محمد یعقوب آسی
محفلین
(ثاقب نے دستخط کر کے ڈاک وصول کر لی۔ ڈاک ایک ہلکے وزن کا لفافہ تھا۔ ثاقب نے دری کے پاس پڑے طلائی چولہے پر کیتلی میں چائے بننے کو رکھی اور لفافہ اٹھا کر اس کا ایک سرا چاک کیا ، دوہرا تہ کیا ہوا ایک ورق جھول میں آ گرا۔ اسی اثنا میں چائے کو جوش آ چکا تھا، ثاقب نے ایک پیالی میں چائے انڈیلی اور ساتھ ساتھ ورق سیدھا کر کے پڑھنے لگا۔ ثاقب جوں جوں تحریر کو پڑھتا جاتا اس کی آنکھیں حیرت سے کھلتی جاتیں۔ اس نے پیالی کو جھٹ سے نیچے دھرا اور غور سے عبارت پڑھنے لگا۔ جب تک خط کا تمام متن اس نے پڑھا اس کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو چکا تھا۔ فوراً بے جی کو اٹھا کر ساری کہانی سنا ڈالی کہ چند ماہ قبل اس نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینیجر کے عہدے کے لیئے کوائف جمع کرائے تھے۔ انٹرویو بھی ہوا تھا مگر کوئی قابل ذکر جواب نہ ملا۔ آج جب کہ ثاقب اس بات کو بھول چکا تھا اچانک اس کمپنی کی طرف سے اپائنٹ منٹ لیٹر موصول ہوا۔ دس روز بعد دفتر میں حاضر ہونے کا لکھا تھا۔ بے جی غور سے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں، پھر بولیں)
میرے حساب سے یہ غیر ضروری تفصیلات ہیں۔ ایک بات جو مجھے کھٹکی ہے وہ طلائی چولھا ہے۔ لفظی معانی میں تو یہ سونے کا بنا ہوا ٹھہرتا ہے۔ جس گھر کے چولھے سونے کے بنے ہوں وہاں تو خادموں اور خادماؤں کی فوج ہونی چاہئے اور ایسے لوگوں کو نوکری سے کیا لینا دینا! ؟؟
"بے جی غور سے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں، پھر بولیں۔۔" یہاں سے نیا پیراگراف شروع کیجئے۔
میرے حساب سے یہ غیر ضروری تفصیلات ہیں۔ ایک بات جو مجھے کھٹکی ہے وہ طلائی چولھا ہے۔ لفظی معانی میں تو یہ سونے کا بنا ہوا ٹھہرتا ہے۔ جس گھر کے چولھے سونے کے بنے ہوں وہاں تو خادموں اور خادماؤں کی فوج ہونی چاہئے اور ایسے لوگوں کو نوکری سے کیا لینا دینا! ؟؟
"بے جی غور سے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں، پھر بولیں۔۔" یہاں سے نیا پیراگراف شروع کیجئے۔