

(وہ نوجوان یوں کوندا جیسے کرسی نہیں بلکہ سپرِنگ پر بیٹھا تھا اور ایک زمانے سے اُسے اسی پکار کا انتظار تھا ۔۔۔ !!) کوندنا بجلی کا ہوتا ہے، انسان کا اچھلنا معروف ہے۔
(اور ایک زمانے سے اُسے اسی پکار کا انتظار تھا) بہت ہی خوبصورت جملہ ہے۔
اس سے پہلے اگر کچھ یوں ہوتا!؟: (" نوید صاحب تشریف لائیں ۔۔۔۔۔ نوید صاحب!"۔ چپراسی کی آواز پر وہ نوجوان یوں اچھلا جیسے ۔۔)
 
ثاقب پھر سے دستی گھڑی پر نظریں گاڑے کہیں کھو گیا۔ وقت کا پتہ نہیں چلا ، نہ جانے وہ نوجوان اپنی باری نپٹا کر کب کا جا چکا تھا۔ اچانک کسی نے اسے کاندھے سے پکڑ کر جھنجوڑا ،
" آپ کا نام ثاقب ہے ؟ "
ثاقب نے سر اٹھا کر دیکھا تو چپڑاسی اس کے سامنے ایک تختی پر کچھ ورق لیئے کھڑا تھا ،،
"جی!"
" صاحب! کتنی بار نام پکارا مگر آپ متوجہ نہیں ہوئے "
ثاقب نے غور کیا تو سامنے کی انتظاری نشستوں پر صرف ایک خاتون بیٹھی تھیں، سب اپنی اپنی حاضری لگوا کر جا چکے تھے ، ثاقب بھی اٹھ کر چپڑاسی کے ساتھ ہو لیا۔انٹرویو میں کوئی قابل ذکر سوال و جواب نہ ہوئے، بس رسمی ورق گردانی اور صبر آزمائی تھی جس سے ثاقب اب کافی مانوس ہو چکا تھا۔ اس جرح سازی کے بعد ثاقب نے استقبالیہ سے وزٹنگ کارڈ حاصل کیا اور باہر نکل گیا، سڑک پر آ کر اس نے آٹو والے کو ہاتھ دیا،

جب ہم نے لکھ دیا کہ (کہیں کھو گیا) تو (وقت کا پتہ نہیں چلا) زائد ہو جاتا ہے۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی کافی ہوتا۔ پہلے جب اس نوجوان کا نام پوچھا ہی ہے تو اس کو برتنے کا شاید یہی پہلا اور آخری موقع بنتا کہ : "نوید نامی وہ نوجوان جانے کب کا جا چکا تھا"۔ ایک دوست کا کسی تنقیدی نشست میں کہا ہوا جملہ ذہن میں آ گیا: "منظر میں اگر ایک بندوق دکھائی دے رہی ہے تو افسانہ ختم ہونے سے پہلے اسے چل جانا چاہئے۔ نہیں تو اس کو افسانے سے نکال دیجئے"۔ یعنی؟ افسانے کے مشمولات صرف ضرورت بھر ہونے چاہئیں اور جو ہیں وہ اپنے ہونے کا جواز بھی رکھتے ہوں۔
ایک اور بات جس کا بہت سارے افسانہ نگار اہتمام کرتے ہیں، کرداروں کے ناموں کی معنویت ہے۔ کسی بھی کردار کو نام کوئی بھی دیا جا سکتا ہے: ثاقب، نوید، عمر، اسلم، شہاب، قیصر، قمر؛ وغیرہ وغیرہ۔ یہ قابلِ گرفت نہیں تاہم اگر کہانی کی بُنَت میں ان ناموں کی معنویت بھی کارفرما دکھائی دے جائے تو سونے پر سہاگا! کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ایک کردار کو کوئی نام دیا ہی نہیں جاتا، اس کی اپنی معنویت ہو سکتی ہے۔ ایک تخلیق کار کو سوچنے کی دعوت تو دی جا سکتی ہے نا!
 
آخری تدوین:
(ثاقب نے غور کیا تو سامنے کی انتظاری نشستوں پر صرف ایک خاتون بیٹھی تھیں، سب اپنی اپنی حاضری لگوا کر جا چکے تھے ، ثاقب بھی اٹھ کر چپڑاسی کے ساتھ ہو لیا۔)

اس میں "غور" کرنے والی تو کوئی بات نہیں تھی، اس نے دیکھا! "انتظاری نشستوں پر" میں تو اس کے حق میں بھی نہیں۔ "صرف ایک خاتون بیٹھی تھیں، باقی سب جا چکے تھے" اگلے جملے سے لفظ "بھی" کو نکال دیجئے، جملے پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
 
نٹرویو میں کوئی قابل ذکر سوال و جواب نہ ہوئے، بس رسمی ورق گردانی اور صبر آزمائی تھی جس سے ثاقب اب کافی مانوس ہو چکا تھا۔ اس جرح سازی کے بعد ثاقب نے استقبالیہ سے وزٹنگ کارڈ حاصل کیا اور باہر نکل گیا، سڑک پر آ کر اس نے آٹو والے کو ہاتھ دیا،

"انٹرویو کیا تھا، ایک رسمی سی کاروائی تھی (یا ۔۔۔ رسمی سی ورق گردانی تھی) جس کا وہ عادی ہو چکا تھا۔" عادی ہو جانا اور مانوس ہو جانا دو الگ الگ کیفیات ہیں۔ افسانہ نویسی میں لفظی کفایت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ "جرح سازی" اس ترکیب پر مجھے شبہ ہے۔ وزٹنگ کارڈ کی اگر تو آگے چل کر کوئی اہمیت ثابت ہوتی ہے تو اسے رکھئے، نہیں تو ابھی سے نکال دیجئے۔
 
" بھائی کچی بستی جانا ہے "
" پھاٹک والی ؟ "
" جی وہی! ۔۔۔ کتنا کرایہ؟"
" چالیس روپے! "

آٹو والے نے تمباکو کا پانی سڑک پر پچکارتے ہوئے بتایا۔ گو کہ کرایہ صرف بیس روپے بنتا تھا مگر ثاقب کو جلدی تھی اور شائد آٹو والے نے اس کے ماتھے پر لکھی تحریر پڑھ لی تھی۔ آٹو کوئی دس منٹ کے سفر کے بعد جسم کے سب پرزے ہلا دینے والی کچی بستی کی نا ہموار سڑک پر گام زن تھا، پھاٹک سےتھوڑا پہلے ہی ثاقب نے اسے رکنے کا بولا۔آٹو والے کو کرایہ دے کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ایک گلی میں داخل ہو گیا جو کہ کیچ سے تقریباً بھری ہوئی تھی، برسات نہیں بلکہ وجہ میونسپلٹی کی لا پروائی تھی۔

یہ عبارت یا تو بہت اہم ہے یا قطعی طور پر غیراہم۔
اس کو دیکھتے ہیں، ابھی بجلی جانے کا وقت ہو گیا۔

سید فصیح احمد
 
کچی بستیوں کے مسائل یقیناً اہم ہیں۔ ان کو بھی افسانوں اور کہانیوں کا موضوع بننا چاہئے اور مختلف پہلوؤں سے اجاگر کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح ایک طبقہ نظر انداز کئے ہوئے لوگوں کا ہے، ان کی تہذیبی اور معاشی اور معاشرتی اور اخلاقی پس ماندگی ایک بہت بڑا موضوع ہے۔ ایسے موضوعات کا حق یوں ادا نہیں ہوتا کہ چلتے چلتے ایک آدھ سطر ڈال دی، اس کے لئے فن پارے کو مختص کیا جانا چاہئے۔ انشائیہ اور فکاہیہ کی بات البتہ مختلف ہے، ان میں جہاں ہم ایک ایک موضوع کو چھیڑتے ہوئے چلے جاتے ہیں، یہ موضوع بھی چھیڑ چلیں تو کوئی قباحت نہیں۔
اردو نثر میں افسانے کی حیثیت قریب قریب وہی ہے جو اردو شاعری میں غزل، بیت یا قطعے کی ہے۔ ہم افسانے میں کوئی بھی بات کر سکتے ہیں، شرط بھی ویسی ہی ہے جیسی غزل کے شعر کے لئے ہے کہ بات مؤثر اسلوب میں اختصار اور جامعیت کے ساتھ کی جائے اور قاری کے تارِ احساس کو چھیڑا جائے۔ یوں ایک افسانہ ایک موضوع پر ہو تو اس کی تاثیر اور ابلاغ میں مضبوطی آتی ہے۔ ایک ہی موضوع کے مختلف پہلو بھی ساتھ ساتھ چلانے ہوں تو اس سے پیدا ہونے والا پھیلاؤ افسانے کی تندی کو کمزور کر سکتا ہے۔
 
مذکورہ اقتباس پر زبان و بیان کے حوالے سے کچھ بات کر لی جائے۔

’’آٹو والے نے تمباکو کا پانی سڑک پر پچکارتے ہوئے بتایا۔ گو کہ کرایہ صرف بیس روپے بنتا تھا مگر ثاقب کو جلدی تھی اور شائد آٹو والے نے اس کے ماتھے پر لکھی تحریر پڑھ لی تھی۔ آٹو کوئی دس منٹ کے سفر کے بعد جسم کے سب پرزے ہلا دینے والی کچی بستی کی نا ہموار سڑک پر گام زن تھا، پھاٹک سےتھوڑا پہلے ہی ثاقب نے اسے رکنے کا بولا۔آٹو والے کو کرایہ دے کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ایک گلی میں داخل ہو گیا جو کہ کیچ سے تقریباً بھری ہوئی تھی، برسات نہیں بلکہ وجہ میونسپلٹی کی لا پروائی تھی۔‘‘

پچکارنا کا معروف معنی بہلانا ہے، جب کہ یہاں صاحبِ تحریر کا مقصد پچکاری مارنا یا تھوکنا ہے۔ بیس اور چالیس کے اعداد میں پڑنے سے بہتر طریقہ کچھ ایسا ہو سکتا تھا کہ: ’’آٹو والے نے اس کی کیفیت کو بھانپ لیا اور دُگنا کرایہ بتایا‘‘۔ یہاں یہ کہا گیا کہ ثاقب جلدی میں تھا، مگر اس جلدی کی کوئی وجہ مذکور نہیں ہے، اور نہ اس کی طرف کوئی اشارہ ہے۔ ’’رکنے کا بولا‘‘ یہ بھی شستہ اردو نہیں ہے صاحب! کراچی اور گردونواح میں کہنا، بولنا، بات کرنا ان سب کے لئے ’’بولا‘‘ چلا دیتے ہیں، وہ بات دوسری ہے۔ ادیب کی ذمہ داریوں میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ درست اور شستہ زبان لکھے نہ کہ خود بھی ناشستہ لہجے کے پیچھے چل پڑے۔ مرزا غالب کا وہ جملہ آپ کے علم میں بھی رہا ہو گا: ’’جاؤ میاں! کسی گھسیارے سے سیکھو، میں تو قلعے کی زبان بولتا ہوں‘‘۔ ادب کی زبان قلعے کی ہو نہ ہو، اس کو شستہ ضرور ہونا چاہئے۔
دس منٹ، بیس روپے، چالیس گز، چھ روٹیاں؛ ایسی گنتی جو ضروری نہ ہو، افسانے کو بوجھل کر دیتی ہے۔ محاورے کا غلط استعمال باذوق قاری کو بہت گراں گزرتا ہے۔ گامزن کسی شخص، کارواں وغیرہ کے لئے تو درست ہے، آٹو رکشا کے لئے نہیں۔ ایک خوبصورت لفظ بھی موقع محل سے ہٹ کر استعمال کیا جائے تو اس کا حسن جاتا رہتا ہے۔ ’’پھاٹک سے تھوڑا ہی پہلے ۔۔۔۔ لاپروائی تھی‘‘۔ اسی منظر کو پوری جزئیات کے ساتھ بیان کیا جاتا اور اسے ثاقب کی اور اس کے محلے کے لوگوں کی زبوں حالی کے ساتھ جوڑا جاتا تو بات بنتی۔ اِس پورے منظر نامے میں میونسپلٹی کو نہ لایا جانا مناسب تر ہوتا۔ اداروں اور ان کی ذمہ داریوں کی بات کریں تو پھر جم کر کریں اور ان پر ایک نہیں دس افسانے بنائیں، بلکہ یہ اچھی بات ہو گی۔
 
گلی کے عین وسط میں ایک جانب اکھڑی ہوئی اینٹوں کا اکلوتا کمرہ قریب پانچ فُٹ کی چار دیواری کےحصار میں بمشکل قائم تھا، ثاقب نے ٹین چادر سے مرمت شدہ دروازہ جلدی سے کھولا اور سامنے پلنگ پر نگاہ پڑتے ہی اس کے ماتھے سے سب سلوٹیں غائب ہو گئیں۔ بخار کے باوجود بے جی ابھی تک گہری نیند سو رہی تھیں۔ ثاقب کو اپنی ماں کا چہرہ یاد نہ تھا، جب وہ دو سال کا تھا تو ایک ٹریفک حادثے میں ماں چل بسی۔ اس دن کے بعد سے بے جی ہی اس کی ماں، اس کی کل کائنات تھیں۔ ثاقب جا کر ان کے سرہانے بیٹھ گیا۔ اس نے بے جی کے ماتھے پر بوسہ دیا اور ان کے چاندی بھرے بالوں میں ہاتھ سے کنگھی کرنے لگا۔

جزئیات اور منظر آفرینی کی ضرورت یہاں تھی۔ لفظیات کے مسائل (میں تو انہیں مسائل ہی کہتا ہوں) یہاں بھی ہیں۔ عین وسط میں، پانچ فٹ اس پر بات پہلے ہو چکی، چاردیواری کے حصار میں؟ جلدی کی وجہ یہاں کھلتی ہے، بے جی کا بخار میں مبتلا ہونا۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک لفظ انٹرویو کے مقام پر بیان ہو جاتا تو قاری کو الجھن نہ ہوتی۔ مثلاً جب وہ بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا وہاں کہہ دیا جاتا کہ ۔۔۔ اس کا ذہن بخار میں تپتی ہوئی بے جی میں اٹکا ہوا تھا۔ ’’ثاقب کو اپنی ماں کا چہرہ یاد نہ تھا ۔۔ ۔۔‘‘ یہ بات نئے پیراگراف سے شروع ہونی چاہئے تھی اور اس کو دو تین جملوں تک محدود نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔

افسانہ اور کہانی، ان میں توازن کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ کہاں جزئیات میں جانا ہے کہاں نہیں جانا، مکالمات کی گنجائش کہاں بنتی ہے اور کتنی بنتی ہے اور مکالمے کی حدود و قیود کا تعین سیاق و سباق میں کس طور ہوتا ہے؛ یہ عناصر مل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ صاحبِ تحریر نے کس بات کو اہم گردانا اور کس بات کو سرسری انداز میں لیا ہے۔
 
’’دروازہ جلدی سے کھولا اور سامنے پلنگ پر نگاہ پڑتے ہی اس کے ماتھے سے سب سلوٹیں غائب ہو گئیں۔ بخار کے باوجود بے جی ابھی تک گہری نیند سو رہی تھیں‘‘۔ یہ سارا کچھ نگاہ پڑتے ہی ٹھیک ٹھیک سمجھ میں آ جانے والی بات نہیں۔ وہ واقعی سو رہی تھیں؟ اس کا یقین تو ان کے قریب جا کر ان کی سانسوں کے زیر و بم اور چہرے کی کیفیات کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ فطرت کو کہانی کاری میں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں اس کو تھوڑی سی مہلت دیجئے، وہ بے جی کے بستر کے قریب جائے، آواز دے یا کسی بھی انداز سے ان کی توجہ کا طالب ہو، اگر وہ واقعی سو رہیں ہیں تو اُن کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے سے گریز کرے کہ انہیں تو پہلے ہی بخار ہے۔ یا اس امر کا ہی تعین کر سکے کہ سو نہیں رہیں، آنکھیں موندے پڑی ہیں۔
بیس روپے، پانچ فٹ، عین وسط میں، اس دن کے بعد ۔۔ یہ حتمیت افسانے کو بہت حسابی کر دیتی ہے۔ لفظوں میں تصویر کشی یوں نہیں ہوتی کہ ہم پیمائشیں درج کریں، اس کا ایک انداز یہ ہو سکتا تھا کہ ثاقب کے اپنے قد سے نیچی دیوار؛ وغیرہ۔ یہاں سے آگے ثاقب کے گھر کی غربت کا نقشہ بنتا ہے۔ وہاں پلنگ کی گنجائش نہیں نکلتی، چارپائی بچھا دیجئے۔
 
" کیا بنا موئے انٹرویو کا؟ "
بے جی نے آنکھیں کھولے بنا ہی پوچھا۔
"خیر ہو گی!"
ثاقب پھر سے اپنی مخصوص پرسکون شخصیت اختیار کر چکا تھا۔
" کیسے ہو گی خیر؟ ۔۔ تجھے کتنی بار بولا تیری پھوپھی سے کہہ کر تجھے امریکہ بھجوا دیتی ہوں مگر تو میری سنتا ہی کب ہے!"
" آپ کیوں نہیں جاتیں امریکہ؟ "
" میں پاکستان نہیں چھوڑ سکتی "
" پھر میں کیوں چھوڑ دوں پاکستان؟ "
بے جی نے جواب نہ دیا۔ ثاقب وہیں کچھ دیر بیٹھا بے جی کے بال سدھارتا رہا۔ عصر کی اذان کان پڑی تو وہ اُٹھ کر وضو کی تیاری میں لگ گیا۔

اس حصے میں آئے مسائل پر کچھ باتیں۔۔

مکالمہ کے کئی طریقوں میں ایک یہ ہے کہ پیراگراف کے شروع میں کلام واوین میں، اور اسی سطر پر کلام کرنے والے کا اسماً ذکر، اگر کرنا مقصود ہے۔
" کیا بنا موئے انٹرویو کا؟" بے جی نے آنکھیں کھولے بنا ہی پوچھا۔
"خیر ہو گی!" ثاقب پھر سے اپنی مخصوص پرسکون شخصیت اختیار کر چکا تھا۔

اور اگر کلام کرنے والے کا اسماً ذکر مقصود نہیں تو ۔۔۔
" آپ کیوں نہیں جاتیں امریکہ؟ "
" میں پاکستان نہیں چھوڑ سکتی "
" پھر میں کیوں چھوڑ دوں پاکستان؟ " بے جی نے جواب نہ دیا۔

تجھے کتنی بار بولا (وہی مسئلہ) تجھ سے کتنی بار کہا (تجھے غلط ہو گا)۔ مکالمہ کی صورت میں: کتنی بار کہا ہے، کہہ چکی ہوں، وغیرہ۔ بال سدھارنا نہیں بال سنوارنا ہوتا ہے اور کنگھی وغیرہ مقصود نہ ہو تو، بال سہلانا۔ عصر کی اذان کان پڑی (نہیں! سنائی دی) "کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی" وہ محاورہ اپنے خاص معانی کے ساتھ ہے، معمول کے لئے موزوں یا کم از کم میرے نزدیک مستحسن نہیں۔ وضو کی تیاری میں لگ گیا؟ وضو کرنے لگا۔

بھائی سید فصیح احمد خود بھی سہولت میں رہئے اور اپنے قاری کو بھی سہولت میں رکھئے۔
 
جونہی ہر شے وجد سے حالت سکون کو پہنچی ثاقب نے اٹھ کر بتی گل کی اور پھر دری پر آ لیٹا۔ جلد ہی وہ ہر شے سے بے خبر ہو چکا تھا۔
وہی قطعیت! ٹھیک دو بجے، جونہی۔ یا تو کہئے وجد سے سکون کی حالت کو پہنچی یا حالتِ وجد سے حالتِ سکون کو پہنچی۔ چراغ گل کیا جاتا ہے یا بجھایا جاتا ہے بتی بجھائی جاتی ہے گل نہیں کی جاتی۔ چراغ اور بتی اور لیمپ اور بلب اور ٹارچ وغیرہ کی طبعی شکل و صورت اور ساخت کی بحث کا حاصل کچھ بھی نہیں۔ سب صورتیں ایک ہی چیز کی ہیں، فرق زبان اور محاورے کا ہے۔ یہاں ہمیں سائنسی بحث سے کچھ نہیں لینا دینا کہ ہم افسانے پر بات کر رہے ہیں، ان چیزوں کی پروڈکشن پر بات کریں گے تو ایک ایک باریکی حتیٰ کہ ڈیزائن اور ڈائی مینشن کے فرق کو بھی نظر انداز نہیں کریں گے۔

جوں ہی : ایک عمل کے واقع یا ختم ہونے کے لمحے میں دوسرا عمل واقع ہو گیا۔ جونہی سیٹی بجی سب کھلاڑی دوڑ پڑے۔ گاڑی کے گزرنے اور دھمک کے بعد سکون کی کیفیت قائم ہونے میں وقت لگتا ہے اور ارتعاش کی سطح اور دورانیے کو ناپنا افسانہ نگار کا کام نہیں ہے، ارضیات اور زلزلہ پیمائی والے جانیں۔

"سکون کی حالت کو پہنچی تو اُس نے بتی بجھائی" یا جو بھی کہانی کا مقصود ہے۔
 
آخری تدوین:
کچھ دیر گزرنے کے بعد ثاقب پر بھی غنودگی چھانے لگی۔ لیکن وہ زبردستی بیٹھا رہا، بار بار دستی گھڑی کی جانب نگاہ جاتی، جب گھڑی نے رات کا ایک بجایا اس نے کتابیں اٹھا کر ایک طرف رکھیں اور وہیں دری پر دراز ہو گیا۔

اس جملے کا تاثر یہ بنتا ہے کہ مقصد پڑھنا نہیں، رات کا ایک بجانا ہے۔
 
" ثاقب صاحب ۔۔۔۔۔۔ ثاقب صاحب! "
صبح سویرے کوئی دروازہ پیٹے جا رہا تھا، ثاقب نے لیٹے لیٹے جو گھڑی پر نگاہ دوڑائی تو اسے یقین نہ آیا، سات بج رہے تھے۔
" یا اللہ! ۔۔ نماز بھی قضا ہو گئی "
ثاقب اٹھا ، دروازہ کھولا تو سامنے ڈاکیہ کھڑا تھا۔
" ثاقب صاحب یہ رہی آپ کے نام کی ڈاک ۔۔۔ یہاں دستخط کر دیجیے۔ "
ثاقب نے دستخط کر کے ڈاک وصول کر لی۔ ڈاک ایک ہلکے وزن کا لفافہ تھا۔ ثاقب نے دری کے پاس پڑے طلائی چولہے پر کیتلی میں چائے بننے کو رکھی اور لفافہ اٹھا کر اس کا ایک سرا چاک کیا ، دوہرا تہ کیا ہوا ایک ورق جھول میں آ گرا۔ اسی اثنا میں چائے کو جوش آ چکا تھا، ثاقب نے ایک پیالی میں چائے انڈیلی اور ساتھ ساتھ ورق سیدھا کر کے پڑھنے لگا۔ ثاقب جوں جوں تحریر کو پڑھتا جاتا اس کی آنکھیں حیرت سے کھلتی جاتیں۔ اس نے پیالی کو جھٹ سے نیچے دھرا اور غور سے عبارت پڑھنے لگا۔ جب تک خط کا تمام متن اس نے پڑھا اس کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو چکا تھا۔ فوراً بے جی کو اٹھا کر ساری کہانی سنا ڈالی کہ چند ماہ قبل اس نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینیجر کے عہدے کے لیئے کوائف جمع کرائے تھے۔ انٹرویو بھی ہوا تھا مگر کوئی قابل ذکر جواب نہ ملا۔ آج جب کہ ثاقب اس بات کو بھول چکا تھا اچانک اس کمپنی کی طرف سے اپائنٹ منٹ لیٹر موصول ہوا۔ دس روز بعد دفتر میں حاضر ہونے کا لکھا تھا۔ بے جی غور سے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں، پھر بولیں،

غالباً یہاں سے وہ خواب شروع ہوتا ہے جو اس افسانے کا عنوان بنا۔
آگے چلنے سے پہلے ایک خاص عنصر کی تعریف کرنا چاہوں گا۔ فی زمانہ مصنف لوگ اذان، وضو، نماز کا افسانوں اور کہانیوں میں ذکر نہیں کرتے اور بہت سے قاری بھی بدکتے ہیں۔ اگر کہیں ذکر آتا بھی ہے تو کسی بڑھی بوڑھی کا یا بڑھے بوڑھے کا۔ آپ کے افسانے کا نوجوان کردار اپنے اندر یہ خوبی رکھتا ہے، میں اس کی تحسین کرتا ہوں۔ دوسروں سے مجھے کچھ نہیں لینا دینا۔
بلکہ اب تو نعرہ لگایا جاتا ہے کہ ادب دین و مذہب سے بالاتر ہوتا ہے۔ خاص طور پر اسلامی شعائر کی بات کی جائے تو یارلوگوں کے چہرے متغیر ہو جاتے ہیں کہ یہ انتہاپسندی ہ، بنیاد پرستی ہے وغیرہ وغیرہ۔
 
(صبح سویرے کوئی دروازہ پیٹے جا رہا تھا، ثاقب نے لیٹے لیٹے جو گھڑی پر نگاہ دوڑائی تو اسے یقین نہ آیا، سات بج رہے تھے۔
" یا اللہ! ۔۔ نماز بھی قضا ہو گئی "
ثاقب اٹھا ، دروازہ کھولا تو سامنے ڈاکیہ کھڑا تھا۔
" ثاقب صاحب یہ رہی آپ کے نام کی ڈاک ۔۔۔ یہاں دستخط کر دیجیے۔ ")

برا مت مانئے گا بھائی سید فصیح احمد ! ہماری عمر کی چھ دہائیاں گزر گئیں ہم نے صبح سات بجے کسی ڈاکیے کو چٹھیاں تقسیم کرتے نہ دیکھا نہ سنا۔ ڈاک خانہ نو بجے کھلتا ہے اور پوسٹ مین کوئی دس بجے ڈاک خانے سے نکلتے ہیں۔ کوریر والے لوگ تو اور بھی دیر سے نکلتے ہیں۔ پاکستان میں تو یہی ہوتا ہے، باہر کا ہمیں کچھ پتہ نہیں۔
 
Top