محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
گزشتہ سے پیوستہ
ایم بی اے کرنے کے بعد ثاقب اب تک شہر کی تمام سڑکوں سے واقف ہو چکا تھا۔ مگر وہ جائزے جن کی وجہ سے اسے شہر کا تمام نقشہ ازبر ہوا، کاروباری دورے نہ تھے بلکہ مقدر ہوئے گھن چکر انٹرویو تھے۔ اکثر کی طرح آج بھی وہ ایک انٹرویو کی پیشی پر موجود اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ گو کہ ثاقب بہت چست اور تنومد شخصیت کا مالک تھا مگر آج اس کے ماتھے پر جھریاں ہی جھریاں تھیں۔ کاندھے بھی ڈھلکے ہوئے تھے، کب سے ایک ہاتھ کے ناخن چبا رہا تھا اورنظر بدستور کلائی پر بندھی گھڑی پر مرکوزتھی!
" جب سلیکشن پہلے سے ہو چکی ہوتی ہے تو ہمیں کیوں خوار کیا جاتا ہے؟ "
ثاقب اپنے دھیان میں ہی گم تھا کہ اچانک ایک غیر مانوس آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ دھیان کرنے پر معلوم پڑا کہ ایک نوجوان جو عمر میں اس سے قدرے کم تھا، ایک فائل بازوؤں اور سینے کے بیچ یوں زور سے دبائے بیٹھا تھا کہ ذرا بھی گرفت ڈھیلی ہوئی تو کوئی اس سے وہ خزانہ جھپٹ لے گا۔
" نام کیا ہے آپ کا؟ "
ثاقب نے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کر ڈالا،
" نوید! "
نوجوان کے چہرے پر رسمی مسکراہٹ بھی نہ تھی۔
"میرا نام ثاقب ہے"
نوجون نے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔،
" جوہؔر وہ صبر آپ ہی دے گا اگر ہمیں
ہے امتیاز وعدہ صبر آزمائے دوست "
ثاقب نے شعر پڑھا ۔۔۔،
" آپ بھی تو پریشان ہیں ۔۔ "
نوجوان بولا ۔۔۔ ،
اس سے پہلے کہ گفتگو کوئی رخ اختیار کرتی چپڑاسی کی آواز گونجی ،،
" نوید صاحب تشریف لائیں ۔۔۔۔۔ نوید صاحب!"
وہ نوجوان یوں کوندا جیسے کرسی نہیں بلکہ سپرِنگ پر بیٹھا تھا اور ایک زمانے سے اُسے اسی پکار کا انتظار تھا ۔۔۔ !!
ثاقب پھر سے دستی گھڑی پر نظریں گاڑے کہیں کھو گیا۔ وقت کا پتہ نہیں چلا ، نہ جانے وہ نوجوان اپنی باری نپٹا کر کب کا جا چکا تھا۔ اچانک کسی نے اسے کاندھے سے پکڑ کر جھنجوڑا ،
" آپ کا نام ثاقب ہے ؟ "
ثاقب نے سر اٹھا کر دیکھا تو چپڑاسی اس کے سامنے ایک تختی پر کچھ ورق لیئے کھڑا تھا ،،
"جی!"
" صاحب! کتنی بار نام پکارا مگر آپ متوجہ نہیں ہوئے "
ثاقب نے غور کیا تو سامنے کی انتظاری نشستوں پر صرف ایک خاتون بیٹھی تھیں، سب اپنی اپنی حاضری لگوا کر جا چکے تھے ، ثاقب بھی اٹھ کر چپڑاسی کے ساتھ ہو لیا۔انٹرویو میں کوئی قابل ذکر سوال و جواب نہ ہوئے، بس رسمی ورق گردانی اور صبر آزمائی تھی جس سے ثاقب اب کافی مانوس ہو چکا تھا۔ اس جرح سازی کے بعد ثاقب نے استقبالیہ سے وزٹنگ کارڈ حاصل کیا اور باہر نکل گیا، سڑک پر آ کر اس نے آٹو والے کو ہاتھ دیا،
" بھائی کچی بستی جانا ہے "
" پھاٹک والی ؟ "
" جی وہی! ۔۔۔ کتنا کرایہ؟"
" چالیس روپے! "
آٹو والے نے تمباکو کا پانی سڑک پر پچکارتے ہوئے بتایا۔ گو کہ کرایہ صرف بیس روپے بنتا تھا مگر ثاقب کو جلدی تھی اور شائد آٹو والے نے اس کے ماتھے پر لکھی تحریر پڑھ لی تھی۔ آٹو کوئی دس منٹ کے سفر کے بعد جسم کے سب پرزے ہلا دینے والی کچی بستی کی نا ہموار سڑک پر گام زن تھا، پھاٹک سےتھوڑا پہلے ہی ثاقب نے اسے رکنے کا بولا۔آٹو والے کو کرایہ دے کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ایک گلی میں داخل ہو گیا جو کہ کیچ سے تقریباً بھری ہوئی تھی، برسات نہیں بلکہ وجہ میونسپلٹی کی لا پروائی تھی۔ گلی کے عین وسط میں ایک جانب اکھڑی ہوئی اینٹوں کا اکلوتا کمرہ قریب پانچ فُٹ کی چار دیواری کےحصار میں بمشکل قائم تھا، ثاقب نے ٹین چادر سے مرمت شدہ دروازہ جلدی سے کھولا اور سامنے پلنگ پر نگاہ پڑتے ہی اس کے ماتھے سے سب سلوٹیں غائب ہو گئیں۔ بخار کے باوجود بے جی ابھی تک گہری نیند سو رہی تھیں۔ ثاقب کو اپنی ماں کا چہرہ یاد نہ تھا، جب وہ دو سال کا تھا تو ایک ٹریفک حادثے میں ماں چل بسی۔ اس دن کے بعد سے بے جی ہی اس کی ماں، اس کی کل کائنات تھیں۔ ثاقب جا کر ان کے سرہانے بیٹھ گیا۔ اس نے بے جی کے ماتھے پر بوسہ دیا اور ان کے چاندی بھرے بالوں میں ہاتھ سے کنگھی کرنے لگا۔
" کیا بنا موئے انٹرویو کا؟ "
بے جی نے آنکھیں کھولے بنا ہی پوچھا۔
"خیر ہو گی!"
ثاقب پھر سے اپنی مخصوص پرسکون شخصیت اختیار کر چکا تھا۔
" کیسے ہو گی خیر؟ ۔۔ تجھے کتنی بار بولا تیری پھوپھی سے کہہ کر تجھے امریکہ بھجوا دیتی ہوں مگر تو میری سنتا ہی کب ہے!"
" آپ کیوں نہیں جاتیں امریکہ؟ "
" میں پاکستان نہیں چھوڑ سکتی "
" پھر میں کیوں چھوڑ دوں پاکستان؟ "
بے جی نے جواب نہ دیا۔ ثاقب وہیں کچھ دیر بیٹھا بے جی کے بال سدھارتا رہا۔ عصر کی اذان کان پڑی تو وہ اُٹھ کر وضو کی تیاری میں لگ گیا۔
مسجد سے واپسی پر کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ثاقب اندر داخل ہوا تو دیکھا محلے کے بچے ٹیوشن پڑھنے جمع ہو چکے تھے۔ مغرب تک وہ ان سے فارغ ہو گیا۔ بے جی نے شام کا کھانا تیار کر دیا تھا۔ ثاقب نے اپنی بیاض میں آج کی روداد درج کی اور ایک نگاہ گزشتہ کار گزاری پر ڈالی۔ اتنی دیر میں عشا کی اذان ہو گئی، نماز سے فارغ ہو کر وہ تنور سے روٹیاں پکڑ لایا۔ جب کھانے کے لیئے بیٹھا تو بے جی نے ایک لقمہ توڑ کر بسم اللہ پڑھی اور ثاقب کو کھلایا۔ بچپن سے ہی کھانے کا پہلا لقمہ وہ ہمیشہ بے جی کے ہاتھوں سے لیتا تھا۔ کھانے سے فارغ ہو کر وہ کمرے کے کونے میں دھری کتابوں کی طرف ہوا، ایک نگاہ کیلنڈر پر ڈالی جس پر پانچ تاریخ کا بڑا ہندسہ اونگھ رہا تھا۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد ثاقب پر بھی غنودگی چھانے لگی۔ لیکن وہ زبردستی بیٹھا رہا، بار بار دستی گھڑی کی جانب نگاہ جاتی، جب گھڑی نے رات کا ایک بجایا اس نے کتابیں اٹھا کر ایک طرف رکھیں اور وہیں دری پر دراز ہو گیا۔ مگر اب بھی آنکھیں بند نہ کی تھیں، ٹھیک دو بجے اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے کمرے کی خستہ دیواریں لرز رہی ہیں ۔۔۔۔ کچھ ہی ساعت میں ریل گاڑی یوں کوکتی ہوئی گزری جیسے کسی بھی پل کمرے میں گھس آئے گی! جونہی ہر شے وجد سے حالت سکون کو پہنچی ثاقب نے اٹھ کر بتی گل کی اور پھر دری پر آ لیٹا۔ جلد ہی وہ ہر شے سے بے خبر ہو چکا تھا۔
" ثاقب صاحب ۔۔۔۔۔۔ ثاقب صاحب! "
صبح سویرے کوئی دروازہ پیٹے جا رہا تھا، ثاقب نے لیٹے لیٹے جو گھڑی پر نگاہ دوڑائی تو اسے یقین نہ آیا، سات بج رہے تھے۔
" یا اللہ! ۔۔ نماز بھی قضا ہو گئی "
ثاقب اٹھا ، دروازہ کھولا تو سامنے ڈاکیہ کھڑا تھا۔
" ثاقب صاحب یہ رہی آپ کے نام کی ڈاک ۔۔۔ یہاں دستخط کر دیجیے۔ "
ثاقب نے دستخط کر کے ڈاک وصول کر لی۔ ڈاک ایک ہلکے وزن کا لفافہ تھا۔ ثاقب نے دری کے پاس پڑے طلائی چولہے پر کیتلی میں چائے بننے کو رکھی اور لفافہ اٹھا کر اس کا ایک سرا چاک کیا ، دوہرا تہ کیا ہوا ایک ورق جھول میں آ گرا۔ اسی اثنا میں چائے کو جوش آ چکا تھا، ثاقب نے ایک پیالی میں چائے انڈیلی اور ساتھ ساتھ ورق سیدھا کر کے پڑھنے لگا۔ ثاقب جوں جوں تحریر کو پڑھتا جاتا اس کی آنکھیں حیرت سے کھلتی جاتیں۔ اس نے پیالی کو جھٹ سے نیچے دھرا اور غور سے عبارت پڑھنے لگا۔ جب تک خط کا تمام متن اس نے پڑھا اس کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو چکا تھا۔ فوراً بے جی کو اٹھا کر ساری کہانی سنا ڈالی کہ چند ماہ قبل اس نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینیجر کے عہدے کے لیئے کوائف جمع کرائے تھے۔ انٹرویو بھی ہوا تھا مگر کوئی قابل ذکر جواب نہ ملا۔ آج جب کہ ثاقب اس بات کو بھول چکا تھا اچانک اس کمپنی کی طرف سے اپائنٹ منٹ لیٹر موصول ہوا۔ دس روز بعد دفتر میں حاضر ہونے کا لکھا تھا۔ بے جی غور سے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں، پھر بولیں،
" اگر تیری خوشی اسی میں ہے تو تیری بے جی بھی خوش ہیں "
ثاقب کے سر پر ہاتھ پھیر کر بہت دیر دعائیں دیتی رہیں۔ ثاقب ایک قابل آدمی تھا۔باقی ماندہ دن وہ اسی تیاری میں رہا کہ کیا کرنا ہے ، کیسے کرنا ہے ، کب کرنا ہے ۔۔۔، اور جلد ہی وہ دن بھی آ گیا جب اس نے ایک اونچی اڑان کے واسطے پر تولتے ہوئے پہلا قدم اٹھانا تھا، نوکری کا پہلا دن! ۔۔۔ وہ دفتر پہنچا تو کچھ رسمی جھنجھٹوں کے بعد ایک میٹنگ بلائی گئی، اس میں سب سے تعارف ہوا اور یوں کام کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ سارا دن کام کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کی طرح اس کی نظر مسلسل دستی گھڑی پر تھی۔ عصر تک اسے فرصت ہوئی تو وہ جلدی سے گھر کو روانہ ہوا، گھر پہنچا تو دیکھا کہ بے جی خلاف معمول آج کھانا بنانے میں مشغول تھیں،
" بے جی ڈاکٹر نے آپ کو جگر کے عارضے کے باعث زیادہ گرمی سے پرہیز کا بولا ہے نا !! ۔۔ اور آپ شام کا کھانا بھی زبردستی بناتی ہیں!!"
" ہاں پُتر جانتی ہوں، بس آج ہی بناؤں گی دن کا کھانا، کیوں کہ آج تیرا دفتر میں پہلا روز تھا ۔۔۔ کیسے ہیں دفتر والے؟ "
" بہت اچھے! "
اس کے بعد ثاقب نے تمام روداد بے جی کے گوش گزار دی۔ اس نے بے جی کو یہ خوش خبری بھی دی کہ اب وہ ایک ہفتہ تک نئے مکان میں منتقل ہو جائیں گے۔ بے جی کو نئے گھر کی خبر سے کچھ خاص خوشی نہ ہوئی۔
دن یونہی گزرتے گئے اور اپنی قابلیت ثابت کرنے کے لیئے ثاقب دن اور رات کا فرق بھول چکا تھا۔ ایک ہفتہ گزرا تو کمپنی کی طرف سے شہر کے متمول علاقے میں ایک اعلیٰ رہائش بھی مل گئی۔ بے جی کو بھی ثاقب نئے گھر لے آیا، مگر بے جی دو دن ٹھیک سے سو بھی نہ سکیں (سبب شائد نئی جگہ پر اجنبیت کا احساس تھا!)۔ اب ثاقب کو اپنا نام بنانے کے لیئے کئی بار رات کو بھی رکنا پڑ جاتا، ایسے میں ثاقب نے پرانے محلہ سے ایک ادھیڑ عمر خاتون کو بے جی کے خیال کے لیئے رکھ لیا، سب انہیں بوا کہہ کر بلاتے تھے، اُجرت کچھ نہ طے ہوئی کہ ان کا بھی دنیا میں کوئی نہ تھا بس سر ڈھانپنے کی جگہ اور روٹی کپڑا درکار تھا۔ اسی دوران کمپنی نے ثاقب کو کمپنی کی ترجمانی کے لیئے بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا، پندرہ دن کا دورہ تھا۔ جب بے جی کو پتہ چلا تو ثاقب کو انہیں بھی ساتھ لے جانے کا بولا، کہ اس سے دور کبھی نہیں رہیں، پندرہ دن کی دوری اور وہ بھی پرائے دیس میں! سہ نہیں پائیں گی۔
" بے جی وہاں کیسے آپ کی دیکھ بھال کروں گا، یہاں بوا جو ہیں آپ کے پاس۔ بس کچھ دن کی تو بات ہے!"
" کمپنی کا پتہ دے رہا ہوں آپ کو، کوئی بھی بات ہو مجھ تک پلک جھپکنے میں پہنچ جائے گی "
بے جی کچھ نہ بولیں اور ثاقب سمندر پار پہنچ گیا۔
وہاں تو دنیا ہی اور تھی اس نے سوائے ست رنگی دھنک کے اتنے رنگ ایک جگہ کبھی نہ دیکھے تھے۔ پہلی رات وہ اکیلا ہی دیر تک جانے کہاں کہاں گھومتا رہا۔ بہت دیر سے لوٹا اور آتے ہی سو گیا۔ پھر اگلے چھے دن دفتری مصروفیت رہی۔ ساتویں دن کوئی کاروباری کام نہ تھا، تو وہ دیر سے اُٹھا۔ باورچی نے ناشتہ لگا دیا تھا۔ ثاقب جب نہا دھو کر ناشتے کی میز پر پہنچا تو دیکھا کہ ناشتے کے ساتھ ہی ایک خاکی لفافہ دھرا تھا۔ شائدتار تھا کسی کا۔ اس نے رس بھرا کانچ کا گلاس اٹھایا اور چسکیاں بھرنے لگا۔ ساتھ ساتھ اس نے تار پڑھنا شروع کیا۔ عبارت کی پہلی سطر کچھ یوں تھی ،
" السلام علیکم ثاقب بیٹا! بہت افسوس کے ساتھ لکھ رہی ہوں ، تیری بے جی اب اس دنیا میں نہیں رہیں! ۔۔ تو جلدی سے ۔۔۔"
اس سطر کے بعد باقی عبارت تک نگاہ پہنچ نہیں سکی، اچانک کمرے میں گھپ اندھیرا ہو گیا، اس کے دماغ میں آیا کہ شائد بجلی چلی گئی ہے۔ اس نے نوکر کوآواز دی،
"ارے بھئی یہ لائٹ کیوں بند کر دی؟ "
" نہیں صاحب کہاں بند کی ، جل تو رہی ہے!! "
اس کے اعصاب سن ہو چکے تھے۔ کچھ ہی لحظہ میں جو روشنی لوٹی تو ثاقب نے فوراً اپنے کاغذات سنبھالے اور کسی کو بتائے بغیر واپس وطن روانہ ہو گیا، چند ہی گھنٹوں میں وہ گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا ۔۔۔ تمام سفر اس نے سوائے چند الفاظ کے کسی سے کچھ بات نہ کی۔ بوا نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی اس کی نگاہ صحن میں رکھے پلنگ پر پڑ گئی ۔۔ اس کے اعصاب ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ وہ بڑی مشکل سے پلنگ تک پہنچا ۔۔۔ بے جی سفید لبادہ اوڑھے آرام کر رہی تھیں۔ وہ ان کے سرہانے بیٹھ گیا۔ ثاقب کی آنکھیں خشک تھیں۔ جیسے کسی نخلستان سے چشمہ کوچ کر گیا ہو اور باقی ریت ہی ریت رہ جائے! ۔۔ ثاقب بے جی کے چاندی بھرے بالوں میں ہاتھ سے کنگھی کرنے لگا۔ مسلسل کان لگائے منتظر رہنے کے بعد بھی جب کوئی پکار نہیں آئی تو دو آنسو اس کی آنکھوں سے نکلے، اور پھر تو جیسے ندی سی رواں ہو گئی ۔۔۔ ثاقب زباں سے کچھ نہ کہہ رہا تھا! ۔۔۔ روتے روتے اس کی ہچکی بندھ چکی تھی۔ وہ بس ایک ٹک بے جی کی طرف دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔ شائد اس انتظار میں کہ ابھی بے جی اسے آواز دیں گی، مگر افسوس!! بے جی کے سرہانے آنسوؤں سے نڈھال اس سے نقاہت کے باعث آنکھیں بھی نہیں کھولی جا رہی تھیں! ۔۔ اچانک اسے ایسا لگا جیسے کوئی اس کے سینے پر بیٹھ گیا ہو! ۔۔۔ جب دم گھٹنے لگا تو اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں ۔۔ کیا دیکھتا ہے کہ کیلنڈر پر پانچ تاریخ کا بڑا ہندسہ ابھی تک کسمسا رہا ہے ۔۔ !! اس کا سارا لباس بھیگا ہوا تھا ۔ فوراً سے بے جی کے پلنگ کی طرف دیکھا تو انہیں گہری نیند میں گُم پایا۔ ان کے پلنگ کے پاس پہنچا اور بہت دیر تک خاموشی سے ان کا چہرا دیکھتا رہا۔
" شکر ہے مالک ، یہ سب محض خواب تھا! "
بے جی کے ماتھے پر بوسہ دے کر وہ واپس اپنی دری پر سونے کے لیئے دراز ہو گیا۔
ٹیگ: ایوب ناطق ، سید فصیح احمد محمد یعقوب آسی
ایم بی اے کرنے کے بعد ثاقب اب تک شہر کی تمام سڑکوں سے واقف ہو چکا تھا۔ مگر وہ جائزے جن کی وجہ سے اسے شہر کا تمام نقشہ ازبر ہوا، کاروباری دورے نہ تھے بلکہ مقدر ہوئے گھن چکر انٹرویو تھے۔ اکثر کی طرح آج بھی وہ ایک انٹرویو کی پیشی پر موجود اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ گو کہ ثاقب بہت چست اور تنومد شخصیت کا مالک تھا مگر آج اس کے ماتھے پر جھریاں ہی جھریاں تھیں۔ کاندھے بھی ڈھلکے ہوئے تھے، کب سے ایک ہاتھ کے ناخن چبا رہا تھا اورنظر بدستور کلائی پر بندھی گھڑی پر مرکوزتھی!
" جب سلیکشن پہلے سے ہو چکی ہوتی ہے تو ہمیں کیوں خوار کیا جاتا ہے؟ "
ثاقب اپنے دھیان میں ہی گم تھا کہ اچانک ایک غیر مانوس آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ دھیان کرنے پر معلوم پڑا کہ ایک نوجوان جو عمر میں اس سے قدرے کم تھا، ایک فائل بازوؤں اور سینے کے بیچ یوں زور سے دبائے بیٹھا تھا کہ ذرا بھی گرفت ڈھیلی ہوئی تو کوئی اس سے وہ خزانہ جھپٹ لے گا۔
" نام کیا ہے آپ کا؟ "
ثاقب نے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کر ڈالا،
" نوید! "
نوجوان کے چہرے پر رسمی مسکراہٹ بھی نہ تھی۔
"میرا نام ثاقب ہے"
نوجون نے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔،
" جوہؔر وہ صبر آپ ہی دے گا اگر ہمیں
ہے امتیاز وعدہ صبر آزمائے دوست "
ثاقب نے شعر پڑھا ۔۔۔،
" آپ بھی تو پریشان ہیں ۔۔ "
نوجوان بولا ۔۔۔ ،
اس سے پہلے کہ گفتگو کوئی رخ اختیار کرتی چپڑاسی کی آواز گونجی ،،
" نوید صاحب تشریف لائیں ۔۔۔۔۔ نوید صاحب!"
وہ نوجوان یوں کوندا جیسے کرسی نہیں بلکہ سپرِنگ پر بیٹھا تھا اور ایک زمانے سے اُسے اسی پکار کا انتظار تھا ۔۔۔ !!
ثاقب پھر سے دستی گھڑی پر نظریں گاڑے کہیں کھو گیا۔ وقت کا پتہ نہیں چلا ، نہ جانے وہ نوجوان اپنی باری نپٹا کر کب کا جا چکا تھا۔ اچانک کسی نے اسے کاندھے سے پکڑ کر جھنجوڑا ،
" آپ کا نام ثاقب ہے ؟ "
ثاقب نے سر اٹھا کر دیکھا تو چپڑاسی اس کے سامنے ایک تختی پر کچھ ورق لیئے کھڑا تھا ،،
"جی!"
" صاحب! کتنی بار نام پکارا مگر آپ متوجہ نہیں ہوئے "
ثاقب نے غور کیا تو سامنے کی انتظاری نشستوں پر صرف ایک خاتون بیٹھی تھیں، سب اپنی اپنی حاضری لگوا کر جا چکے تھے ، ثاقب بھی اٹھ کر چپڑاسی کے ساتھ ہو لیا۔انٹرویو میں کوئی قابل ذکر سوال و جواب نہ ہوئے، بس رسمی ورق گردانی اور صبر آزمائی تھی جس سے ثاقب اب کافی مانوس ہو چکا تھا۔ اس جرح سازی کے بعد ثاقب نے استقبالیہ سے وزٹنگ کارڈ حاصل کیا اور باہر نکل گیا، سڑک پر آ کر اس نے آٹو والے کو ہاتھ دیا،
" بھائی کچی بستی جانا ہے "
" پھاٹک والی ؟ "
" جی وہی! ۔۔۔ کتنا کرایہ؟"
" چالیس روپے! "
آٹو والے نے تمباکو کا پانی سڑک پر پچکارتے ہوئے بتایا۔ گو کہ کرایہ صرف بیس روپے بنتا تھا مگر ثاقب کو جلدی تھی اور شائد آٹو والے نے اس کے ماتھے پر لکھی تحریر پڑھ لی تھی۔ آٹو کوئی دس منٹ کے سفر کے بعد جسم کے سب پرزے ہلا دینے والی کچی بستی کی نا ہموار سڑک پر گام زن تھا، پھاٹک سےتھوڑا پہلے ہی ثاقب نے اسے رکنے کا بولا۔آٹو والے کو کرایہ دے کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ایک گلی میں داخل ہو گیا جو کہ کیچ سے تقریباً بھری ہوئی تھی، برسات نہیں بلکہ وجہ میونسپلٹی کی لا پروائی تھی۔ گلی کے عین وسط میں ایک جانب اکھڑی ہوئی اینٹوں کا اکلوتا کمرہ قریب پانچ فُٹ کی چار دیواری کےحصار میں بمشکل قائم تھا، ثاقب نے ٹین چادر سے مرمت شدہ دروازہ جلدی سے کھولا اور سامنے پلنگ پر نگاہ پڑتے ہی اس کے ماتھے سے سب سلوٹیں غائب ہو گئیں۔ بخار کے باوجود بے جی ابھی تک گہری نیند سو رہی تھیں۔ ثاقب کو اپنی ماں کا چہرہ یاد نہ تھا، جب وہ دو سال کا تھا تو ایک ٹریفک حادثے میں ماں چل بسی۔ اس دن کے بعد سے بے جی ہی اس کی ماں، اس کی کل کائنات تھیں۔ ثاقب جا کر ان کے سرہانے بیٹھ گیا۔ اس نے بے جی کے ماتھے پر بوسہ دیا اور ان کے چاندی بھرے بالوں میں ہاتھ سے کنگھی کرنے لگا۔
" کیا بنا موئے انٹرویو کا؟ "
بے جی نے آنکھیں کھولے بنا ہی پوچھا۔
"خیر ہو گی!"
ثاقب پھر سے اپنی مخصوص پرسکون شخصیت اختیار کر چکا تھا۔
" کیسے ہو گی خیر؟ ۔۔ تجھے کتنی بار بولا تیری پھوپھی سے کہہ کر تجھے امریکہ بھجوا دیتی ہوں مگر تو میری سنتا ہی کب ہے!"
" آپ کیوں نہیں جاتیں امریکہ؟ "
" میں پاکستان نہیں چھوڑ سکتی "
" پھر میں کیوں چھوڑ دوں پاکستان؟ "
بے جی نے جواب نہ دیا۔ ثاقب وہیں کچھ دیر بیٹھا بے جی کے بال سدھارتا رہا۔ عصر کی اذان کان پڑی تو وہ اُٹھ کر وضو کی تیاری میں لگ گیا۔
مسجد سے واپسی پر کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ثاقب اندر داخل ہوا تو دیکھا محلے کے بچے ٹیوشن پڑھنے جمع ہو چکے تھے۔ مغرب تک وہ ان سے فارغ ہو گیا۔ بے جی نے شام کا کھانا تیار کر دیا تھا۔ ثاقب نے اپنی بیاض میں آج کی روداد درج کی اور ایک نگاہ گزشتہ کار گزاری پر ڈالی۔ اتنی دیر میں عشا کی اذان ہو گئی، نماز سے فارغ ہو کر وہ تنور سے روٹیاں پکڑ لایا۔ جب کھانے کے لیئے بیٹھا تو بے جی نے ایک لقمہ توڑ کر بسم اللہ پڑھی اور ثاقب کو کھلایا۔ بچپن سے ہی کھانے کا پہلا لقمہ وہ ہمیشہ بے جی کے ہاتھوں سے لیتا تھا۔ کھانے سے فارغ ہو کر وہ کمرے کے کونے میں دھری کتابوں کی طرف ہوا، ایک نگاہ کیلنڈر پر ڈالی جس پر پانچ تاریخ کا بڑا ہندسہ اونگھ رہا تھا۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد ثاقب پر بھی غنودگی چھانے لگی۔ لیکن وہ زبردستی بیٹھا رہا، بار بار دستی گھڑی کی جانب نگاہ جاتی، جب گھڑی نے رات کا ایک بجایا اس نے کتابیں اٹھا کر ایک طرف رکھیں اور وہیں دری پر دراز ہو گیا۔ مگر اب بھی آنکھیں بند نہ کی تھیں، ٹھیک دو بجے اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے کمرے کی خستہ دیواریں لرز رہی ہیں ۔۔۔۔ کچھ ہی ساعت میں ریل گاڑی یوں کوکتی ہوئی گزری جیسے کسی بھی پل کمرے میں گھس آئے گی! جونہی ہر شے وجد سے حالت سکون کو پہنچی ثاقب نے اٹھ کر بتی گل کی اور پھر دری پر آ لیٹا۔ جلد ہی وہ ہر شے سے بے خبر ہو چکا تھا۔
" ثاقب صاحب ۔۔۔۔۔۔ ثاقب صاحب! "
صبح سویرے کوئی دروازہ پیٹے جا رہا تھا، ثاقب نے لیٹے لیٹے جو گھڑی پر نگاہ دوڑائی تو اسے یقین نہ آیا، سات بج رہے تھے۔
" یا اللہ! ۔۔ نماز بھی قضا ہو گئی "
ثاقب اٹھا ، دروازہ کھولا تو سامنے ڈاکیہ کھڑا تھا۔
" ثاقب صاحب یہ رہی آپ کے نام کی ڈاک ۔۔۔ یہاں دستخط کر دیجیے۔ "
ثاقب نے دستخط کر کے ڈاک وصول کر لی۔ ڈاک ایک ہلکے وزن کا لفافہ تھا۔ ثاقب نے دری کے پاس پڑے طلائی چولہے پر کیتلی میں چائے بننے کو رکھی اور لفافہ اٹھا کر اس کا ایک سرا چاک کیا ، دوہرا تہ کیا ہوا ایک ورق جھول میں آ گرا۔ اسی اثنا میں چائے کو جوش آ چکا تھا، ثاقب نے ایک پیالی میں چائے انڈیلی اور ساتھ ساتھ ورق سیدھا کر کے پڑھنے لگا۔ ثاقب جوں جوں تحریر کو پڑھتا جاتا اس کی آنکھیں حیرت سے کھلتی جاتیں۔ اس نے پیالی کو جھٹ سے نیچے دھرا اور غور سے عبارت پڑھنے لگا۔ جب تک خط کا تمام متن اس نے پڑھا اس کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو چکا تھا۔ فوراً بے جی کو اٹھا کر ساری کہانی سنا ڈالی کہ چند ماہ قبل اس نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینیجر کے عہدے کے لیئے کوائف جمع کرائے تھے۔ انٹرویو بھی ہوا تھا مگر کوئی قابل ذکر جواب نہ ملا۔ آج جب کہ ثاقب اس بات کو بھول چکا تھا اچانک اس کمپنی کی طرف سے اپائنٹ منٹ لیٹر موصول ہوا۔ دس روز بعد دفتر میں حاضر ہونے کا لکھا تھا۔ بے جی غور سے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں، پھر بولیں،
" اگر تیری خوشی اسی میں ہے تو تیری بے جی بھی خوش ہیں "
ثاقب کے سر پر ہاتھ پھیر کر بہت دیر دعائیں دیتی رہیں۔ ثاقب ایک قابل آدمی تھا۔باقی ماندہ دن وہ اسی تیاری میں رہا کہ کیا کرنا ہے ، کیسے کرنا ہے ، کب کرنا ہے ۔۔۔، اور جلد ہی وہ دن بھی آ گیا جب اس نے ایک اونچی اڑان کے واسطے پر تولتے ہوئے پہلا قدم اٹھانا تھا، نوکری کا پہلا دن! ۔۔۔ وہ دفتر پہنچا تو کچھ رسمی جھنجھٹوں کے بعد ایک میٹنگ بلائی گئی، اس میں سب سے تعارف ہوا اور یوں کام کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ سارا دن کام کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کی طرح اس کی نظر مسلسل دستی گھڑی پر تھی۔ عصر تک اسے فرصت ہوئی تو وہ جلدی سے گھر کو روانہ ہوا، گھر پہنچا تو دیکھا کہ بے جی خلاف معمول آج کھانا بنانے میں مشغول تھیں،
" بے جی ڈاکٹر نے آپ کو جگر کے عارضے کے باعث زیادہ گرمی سے پرہیز کا بولا ہے نا !! ۔۔ اور آپ شام کا کھانا بھی زبردستی بناتی ہیں!!"
" ہاں پُتر جانتی ہوں، بس آج ہی بناؤں گی دن کا کھانا، کیوں کہ آج تیرا دفتر میں پہلا روز تھا ۔۔۔ کیسے ہیں دفتر والے؟ "
" بہت اچھے! "
اس کے بعد ثاقب نے تمام روداد بے جی کے گوش گزار دی۔ اس نے بے جی کو یہ خوش خبری بھی دی کہ اب وہ ایک ہفتہ تک نئے مکان میں منتقل ہو جائیں گے۔ بے جی کو نئے گھر کی خبر سے کچھ خاص خوشی نہ ہوئی۔
دن یونہی گزرتے گئے اور اپنی قابلیت ثابت کرنے کے لیئے ثاقب دن اور رات کا فرق بھول چکا تھا۔ ایک ہفتہ گزرا تو کمپنی کی طرف سے شہر کے متمول علاقے میں ایک اعلیٰ رہائش بھی مل گئی۔ بے جی کو بھی ثاقب نئے گھر لے آیا، مگر بے جی دو دن ٹھیک سے سو بھی نہ سکیں (سبب شائد نئی جگہ پر اجنبیت کا احساس تھا!)۔ اب ثاقب کو اپنا نام بنانے کے لیئے کئی بار رات کو بھی رکنا پڑ جاتا، ایسے میں ثاقب نے پرانے محلہ سے ایک ادھیڑ عمر خاتون کو بے جی کے خیال کے لیئے رکھ لیا، سب انہیں بوا کہہ کر بلاتے تھے، اُجرت کچھ نہ طے ہوئی کہ ان کا بھی دنیا میں کوئی نہ تھا بس سر ڈھانپنے کی جگہ اور روٹی کپڑا درکار تھا۔ اسی دوران کمپنی نے ثاقب کو کمپنی کی ترجمانی کے لیئے بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا، پندرہ دن کا دورہ تھا۔ جب بے جی کو پتہ چلا تو ثاقب کو انہیں بھی ساتھ لے جانے کا بولا، کہ اس سے دور کبھی نہیں رہیں، پندرہ دن کی دوری اور وہ بھی پرائے دیس میں! سہ نہیں پائیں گی۔
" بے جی وہاں کیسے آپ کی دیکھ بھال کروں گا، یہاں بوا جو ہیں آپ کے پاس۔ بس کچھ دن کی تو بات ہے!"
" کمپنی کا پتہ دے رہا ہوں آپ کو، کوئی بھی بات ہو مجھ تک پلک جھپکنے میں پہنچ جائے گی "
بے جی کچھ نہ بولیں اور ثاقب سمندر پار پہنچ گیا۔
وہاں تو دنیا ہی اور تھی اس نے سوائے ست رنگی دھنک کے اتنے رنگ ایک جگہ کبھی نہ دیکھے تھے۔ پہلی رات وہ اکیلا ہی دیر تک جانے کہاں کہاں گھومتا رہا۔ بہت دیر سے لوٹا اور آتے ہی سو گیا۔ پھر اگلے چھے دن دفتری مصروفیت رہی۔ ساتویں دن کوئی کاروباری کام نہ تھا، تو وہ دیر سے اُٹھا۔ باورچی نے ناشتہ لگا دیا تھا۔ ثاقب جب نہا دھو کر ناشتے کی میز پر پہنچا تو دیکھا کہ ناشتے کے ساتھ ہی ایک خاکی لفافہ دھرا تھا۔ شائدتار تھا کسی کا۔ اس نے رس بھرا کانچ کا گلاس اٹھایا اور چسکیاں بھرنے لگا۔ ساتھ ساتھ اس نے تار پڑھنا شروع کیا۔ عبارت کی پہلی سطر کچھ یوں تھی ،
" السلام علیکم ثاقب بیٹا! بہت افسوس کے ساتھ لکھ رہی ہوں ، تیری بے جی اب اس دنیا میں نہیں رہیں! ۔۔ تو جلدی سے ۔۔۔"
اس سطر کے بعد باقی عبارت تک نگاہ پہنچ نہیں سکی، اچانک کمرے میں گھپ اندھیرا ہو گیا، اس کے دماغ میں آیا کہ شائد بجلی چلی گئی ہے۔ اس نے نوکر کوآواز دی،
"ارے بھئی یہ لائٹ کیوں بند کر دی؟ "
" نہیں صاحب کہاں بند کی ، جل تو رہی ہے!! "
اس کے اعصاب سن ہو چکے تھے۔ کچھ ہی لحظہ میں جو روشنی لوٹی تو ثاقب نے فوراً اپنے کاغذات سنبھالے اور کسی کو بتائے بغیر واپس وطن روانہ ہو گیا، چند ہی گھنٹوں میں وہ گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا ۔۔۔ تمام سفر اس نے سوائے چند الفاظ کے کسی سے کچھ بات نہ کی۔ بوا نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی اس کی نگاہ صحن میں رکھے پلنگ پر پڑ گئی ۔۔ اس کے اعصاب ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ وہ بڑی مشکل سے پلنگ تک پہنچا ۔۔۔ بے جی سفید لبادہ اوڑھے آرام کر رہی تھیں۔ وہ ان کے سرہانے بیٹھ گیا۔ ثاقب کی آنکھیں خشک تھیں۔ جیسے کسی نخلستان سے چشمہ کوچ کر گیا ہو اور باقی ریت ہی ریت رہ جائے! ۔۔ ثاقب بے جی کے چاندی بھرے بالوں میں ہاتھ سے کنگھی کرنے لگا۔ مسلسل کان لگائے منتظر رہنے کے بعد بھی جب کوئی پکار نہیں آئی تو دو آنسو اس کی آنکھوں سے نکلے، اور پھر تو جیسے ندی سی رواں ہو گئی ۔۔۔ ثاقب زباں سے کچھ نہ کہہ رہا تھا! ۔۔۔ روتے روتے اس کی ہچکی بندھ چکی تھی۔ وہ بس ایک ٹک بے جی کی طرف دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔ شائد اس انتظار میں کہ ابھی بے جی اسے آواز دیں گی، مگر افسوس!! بے جی کے سرہانے آنسوؤں سے نڈھال اس سے نقاہت کے باعث آنکھیں بھی نہیں کھولی جا رہی تھیں! ۔۔ اچانک اسے ایسا لگا جیسے کوئی اس کے سینے پر بیٹھ گیا ہو! ۔۔۔ جب دم گھٹنے لگا تو اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں ۔۔ کیا دیکھتا ہے کہ کیلنڈر پر پانچ تاریخ کا بڑا ہندسہ ابھی تک کسمسا رہا ہے ۔۔ !! اس کا سارا لباس بھیگا ہوا تھا ۔ فوراً سے بے جی کے پلنگ کی طرف دیکھا تو انہیں گہری نیند میں گُم پایا۔ ان کے پلنگ کے پاس پہنچا اور بہت دیر تک خاموشی سے ان کا چہرا دیکھتا رہا۔
" شکر ہے مالک ، یہ سب محض خواب تھا! "
بے جی کے ماتھے پر بوسہ دے کر وہ واپس اپنی دری پر سونے کے لیئے دراز ہو گیا۔
ٹیگ: ایوب ناطق ، سید فصیح احمد محمد یعقوب آسی