فرخ منظور
لائبریرین
نقشِ خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز
بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز
تیری ہی زلفِ ناز کا اب تک اسیر ہوں
یعنی کسی کے دامِ میں آیا نہیں ہنوز
یادش بخیر جس پہ کبھی تھی تری نظر
وہ دل کسی سے میں نے لگایا نہیں ہنوز
محرابِ جاں میں تونے جلایا تھا خود جسے
سینے کا وہ چراغ بجھایا نہیں ہنوز
بے ہوش ہو کے جلد تجھے ہوش آگیا
میں بد نصیب ہوش میں آیا نہیں ہنوز
تو کاروبارِ شوق میں تنہا نہیں رہا
میرا کسی نے ہاتھ بٹایا نہیں ہنوز
گردن کو آج بھی تری بانہوں کی یاد ہے
یہ منتوں کا طوق بڑھایا نہیں ہنوز
مرکر بھی آئے گی یہ صدا قبرِ جوشؔ سے
بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز
(جوش ملیح آبادی)
یہی غزل مہدی حسن کی آواز میں سنیے۔