شوخیاں مضطر نگاہِ دیدہء سرشار میں
عشرتیں خوابیدہ رنگِ غازہء رخسار میں
سرخ ہونٹوں پر تبسم کی ضیائیں جس طرح
یاسمن کے پھول ڈوبے ہوں مئے گلنار میں
سامنا
چھنتی ہوئی نظروں سے جذبات کی دنیائیں
بے خوابیاں، افسانے، مہتاب، تمنائیں
کچھ الجھی ہوئی باتیں، کچھ بہکے ہوئے نغمے
کچھ اشک جو آنکھوں سے بے وجہ چھلک جائیں
رخصت
فسردہ رخ، لبوں پر اک نیاز آمیز خاموشی
تبسم مضمحل تھا، مرمریں ہاتھوں میں لرزش تھی
وہ کیسی بے کسی تھی تیری پر تمکیں نگاہوں میں
وہ کیا دکھ تھا تری سہمی ہوئی خاموش آہوں میں
بربطِ دل کے تار ٹوٹ گئے
ہیں زمیں بوس راحتوں کے محل
مٹ گئے قصہ ہائے فکر و عمل!
بزمِ ہستی کے جام پھوٹ گئے
چھن گیا کیفِ کوثر و تسنیم
زحمتِ گریہء و بکا بے سود
شکوہء بختِ نارسا بے سود
ہوچکا ختم رحمتوں کا نزول
بند ہے مدتوں سے بابِ قبول
بے نیازِ دعا ہے ربِ کریم
بجھ گئی شمعِ آرزوئے جمیل
یاد باقی ہے بے کسی کی دلیل
اتتظارِ فضول رہنے دے
رازِ الفت نباہنے والے
بارِ غم سے کراہنے والے
کاوشِ بے حصول رہنے دے
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
دکھ سے بھر پور دن تمام ہوئے
اور کل کی خبر کسے معلوم؟
دوش و فردا کی مٹ چکی ہیں حدود
ہو نہ ہو اب سحر، کسے معلوم؟
زندگی ہیچ! لیکن آج کی رات
ایزدیت ہے ممکن آج کی رات
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
اب نہ دہرا فسانہ ہائے الم
اپنی قسمت پہ سوگوار نہ ہو
فکرِ فردا اتار دے دل سے
عمرِ رفتہ پہ اشکبار نہ ہو
عہدِ غم کی حکایتیں مت پوچھ
ہو چکیں سب شکایتیں مت پوچھ
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
وہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پہناں
وہ حسن جس کی تمنا میں جنتیں پہناں
ہزار فتنے تہِ پائے ناز، خاک نشیں
ہر اک نگاہِ خمارِ شباب سے رنگیں
شباب جس سے تخیل پہ بجلیاں برسیں
وقار، جس کی رفاقت کو شوخیاں ترسیں
ادائے لغزشِ پا پر قیامتیں قرباں
بیاضِ رخ پہ سحر کی صباحتیں قرباں
سیاہ زلفوں میں وارفتہ نکہتوں کا ہجوم
طویل راتوں کی خوابیدہ راحتوں کا ہجوم
وہ آنکھ جس کے بناو پہ خالق اترائے
زبانِ شعر کی تعریف کرتے شرم آئے
وہ ہونٹ فیض سے جن کے بہارِ لالہ فروش
بہشت و کوثر و تسنیم و سلسبیل بدوش
گداز جسم ، قبا جس پہ سج کے ناز کرے
دراز قد سے سروِ سہی نماز کرے
غرض وہ حسن جو محتاجِ وصف و نام نہیں
وہ حسن جس کا تصور بشر کا کام نہیں
کسی زمانے میں اس رہگزر سے گزرا تھا
بصد غرور و تجمل، ادھر سے گزرا تھا
اور اب یہ رہگزر بھی ہے دلفریب و حسیں
ہے اس کی خاک میں کیف ِ شراب و شعر مکیں
ہوا میں شوخیء رفتار کی ادائیں ہیں
فضا میں نرمیء گفتار کی صدائیں ہیں
غرض وہ حسن اب اس رہ کا جزوِ منظر ہے
نیازِ عشق کو اک سجدہ گہ میسر ہے
بام و در خامشی کے بوجھ سے چور
آسمانوں سے جوئے درد رواں
چاند کا دکھ بھرا فسانہء نور
شاہراہوں کی خاک میں غلطاں
خواب گاہوں میں نیم تاریکی
مضمحل لے رباب ہستی کی
ہلکے ہلکے سروں میں نوحہ کناں
خیال و شعر کی دنیا میں جان تھی جن سے
فضائے فکر و عمل ارغوان تھی جن سے
وہ جن کے نور سے شاداب تھےمہ و انجم
جنونِ عشق کی ہمت جوان تھی جن سے
وہ آرزوئیں کہاں سو گئیں ہیں میرے ندیم؟
وہ ناصبور نگاہیں، وہ منتظر راہیں
وہ پاسِ ضبط سے دل میں دبی ہوئی آہیں
وہ انتظار کی راتیں، طویل تیرہ و تار
وہ نیم خواب شبستاں، وہ مخملیں باہیں
کہانیاں تھیں، کہیں کھو گئی ہیں، میرے ندیم
مچل رہا ہے رگِ زندگی میں خونِ بہار
الجھ رہے ہیں پرانے غموں سے روح کے تار
چلو کہ چل کے چراغاں کریں دیارِ حبیب
ہیں انتظار میں اگلی محبتوں کے مزار
محبتیں جو فنا ہو گئیں ہیں میرے ندیم!
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جابجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں میں محبت کے سوا
راحتیں او ربھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
کیوں میرا دل شاد نہیں
کیوں خاموش رہا کرتا ہوں
چھوڑو میری رام کہانی
میں جیسا بھی ہوں اچھا ہوں
میرا دل غمگیں ہے تو کیا
غمگیں یہ دنیا ہے ساری
یہ دکھ تیرا ہے نہ میرا
ہم سب کی جاگیر ہے پیاری
تو گر میری بھی ہو جائے
دنیا کے غم یونہی رہیں گے
پاپ کے پھندے، طلم کے بندھن
اپنے کہے سے کٹ نہ سکیں گے
غم ہر حالت میں مہلک ہے
اپنا ہو یا اور کسی کا
رونا دھونا، جی کو جلانا
یوں بھی ہمارا، یوں بھی ہمارا
کیوں نہ جہاں کا غم اپنا لیں
بعد میں سب تدبیریں سوچیں
بعد میں سکھ کے سپنے دیکھیں
سپنوں کی تعبریں سوچیں
بے فکرے دھن دولت والے
یہ آخر کیوں خوش رہتے ہیں
ان کا سکھ آپس میں بانٹیں
یہ بھی آخر ہم جیسے ہیں
ہم نے مانا جنگ کڑی ہے
سر پھوڑیں گے ، خون بہے گا
خون میں غم بھی بہ جائیں گے
ہم نہ رہیں ، غم بھی نہ رہے گا
آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہے ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اُسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اُس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی سیکھی ، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرماں کے، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتوانوں کے نوالوں پہ چھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈ لاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سوگئی راستہ تک تک کے ہر اک راہگزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں، بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا
چند روز اور مری جان! فقط چند ہی روز
ظلم کی چھاوں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
اور کچھ دیر ستم سہہ لیں، تڑپ لیں، رولیں
اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم
جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس کے
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
لیکن اب ظلم کی معیاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر، کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
عرصہء دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم کو رہنا ہے پہ یونہی تو نہیں رہنا ہے
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گرانبار ستم
آج سہنا ہے، ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے
یہ ترے حسن سے لپٹی ہوئی آلام کی گرد
اپنی دو روزہ جوانی کی شکستوں کا شمار
چاندنی راتوں کا بے کار دہکتا ہوا درد
دل کی بے سود تڑپ، جسم کی مایوس پکار
چند روز اور مری جان! فقط چند ہی روز